پاکستان نے آزادی کے بعد سے اب تک پچھتر سال کی مسافت طے کی ہے۔ اس عرصے میں ملک سیاسی اعتبار سے جن مسائل اور بحرانوں سے دوچار ہوا ان کے نقوش ہماری سیاسی تاریخ میں بہت گہرے ثبت ہوچکے ہیں۔ اس طویل مسافت کا حاصل آج کے غیریقینی کے حامل حالات ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ملک میں ریاستی اداروں کے زوال، نظمِ حکمرانی کے کم و بیش تحلیل ہو جانے، بدنظمی و لاقانونیت کے فروغ، معاشی مسائل کی روزافزونی، اور عوام کی وسیع تر مایوسی نے مستقبل کے حوالے سے اتنے سوالات اجاگر کردیے ہیں کہ جن پر غور کریں تو ذہن بہت سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں ہماری کارکردگی بہت زیادہ قابلِ فخر نظر نہیں آتی، تو تعلیم کے شعبے میں بھی صورتِ حال بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جس بڑی تعداد میں ملک سے ’برین ڈرین‘ ہو رہا ہے، اورجوہرِقابل ملک سے پرواز کر رہا ہے، گنتی کے چند اداروں کو چھوڑ کر ملک کے دیگر تعلیمی ادارے جس تیزی سے اوسط یا اوسط سے بھی کم تر درجے کے ادارے بنتے جا رہے ہیں، یہ سب رجحانات اسی زوال کے مظہر ہیں۔ گزشتہ پچھتر برسوں میں پاکستان کے تعلیمی منظرنامے میں مقداری اعتبار سے یقینا غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
1947ء میں ہمارے یہاں جتنے تعلیمی ادارے تھے آج ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن بغور دیکھا جائے تو ملک کی آبادی میں اضافے اور ملکی ضروریات کے پیشِ نظر تعلیم کے شعبے میں مقداری ترقی بھی جتنی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی ہے۔ پھر تعداد کے پہلو سے ہٹ کر معیار کو دیکھا جائے تو صورتِ حال اور بھی زیادہ افسوسناک نظر آتی ہے۔ پاکستان کا نظامِ تعلیم صرف ایک محدود حد تک اور ایک مخصوص طبقے کے لیے نتیجہ خیز رہا ہے لیکن دوسرے طبقات اور خاص طور سے عوام الناس کے نقطۂ نظر سے اس کے فوائد نہ ہونے کے برابر ثابت ہوئے ہیں۔ ذیل میں تعلیم کے 75سال کامختصر جائزہ نذر قارئین .
……٭٭……٭٭……٭٭……
تقسیمِ ہند سے قبل پاکستان کے حوالے سے جو نقشہ گری کی گئی تھی اس کی رُو سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مطلوب اس مملکت میں ایک فلاحی معاشرے کا قیام پیشِ نظر تھا۔ اس فلاحی معاشرے کے مختلف پہلوئوں کو تحریکِ پاکستان کے عمائدین نے بہت تکرار کے ساتھ اور بڑے بلند آہنگ میں عامتہ الناس کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس ضمن میں مسلمانوں کی تاریخ کے زرّیں اَدوار کے حوالے بھی بارہا دیے جاتے رہے تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو باور کیا جاسکے کہ پاکستان کس سمت میں آگے بڑھے گا اور یہ کہ یہاں عدلِ عمرانی کا دوردورہ ہوگا۔
تحریکِ پاکستان کے زمانے میں مسلمانوں کی تعلیم کا موضوع بھی سیاسی مکالمے کا حصہ رہا۔ مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک سبب بجا طورپر ان کی تعلیم کی پسماندگی کو بھی قرار دیا گیا جبکہ موعودہ مملکت کے حوالے سے یہی سوچ عام کی گئی کہ وہاں تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہوگی۔ قائداعظم اور ان کے رفقا کا بڑا حصہ خود بھی جدید تعلیم سے بہرہ ور تھا، یہاں تک کہ اس قیادت میں شامل اکثر خواتین بھی تعلیم کی دولت سے متصف تھیں۔
پھر ان میں سے بیشتر لوگوں نے یا تو یورپ کی تعلیمی درسگاہوں سے اکتساب علم کیا تھا، یا ہندستان میں علی گڑھ کالج، جامعہ ملیہ (دہلی)، سینٹ اسٹیفن کالج، نیز بنگال، پنجاب، سندھ اور سرحد کے معروف کالجوں اور دیگر اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ البتہ ہماری تحریکِ پاکستان کا یہ پہلو قدرے مایوس کن نظر آتا ہے کہ آزادی سے پہلے مسلم لیگ پاکستان کے حوالے سے کچھ زیادہ ہوم ورک نہیں کرسکی۔ نئی مملکت کا اقتصادی نظام کیا ہوگا، اس کے آئینی ڈھانچے کی صورت کیا ہوگی، یہاں تعلیم کے فروغ کے لیے کون سی حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی، بدقسمتی سے یہ سب امور مسلم لیگ کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکے۔
