مُون سُون کا آغاز ہوتے ہی ملک بھر سے جو افسوس ناک خبریں آنا شروع ہوئی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا بلکہ ان میں بتائے گئے جانی اور مالی نقصانات کی شرح بھی روز بہ روز بڑھتی گئی۔اس ضمن میں صوبہ بلوچستان سر فہرست ہے جس کا زیادہ ترحصہ غم اور الم کی تصویر بن گیا ہے۔ اب بھی ملک میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اس سے پہلے ہم گلیشیئرز پھٹنے، شدید گرمی ، شدید سردی اور خشک سالی کے مراحل سے گزرے تھےاور اب شہروں کے سمندر بُرد ہونے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے،یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔
چند یوم قبل وفاقی سیکریٹری برائے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی ،نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ آئندہ برسوں میں سمندر 36 سے 50 سینٹی میٹر بلند ہوسکتا ہے اور بڑے بڑے اس میں ڈوب ہو سکتے ہیں۔ اس کمیٹی کی چیئرپرسن سیمی ایزدی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں چیئرمین این ڈی ایم اے اور سیکریٹری برائے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے بریفنگ دی تھی۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاتھا کہ سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہورہی ہیں اور شمالی علاقہ جات میں گلیشیئر پھٹنے کے اٹھارہ واقعات ہوچکے ہیں۔ اجلاس میں سیکریٹری برائے وزراتِ موسمیات تبدیلی، آصف حیدر شاہ کا کہنا تھا کہ دس لاکھ افراد دریاؤں کے کنارے پر رہتے ہیں جو وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے اس لیے نقصان ہوتا ہے۔ ان کے مطابق آئندہ برسوں میں پینے کے پانی کی قلت ہو سکتی ہے، ہمیں وزارتِ آبی وسائل کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات ایوی ایشن کے ماتحت ہے اور وہ وارننگ دے دیتے ہیں، اصل میں صوبوں میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے، موسم کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
آفاقی حقیقت
آج آفاقی حقیقت یہ ہے کہ کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ سائنس دانوں نے سیٹلائٹ سے حاصل شدہ تصاویر کی مدد سے انکشاف کیا ہے کہ تیس برسوں میں زمین 28 ہزار ارب ٹن برف سے محروم ہو گئی ہے۔ مذکورہ نتائج برطانیہ کی لیڈز اور ایڈنبرگ یونیورسٹی کے ماہرین نے 1994 سے 2007 تک سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئیں تصاویر کا جائزہ لے کر اخذ کیے ہیں۔
ماہرین کے مطابق قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور تیس برسوں میں زمین کی 28 ہزار ارب ٹن برف پانی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ برف موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پگھل کر سمندروں کا حصہ بن چکی ہے۔ تیزی سے پگھلتی ہوئی برف کے باعث اس صدی کے اختتام تک سمندروں کی سطح ایک میٹر تک بلند ہو چکی ہوگی جس سے دس کروڑ افراد اپنے نشیبی علاقوں سے بے گھر ہو جائیں گے اور کئی علاقے سمندر بُرد ہو جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برف سورج کی روشنی کو واپس منعکس کرتی ہے جس سے درجہ حرارت اور شمسی شعاعوں کی تاب کاری ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ برف کے خاتمے سے زمین کا درجہ حرارت اور تیزی سے بڑھے گا اور تاب کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔
موسمیات کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014سے لے 2019 تک کا پانچ سالہ عرصہ ریکارڈ کے اعتبار سے سب سے گرم تھا۔ ان پانچ برسوں میں سطح سمندر میں نمایاں تیزی کےساتھ ضافہ ہواکیوں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایم او کی جانب سے 2019 میں جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 1993 کے بعد سےسطح سمندر میں اضافے کی اوسط شرح ہر سال 3.2 ملی میٹر رہی۔ مئی2014 سے 2019 تک ہر سال پانچ ملی میٹر اضافہ ہوا۔ 2007 سے 2016 کے دس سالوں میں اوسطاً ہر سال چار ملی میٹر کے حساب سے اضافہ ہوا۔
بڑھتا ہوا خطرہ