ہوسکتا ہے کہ اس کا ایک سبب وہ تیزرفتار واقعات اور حالات کی بحرانی کیفیت ہو جو تقسیمِ ہند سے چند برس قبل پورے ہندوستان کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس نے انگریز کے جانے کے بعد کے منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے قدرے ٹھوس کام اور بنیادی پالیسیاں پہلے سے بنائی ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ کا کام اس سلسلے میں اگر تھا بھی تو بہت ابتدائی نوعیت کا تھا مثلاً ہمیں تاریخ کی کتابوں سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے چند افراد کو غور و فکر کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی لیکن ایسی کوئی شہادت ہمارے سامنے نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس سمت میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت بھی ہوئی تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد تعلیم کے شعبے میں کسی حکمتِ عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت کو فوری بلکہ ہنگامی طورپر محسوس کیے جانے کا ایک رویہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ نومبر 1947ء میں تعلیم کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک کے عمائدینِ تعلیم نے شرکت کی۔ اس موقع پر قائداعظم نے جو پیغام بھجوایا، وہ ان کے طرزِفکر کا بہت اچھا مظہر تھا۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا: ’اگر ہم کوئی حقیقی، تیزرفتار اور بامعنی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کو اپنے عوام کی ذہانت اور فہم (genius) سے ہم آہنگ کرنا اور اپنی تاریخ اور ثقافت سے اس کی مطابقت کا اہتمام کرنا ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم کو اُن جدید تقاضوں اور ان وسیع تر ترقیات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا جو اطرافِ عالم میں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔۔۔ ہمارے لیے ضروری ہوگا کہ ہم اپنے عوام کو متحرک کریں اور اپنی مستقبل کی نسلوں کی کردارسازی پر زور دیں۔ مختصراً ہمیں مستقبل کی نسلوں کے کردار کی تعمیرِنو کرنی ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان میں احساسِ تفاخر، وقار، قوم کی بے لوث خدمت کا جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کریں۔‘
قائداعظم کا یہ پیغام ان کے اس آدرش کا ترجمان تھا جو انہوں نے پاکستان کے حوالے سے اپنے پیشِ نظر رکھا تھا۔ مذکورہ کانفرنس نے بہت سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی گروپ تشکیل دیے اور تعلیم کے ہمہ جہتی فروغ کے لیے ادارہ سازی کا کام شروع کیا۔ انہی اداروں کی کاوشوں کے نتیجے میں 1952ء میں وزارتِ تعلیم نے ایک چھ سالہ تعلیمی منصوبہ تشکیل دیا۔ ان ابتدائی کوششوں کے بعد مختلف ادوار میں پاکستان میں تسلسل کے ساتھ تعلیمی پالیسیاں آتی رہیں اور شاید ہی کوئی مرکزی اور صوبائی حکومت ایسی رہی ہو جس نے بڑے زور شور کے ساتھ کوئی بڑا تعلیمی منصوبہ نہ پیش کیا ہو۔
چنانچہ کبھی ’نئی روشنی اسکیم‘ کا دوردورہ ہوا، کبھی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ کا نعرہ بلند ہوا، کبھی ’تعلیم سب کے لیے‘ کی گردان کی گئی اور کبھی ’پنجاب یوتھ پالیسی‘ کی تشہیر ہوئی۔ آزادی کے بعد سے اب تک تقریباً نو تعلیمی پالیسیاں ملک میں متعارف کی جاچکی ہیں۔ نویں پالیسی اپنی ترمیم شدہ شکل میں اگست۔ ستمبر 2009ء میں منظرِعام پر آئی۔ مختلف ادوار میں پیش کی جانے والی پالیسیوں میں چار پالیسیاں زیادہ قابلِ ذکر ہیں کیونکہ یا تو ان کی تیاری بہت زور شور کے ساتھ ہوئی یا انہوں نے تعلیمی ماحول پر نسبتاً زیادہ اثر ڈالا۔ ان میں پہلی پالیسی ایوب خان کے 1958ء کے مارشل لاء کے بعد منظرِعام پر آئی جو شریف کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔
دوسری پالیسی ایئر مارشل نورخان کی تعلیمی پالیسی کے نام سے جنرل یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں منظرِعام پر آئی۔ تیسری پالیسی ذوالفقارعلی بھٹو کے عوامی دورِ حکومت میں پیش کی گئی جبکہ چوتھی پالیسی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں متعارف ہوئی۔ جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں بھی تعلیم کے شعبے میں دو تین منصوبوں کا اعلان ہوا۔ پاکستان کی ان تمام پچھلی پالیسیوں اور منصوبوں کو بیک نظر دیکھیں تو ان سب میں خوش آئند تصورات، غیرمعمولی توقعات اور کسی حد تک رومانویت کا عنصر جاگزیں نظر آتا ہے۔ ان میں سے کچھ پالیسیاں یا ان کے چند حصے دوسری پالیسیوں کا چربہ تھے جبکہ بعض پالیسیاں انفرادی خصوصیات کی حامل بھی تھیں۔
ایوب خان کی تعلیمی پالیسی میں امریکہ کے ہارورڈگروپ کے ماہرین کی سوچ نمایاں طورپر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس بھٹوصاحب کی تعلیمی پالیسی بنیادی طورپر ایک پاپولسٹ حکومت کی اس سوچ کی مظہر تھی جس کا مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو ان کی پسماندگی سے نکالنا تھا لیکن اس کارِخیر کے جو تقاضے تھے ان کی تکمیل کی اہلیت اس وقت کے ریاستی ڈھانچے کے پاس نہیں تھی۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنی تعلیمی پالیسی کے ذریعے معاشرے کو اپنی تعبیرِ اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے زمانے میں نصاب کو ایک مخصوص مذہبی قالب میں ڈھالا گیا جو پاکستان میں عوام کی سطح پر مروّج مذہبی رویوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں جہاد کے نام پر ملک میں ایک ایسی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا جس نے بعد میں معاشرے کے انتشار اور اس میں عدم رواداری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جنرل پرویزمشرف کا دورِ حکومت بظاہر ضیاء الحق کے مذہبی شدت پسندی کے رجحان سے مختلف تھا اور جنرل مشرف ’اعتدال پسند روشن خیالی‘ کے علمبردار تھے، لیکن ان کی یہ ’اعتدال پسند روشن خیالی‘ نہ تو معاشرے کی سطح پر اور نہ ہی تعلیم کے میدان میں کسی حقیقی اور مثبت تبدیلی کا مظہر بن سکی۔ ان کا نعرہ محض نعرہ ہی رہا۔ جبکہ معاشرے کے غیراعتدال پسند اور عدم رواداری کے رویوں میں اضافہ ہوتارہا۔
پچھتر سال کے غیرہموار تعلیمی سفر اور اصلاحات کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی بلند آہنگ لفاظی کے باوجود آج پاکستان کا تعلیمی منظرنامہ کیا ہے؟ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان جس کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، اس میں ساٹھ فیصد لوگ تیس سال یا اس سے کم عمر کے حامل ہیں۔ ایک تجزیے کے مطابق پاکستان میں بیس برس سے کم عمر کے لوگ آبادی کے نصف کے برابر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں گیارہ کروڑ سے زیادہ لوگ بیس برس سے کم عمر کے ہیں۔
ملک میں شرح خواندگی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 62.8فیصد ہے (’اِکنامک سروے آف پاکستان‘، 2021-22ء) جبکہ غیرسرکاری اندازے اس کو چالیس سے پینتالیس فیصد ظاہر کرتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہماری شرح خواندگی تیرہ فیصد تھی جو پچھتر سال میں 62.8فیصد تک پہنچی ہے۔ شرح خواندگی میں اضافے کی یہ رفتار دیکھیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوفیصد شرح خواندگی تک پہنچنے میں ملک کو اور کتنے سال لگیں گے۔