دوسری جانب حال ہی میں ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم آئی یو سی این، وزارت برائے موسمی تبدیلی اور اقوام متحدہ کے ادارےایمرجنسی فورس کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ساحلی کٹاؤ کی بڑی وجہ ترقیاتی کاموں میں بدانتظامی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو پچھلے دنوں جو کچھ بتایا گیا وہ دراصل کوئی نئی بات نہیں بلکہ سات برس قبل پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی کے سربراہ نے اس وقت کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس کے اراکین کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ موسمی تبدیلی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور ساحلی علاقوں پر غیر منظم تعمیرات کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹھہ اور بدین سنہ 2060 تک سمندر میں ڈوب چکے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدین اور ٹھٹھہ تو 2050 تک ڈوب چکے ہوں گے، لیکن دو کروڑ سے زاید آبادی کا شہر کراچی 2060 تک ڈوب جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان تینوں شہروں کو سمندر کی سطح میں اضافے کے باعث بہ راہ راست خطرہ ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ان تینوں شہروں کو بچانا مشکل ہے۔ بدین اور ٹھٹھہ میں بائیس لاکھ ایکڑ اراضی زیرِ آب آچکی ہے۔ بلوچستان حکومت کے نمائندے نے قائمہ کمیٹی کو مطلع کیا کہ پینتیس برسوں میں بلوچستان کا دو کلومیٹر کا ساحلی علاقہ سمندر میں ڈوب چکا ہے۔
دوسری جانب ورلڈ بینک کے مطابق کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندر کی سطح میں اضافہ دو طرح سے ہو رہا ہے۔ اوّل یہ کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف اور گلیشیئر زیادہ پگھل رہے ہیں جس سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوم، درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندر کا پانی پھیل رہا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی سطح پر سمندر کی سطح میں 1880 سے 2015تک210ملی میٹر سے240ملی میٹرتک اضافہ ہوچکا تھا۔ اس اضافے میں سے ایک تہائی دو دہائیوں میں ہوا ہے۔ سمندر کی سطح میں موجودہ اضافہ تین ملی میٹر سالانہ ہے۔
ماہرین کے مطابق سمندر کی سطح بڑھنے کی رفتار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس رفتار سے ہوتی ہے اور اگر موسمیاتی تبدیلی میں تیزی آئی تو اسی رفتار سے گلیشیئر پگھلنے کا عمل ہو گا اور سمندروں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ادہر عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک عالمی سمندر کی سطح دو میٹر تک بلند ہوسکتی ہے اور180ملین افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔
ماہرینِ موسمیات نے نئی تحقیق میں سمندرکی سطح کی صورت حال پر اپنا جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں موجود برف کے بڑے بڑے تودے سمندر کی سطح میں درجنوں میٹر تک اضافہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تحقیق کے مطابق بڑھتی ہوئی حِدّت کے باعث سمندر میں اضافے سے بھی پانی کی سطح بلند ہوسکتی ہے جس سے فرانس ،جرمنی، اسپین، برطانیہ کے رقبے جتنی زمین سمندر میں شامل ہو جائے گی۔
کیا سمندروں کی بلند ہوتی سطح کو روکنا ممکن ہے؟
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے گلیشیئرز اور برف کی چادر پگھلتی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں سمندروں کی سطح کو بلند ہونے سے روکنا ضروری ہو گیا ہے اور اسی میں انسان کی بقا ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سے منجمد براعظموں پر سے برف کی چادر نے بہ تدریج پگھلنا شروع کر دیا ہے۔
پگھلتی برف پانی کی صورت میں سمندروں میں پہنچ رہی ہے اور یہ عمل شہروں کے لیے زلزلوں میں سونامی کا روپ دھار سکتا ہے۔ ماہرین کے بہ قول ایسی صورت حال قیامت جیسی ہو سکتی ہے اور لاکھوں انسانوں کے موت کے منہ میں جانے کا امکان بڑھ جائے گا۔ بہ ظاہر یہ تصویر انتہائی ہیبت ناک اور ڈراؤنی ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ ٹریلین ٹن برف کے پگھلنے سے انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں تاوقتیکہ وہ کسی جزیرے کے باسی نہ ہوں یا پھر کسی ساحل کے مکین نہ ہوں۔
ہمیں معلوم ہے کہ زمین کے دس فی صد حصے پر برف کی موٹی چادر پھیلی ہوئی ہے۔ اس برف کے ٹوٹنے اور پگھلنے کے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ برف کے پگھلنے سے بننے والا تازہ پانی سمندروں کی نمکیات کی شدت کم کر دے گا۔ اس عمل سے سمندری رو کا قدرتی نظام متاثر ہو جائے گا۔ یہ ساری صورت حال زیادہ سمندری طوفانوں کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ زیادہ سمندری طوفانوں سے زمین پر زیادہ بارشیں اور شدید سیلابوں کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے اور بحر اوقیانوس کے اطراف میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ منظر نامہ انسانی بستیوں کے لیے سنگین حالات کا باعث ہو گا۔