2021-22 کے ’اکنامک سروے آف پاکستان‘کے مطابق پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.77فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ اس تناسب سے تعلیم پر کیے جانے والے خرچ کے بعد یہ ناممکن ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مکمل پرائمری تعلیم (universal primary education) کا ہدف حاصل کرسکے گا جس کا عندیہ وہ دیتا رہا ہے اور جو اس کی طرف سے عالمی سطح پر کیا گیا ایک وعدہ بھی ہے۔ دراصل 1999ء میں دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ پاکستان نے اُس دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کی رَو سے اس کو 2015ء تک مکمل پرائمری تعلیم کا ہدف حاصل کرنا تھا لیکن تب سے اب تک مختلف حکومتیں زبانی جمع خرچ کے سوا اس سمت میں اور کچھ نہیں کرسکیں۔
شرحِ خواندگی کے ضمن میں اتنے اونچے خواب دیکھے اور قوم کو دکھائے جاتے رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں کیا عقلِ سلیم بالکل ہی مفقود ہے۔ مثلاً 2005ء میں یہ کہا گیا کہ 2015ء تک ملک میں مکمل خواندگی حاصل کرلی جائے گی۔ 2006-7ء تک پہنچتے پہنچتے یہ کہا جانے لگا کہ 2015ء تک ہم 86فیصد تک کا ٹارگٹ حاصل کر پائیں گے۔ مشرف کے زمانے کی نیشنل ایجوکیشن پالیسی نے یہ اعداد ایک فیصد مزید کم کرکے بیان کیے۔
اس وقت جبکہ ملک کی شرح خواندگی 62.8 فیصد ہے اوریہ فیصد ہم نے پچھتر سال میں حاصل کیا ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیے مکمل خواندگی کی منزل کتنی دور ہے۔ یہ تو چند اعدادوشمار ہیں خواندگی کی شرح کے۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ خواندگی اور تعلیم میں اور پھر تعلیم اور علم میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر خواندہ فرد تعلیم یافتہ بھی ہو اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر تعلیم یافتہ شخص واقعی علم کا حامل اور عالم بھی ہو۔ کیونکہ کسی کے تعلیم یافتہ قرار دیے جانے کے لیے اس کا ڈگری یافتہ ہونا کافی ہے۔
شرح خواندگی اور تعلیم کے قابلِ افسوس اعدادوشمار پر مستزاد تعلیمی اداروں کی صورتِ حال ہے۔ ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں اور بہت سے شہری علاقوں کے اسکولوں میں بھی نہ تو مناسب تعداد میں کلاس رومز ہیں اور نہ ہی کھیل کے میدان یا سائنسی تجربہ گاہیں ہیں۔ ایسے اداروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جہاں بیت الخلاء بھی موجود نہیں ہیں۔ جبکہ بڑی تعداد میں سرکاری اسکولوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔
مندرجہ بالا تفصیلات کو پاکستان کی پسماندہ تعلیمی صورتِ حال کی محض ایک جھلک ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر جتنا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے اتنا ہی اس پسماندگی کی تفصیلات نظروں کے سامنے آتی چلی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ اس ضمن میں کم از کم پانچ بنیادی اسباب کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلی اور بنیادی بات خود پاکستانی ریاست کا اپنا تشخص ہے۔ ہم نے شروع میں قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے ان آئیڈیلز کی طرف اشارہ کیا تھا جن کے حصول کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ آئیڈیلز ایک فلاحی ریاست کے اہداف تھے اور ایک فلاحی ریاست وہ ریاست ہوتی ہے جس کی جملہ پالیسیوں اور ترقیات کا رُخ عوام کی بہبود کی طرف ہوتا ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے اس ہدف کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے ایک ایسے ریاستی دروبست کا حامل بنا جو اپنے تشخص اور کردار میں قومی سلامتی کی ریاست کا تشخص اور کردار تھا۔ قومی سلامتی کی ریاست محض اپنی دفاعی استعداد کو بڑھانے اور اپنی افواج کی تعداد اور اہلیت کو بڑھانے ہی کو ملک کی سلامتی کی واحد ضمانت سمجھتی ہے خواہ اس کی قیمت عوام کی پسماندگی، جہالت اور غربت کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔
قومی ترجیحات میں تعلیم کی حیثیت بہت معمولی ہونے کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ خود تعلیمی نظام کے داخلی تضادات ہیں۔ یہ تضادات بھی کئی طرح کے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کا پہلا تضاد ملک میں بیک وقت کئی طرح کے نظام ہائے تعلیم کی موجودگی ہے۔ اس وقت ملک میں چار طرح کے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ اداروں کی ایک قسم وہ ہے جو اشرافیہ کے اسکولوں پر مشتمل ہے۔ ان میں پرائیویٹ سیکٹر کے اسکول بھی آتے ہیں جن میں بہت سے اب ایک لڑی (chain) کی شکل میں پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ اشرافیہ کے ان اسکولوں کا معیار یورپی ممالک کے اسکولوں کے برابر ہے اور ان کی فیسیں بھی اتنی زیادہ ہیں جو صرف امراء کا طبقہ ہی دے سکتا ہے۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بالعموم اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔
اسکولوں کی دوسری قسم انگریزی میڈیم کے عام اسکول ہیں، جہاں اردو میڈیم اسکولوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر سہولتیں، بہتر اساتذہ اور نصابی کتب دستیاب ہوتی ہیں۔ یہاں کا ماحول اشرافیہ کے اسکولوں کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا لیکن یہاں بھی بچوں کو او لیول اور اے لیول کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انگریزی میں ان کی استعداد اردو میڈیم یا پبلک سیکٹر کے اسکولوں کے بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسکولوں کی تیسری نوع سرکاری یا پبلک سیکٹر کے اسکولوں کی ہے۔
ان اسکولوں کا حال سب سے بُرا ہے۔ یہاں نہ مناسب عمارتیں اور کمرے ہیں نہ کھیل کے میدان اور نہ ہی مناسب لائبریریاں اور لیبارٹریاں ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سے اسکولوں میں بیٹھنے کے لیے کرسیوں تک کا انتظام نہیں ہے۔ یہاں ایک کلاس میں طلبا کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہوتی ہے۔ اساتذہ کا معیار بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ یہاں تدریس کے طریقے بھی بڑے روایتی قسم کے ہوتے ہیں۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں وہ تعلیمی ماحول نہیں پایا جاتا جو بچوں کو تعلیم کی طرف مائل کرے اور اسکول کے ساتھ ان کی دلی وابستگی کو استوار کرنے میں مددگار ثابت ہو۔
تعلیمی اداروں کی ایک چوتھی قسم وہ ہے جو دینی مدارس پر مشتمل ہے۔ دینی مدارس مختلف مسالک کے زیرِانتظام چلتے ہیں اور اب یہ تمام مدارس مختلف وفاقوں میں یکجا ہوچکے ہیں۔ان میں بڑی تعداد میں بچوں کا داخلہ پاکستانی معاشرے میں غربت کی غیرمعمولی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ غریب والدین، خاص طور سے وہ جو دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، بچوں کی پرورش کے وسائل سے محروم ہونے کی بنا پر ان کو دینی مدارس میں داخل کروا دیتے ہیں جہاں ان کا قیام، کھانا پینا، لباس اور کاپیوں کتابوں کی ذمہ داری مدرسے کے اوپر ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں جو کام ریاست کے کرنے کا تھا وہ دینی مدارس کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دینی مدارس کی غالب اکثریت کسی ایک یا دوسرے مسلک سے وابستہ ہے۔ ڈائریکٹریٹ جنرل آف ریلیجیس ایجوکیشن کے مطابق پینتیس ہزار مدارس میں سے پچیس ہزار مدارس مختلف مسلکی بورڈز سے وابستہ ہیں چونکہ یہ ادارے مخصوص مسلک اور فقہ کی تعلیم دیتے ہیں لہٰذا یہاں پڑھنے والے بچے ایک محدود قسم کا تصورِ حیات (World view) لے کر باہر نکلتے ہیں۔
ان کو شروع ہی سے دوسرے مسالک کے حوالے سے تحفظات کا حامل بنا دیا جاتا ہے اور معاشرے کے اندر پائی جانے والی عدم رواداری ان کے معاملے میں اوربھی زیادہ گہری اور مخصوص مذہبی اسناد سے تقویت حاصل کرتی ہوئی سامنے آتی ہے۔ دینی مدارس کے طلبا ُکل وقتی اقامتی اداروں میں رہتے ہیں، لہٰذا ان کا طرزِ بودوباش بھی ایک مخصوص انداز پر استوار کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ ایک وسیع تر معاشرے میں خود کو قدرے اجنبی محسوس کرتے ہیں اور معاشرہ بھی ان کو اپنے اندر جذب کرنے میں ُبخل سے کام لیتا ہے۔
تعلیم کے شعبے کا دوسرا بڑا تضاد ہمیں شہری اور دیہی کی تفریق کی صورت میں نظر آتا ہے۔ دیہی علاقے شہری علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پسماندہ اور بنیادی ڈھانچے سے محروم ہیں۔ اس کا براہِ راست اثر دیہی معاشرت کے مختلف شعبوں پر مرتب ہوتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مثلاً دیہی علاقوں کے اسکول میں سہولتیں شہری علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم ہیں۔
اینوُول اسٹیٹس آف ایجوکیشن (ASER)کی رپورٹ بابت2021ء کے مطابق دیہی علاقوں میں 6سے 16 سال تک کے بچوں کی 81فیصد تعداد اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ اس عمر کے گروپ کے 19فیصد بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ جہاں تک سہولتوں کا تعلق ہے مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2021ء میں 70فیصد سرکاری پرائمری اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود تھی۔نجی پرائمری اسکولوں میں 71 فیصد اسکول 2021ء میں بیت الخلاء کی سہولت کے حامل تھے۔
تعلیم کے میدان میں تضاد کا ایک اور بڑا مظاہرہ صنفی اعدادوشمار کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں بحیثیت مجموعی تعلیم کی دوڑ میں پیچھے نظر آتی ہیں جس کی وجہ سہولیات کی کمی اور عمومی معاشرتی صورتِ حال ہے۔ چنانچہ 2020-21ء کے لیبر فورس سروے کی رُو سے شہری علاقوں میں مردوں کی 82.2فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں عورتوں کی شرح خواندگی صرف 69.7فیصد ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں مردوں کی 67.1فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں عورتوں کی شرح خواندگی صرف 40.4فیصد ہے۔
دیہی علاقوں میں جہاں اسکول گائوں سے زیادہ فاصلے پر ہوں وہاں بچیوں کا اسکول جانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح غربت کے شکار والدین بچیوں کی تعلیم کے مقابلے میں لڑکوں کی تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم میں لڑکیوں کا تناسب خاص طور سے بعض مخصوص مضامین میں لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس صورتِ حال کا زیادہ واضح مظاہرہ ہمیں یونیورسٹیوں اور میڈیکل کے اداروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
تعلیم کے شعبے کا تضاد ہمیں اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے عدم تناسب میں بھی نظر آتا ہے۔ ایک مربوط نظامِ تعلیم اصولی طورپر اسکولوں اور ان سے اوپر کے اداروں کے درمیان ایک واضح تناسب پر استوار ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں پچھلے بیس پچیس برسوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے قیام میں غیرمعمولی جوش و خروش دکھایا گیا ہے جبکہ ابتدائی تعلیم کے ادارے اس کے مقابلے میں نظرانداز کیے جاتے رہے ہیں۔
اس امر کا مظاہرہ تیزی کے ساتھ بننے والی یونیورسٹیوں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 1992-93ء میں ملک بھر میں 27یونیورسٹیاں تھیں جو 2010-11ء میں بڑھ کر 135ہوگئیں۔ اس وقت ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد 218ہے۔ یونیورسٹیوں میں اضافے کے مقابلے میں اسکولوں میں اضافے کا تناسب کہیں کم ہے۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی افزائش کا یہ عدم تناسب واضح کرتا ہے کہ ہمارے ماہرینِ تعلیم اور حکومتیں اسی خیال کی حامل رہی ہیں کہ ملک کی تعلیمی ترقی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافے میں مضمر ہے۔
وہ یہ دیکھنے سے قاصر رہی ہیں کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم عام نہ ہونے اور ان کا معیار بلند نہ ہو پانے کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کی نشوونما بھی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جامعات میں وہ کام مناسب انداز میں نہیں ہو رہا جو جامعات کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ یعنی ہماری جامعات تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ان کو زیادہ سے زیادہ تدریسی ادارے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تدریس اور تحقیق دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہمارے ہاں واضح طورپر تحقیق نظر انداز ہو رہی ہے۔
تعلیم کی صوبوں میں منتقلی
2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بنیادی فیصلہ ہے جو صوبائی خودمختاری کے مطالبات اور ضروریات کے پیشِ نظر کیا گیا۔ بظاہر یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں جہاں وفاقی طرزِحکومت پایا جاتا ہے تعلیم صوبوں ہی کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل غیرمنقسم ہندوستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں بھی تعلیم کو صوبوں کی ذمہ داری ٹھہرایا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان امریکہ اور کئی دوسرے وفاقی ممالک میں تعلیم بڑی حد تک صوبوں ہی کے دائرۂ کار میں شامل ہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد البتہ تعلیم کو مرکزی مضمون بنا دیا گیا۔
ہرچند کہ آئینی اعتبار سے یہ 1973ء کے دستور میں مشترکہ فہرست میں شامل تھی لیکن کیونکہ ملک میں مجموعی منصوبہ بندی پر مرکز کا کنٹرول تھا لہٰذا تعلیم بھی مکمل طور پر مرکز ہی کے اختیار میں چلی گئی۔ اب جبکہ تعلیم صوبوں کو منتقل کردی گئی ہے اور مرکزی وزارتِ تعلیم سولہ دیگر مرکزی وزارتوں کی طرح ختم ہوچکی ہے، صوبوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ وہ برسہابرس سے اختیارات اور وسائل کے طلب گار رہے ہیں، اب یہ دونوں چیزیں ان کو دستیاب ہوچکی ہیں تو ان کی آزمائش کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔
صوبے کس طرح تعلیم کے شعبے کو چلاتے ہیں، ان کی کارکردگی مرکزی وزارتِ تعلیم کی اس کارکردگی سے بہتر ہو پاتی ہے یا نہیں جو خود سوالیہ نشان بنی رہی تھی، یہ سب امور آنے والے ماہ و سال میں واضح ہو پائیں گے۔ تعلیم کے شعبے میں پائے جانے والے تضادات، جن کا اوپر ذکر کیا گیاہے، اب صوبوں کو حل کرنے ہوں گے۔ وہ ایسا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ بھی مستقبل میں واضح ہوگا۔
پاکستان کا پچھتر سال کا تعلیمی سفر ہرچند کہ مکمل طورپر بے سود قرار نہیں دیاجاسکتا کیونکہ بہرحال خواندگی کی شرح اور تعلیم کے پھیلائو میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ قابلِ اطمینان بھی نہیں ہے۔ اسی مدت میں دنیا کے دوسرے ملکوں نے غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ سری لنکا کی شرح خواندگی 97فیصد سے اوپر ہے۔ جنوبی کوریا، ملائشیا، سنگاپور اور متعدد دوسرے ممالک تعلیم کے میدان میں کہیں آگے جاچکے ہیں۔
لیکن پاکستان اپنی مجموعی قومی ترجیحات میں تعلیم کو مناسب جگہ نہ دینے اور تعلیم کے شعبے میں پائے جانے والے متنوع تضادات کی بنا پر کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل نہیں کرسکا۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے کچھ تعلیمی سفر طے تو کیا ہے لیکن یہ بحیثیت مجموعی ہماری قوم اور ملک کے لیے وسیلۂ ظفر نہیں بن سکا۔ شاید مستقبل میں ہم اس کی تلافی کرسکیں۔