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق زمین کے منجمد براعظموں پر ماحول کے گرم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے سے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گرم ہوتا ہوا ماحول صرف برف ہی نہیں پگھلا رہا بلکہ ماحولیاتی ہوائی نظام کو بھی بہ تدریج کم زور کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان منجمد براعظموں کی برف حقیقت میں سورج کی حدت کو زمین پر پہنچنے سے قبل واپس لوٹا دیتی ہے اور جوں جوں قطبین کی برف کی چادر کم زور ہوتی جائے گی توں توں سورج کی حدت زمین میں جذب ہوتی جائے گی اور انجذاب کا یہ عمل سمندروں کا مرہون منت ہوگا۔
سمندروں میں سورج کی حدت کے جذب ہونے سے سمندری حیات ناپید ہونا شروع ہو جائے گی۔ سمندری نباتات، مچھلیاں، سمندری پرندے، برفانی ریچھ بہ تدریج ناپید ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔ اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت اسی رفتارسے بڑھتا رہا تو اختتام صدی تک زمین کی مستقل برفانی چادر کا چالیس فی صد پگھل سکتا ہے۔
برف کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہوتی چلی جائے گی اور یہ امکان ہے کہ جب قطبین کی برف پگھل جائے گی تو زمین کے سمندروں کی سطح ساٹھ میٹر تک بلند ہو جائے گی۔ یہ قیامت سے کم نہیں ہوگا۔ اس صورت میں زمین کے بڑے بڑے ساحلی شہر، مثلا لندن، وینس، ممبئی، کراچی، ڈھاکااور نیویارک سٹی وغیرہ گہرے پانی کے نیچے چلے جائیں گے۔
بعض محققین نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک سمندروں کی سطح دو میٹر تک بلند ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ایک خطرناک منظر کی آئینہ دار ہے۔ ایسی صورت میں لاکھوں افراد کو ساحلی علاقوں سے ہجرت کرنا پڑے گی۔ چناں چہ زمین کی مستقل برف کی چادر کو بچانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ اس کا سب سے آسان حل مضر گیسوں کا اخراج کم سے کم کر کے ماحولیاتی آلودگی کوکم سے کم کرنا ہے۔
بقا کے لیے عمل کا وقت آن پہنچا ہے
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قمر الزمان چوہدری کے مطابق بارشوں کی غیر معمولی نوعیت اور شدید واقعات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی واضح نشان دہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو فطرت کے جھٹکوں کے خلاف اپنے بنیادی ڈھانچے اور نظام کی کلائمیٹ پروفنگ پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ اس سے نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہے کیوں کہ تخفیف کا بہت کم طریقہ ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔
ہماری عدم دل چسپی اور غیر مستحکم نظام کے باعث پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مسلسل سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ، اگر موسم اسی طرح بگڑتے رہے تو مستقبل میں کئی ساحلی ملک ڈوب جائیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے سمندر کی سطح میں سالانہ کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے لیکن اب یہ فکر لا حق ہورہی ہے کہ پانی کی سطح بلند ہونے کی رفتار کئی سینٹی میٹر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
چند سال قبل کولمبیا یونیورسٹی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں موسموں میں عالمی تبدیلیوں سے سطح سمندر کے بلند ہونے کے قانونی پہلوئوں پر غور کیا گیا۔ کانفرنس میں شر یک آسٹریلیا کی نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی کی پر وفیسر روز میری رے فیوز کے مطابق ہمارے پاس ریاستوں کی تخلیق کے بارے میں قوانین موجود ہیں، لیکن کرہ ٔ ارض سے غائب ہو نے والی ریاستوں سے متعلق کوئی قوانین نہیں ہیں۔ کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ، ذمہ داروں میں امریکا اور چین کا بہت بڑا ہاتھ ہے، کیوں کہ ان دونوں ممالک کا شمار صنعتی ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہائوس گیسیں فضا میں چھوڑتے ہیں جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی سےو ابستہ میری الینا کار کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ، اس وقت سمندر کی سطح چند ملی میٹر سالانہ کی شر ح سے بلند ہورہی ہے، مگر 2021 ءتک پہنچتے پہنچتے اس رفتار میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گرین ہائوس گیسیں زمین کی اوپر ی فضا میں حرارت کو روک لیتی ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بڑے ملکوں نے خطرے میں گھرے ہوئے چھوٹے جزائر کی مدد نہ کی تو ایک دن ان کا وجود بھی مٹ جائے گا۔ جزائر پر مشتمل ترقی پذیر چھوٹی ریاستیں، پوری دنیا کی نگہبان ہیں ،ہمارے ساتھ جو کچھ آج ہو گا، اس کا خمیازہ باقی سب کو بھگتنا پڑے گا۔ سائنس داں پیش گوئی کررہے ہیں کہ سمندر کی سطح بلند ہونے سے صرف چھوٹے ملکوں کے نہیں بلکہ بڑے ملکوں کے ساحلی علاقے بھی ڈوب جائیں گے۔
ہمارے نقصان کی شرح
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سالانہ 50 ہزار ایکڑ زمین سمند ر بر د ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کا 750کلو میٹر ،سندھ کا 350 کلو میٹر اورٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں22لاکھ ایکڑز زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے 2050 ء تک کراچی، ٹھٹھہ اور بدین صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کےساتھ ساتھ سمندری پھیلاؤ کا انتظام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، تا کہ قیمتی املاک اور انسانی جانوں ک و محفوظ کیا جاسکے۔
دریائے سندھ کا پانی سمندر میں نہ گرنے کی وجہ سے نمکین پانی آگے بڑھنے لگا ہے ،اس کے علاوہ یہ سمندر 35 لاکھ ایکڑزمین بھی نگل چکا ہے ،سیکڑوں گوٹھ ڈوب گئے ہیں اورپانی ٹھٹھہ کے شہر جھرک تک پہنچ چکا ہے ،ساحلی پٹی پر آباد کئی بستیاں غرقاب ہوگئی ہیں ، وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔ ڈیلٹا میں میٹھا پانی نہ پہنچنے کے سبب ٹھٹھہ ،بدین اور سجاول کے اضلاع کو سمندر کے کھارے پانی نے تباہ وبرباد کر دیا ہے ،پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے اور میٹھا پانی نہ ہونے کی وجہ سے سر سبز زمینیں بھی بنجر ہوگئی ہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، دریائے سندھ کا پانی پہلے 180 ملین ایکڑ فیٹ 400 ملین ٹن مٹی کے ساتھ سمندر میں داخل ہوتا تھا، لیکن کئی برسوں سے پانی حیدرآباد سے آگے جانے کے باعث سمندری پانی آہستہ آہستہ دریائے سندھ میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔
پانی سمند ر میں نہ چھوڑنے کی وجہ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آنے والے مینگروز کے جنگلات ختم ہورہے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ، ڈیلٹائی علاقوں میں در یائے سند ھ کا پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے پچّیس، تیس بر سوں میں تین اضلاع (ٹھٹھہ،سجاول اور بدین )کے ساتھ کراچی کی ساحلی پٹّی پر آباد کئی بستیاں سمندر کے پانی کی نذر ہوجائیں گی۔
علاوہ ازیں سمندر کے قر یب ڈام ولیج کو بھی سمندر سے خطرہ لاحق ہے ،یہاں پر کافی زمین سمندر برد ہوچکی ہے۔ ذرایع کے مطابق حب کے ساحلی علاقوں میں ڈام سب سے زیادہ سمندر سے متاثر ہورہا ہے۔ تیرہ ہزار سے زاید باسیوں کے مسکن کو سمندر سےچند برسوں میں کافی نقصان ہوا ہے۔ ڈام ولیج کے قریب میانی مور میں تیز لہریں تین میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے بنتی ہیں ،جس کے سبب گزشتہ کئی سالوں سے کافی نقصان ہورہا ہے۔
پاکستان کوسٹ گارڈز کے دفتر کے علاوہ 200 سے زاید دکانیں بھی اس کی زد میں آچکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گوادر اور پسنی کے بعد ڈام کا یہ علاقہ سمندری خوراک کا سب سے بڑا سیکٹر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ،سمندر کی سطح میں اضافہ، انسانی غفلت ، عدم دل چسپی اور بگڑتے ہوئے ماحول کو نظر انداز کرنا اس تباہی کی اہم وجوہ ہیں۔ مون سون میں سمندر میں طغیانی اور اونچی لہروں سے علاقے کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو مستقبل میں بڑے نقصان کا خدشہ ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ ضلع ٹھٹھہ کی 24 لاکھ ایکڑ زمین پہلے ہی سمندر کی نذر ہوچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے 220 کلو میٹر طویل کوسٹل ہائی وے ، ٹھٹھہ اور بدین کو بچانے کے لیے 225 کلو میٹر دیوار بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم آئندہ 50 برسوں میں جب سطح میں 5 سینٹی میٹر کا اضافہ اور موسم میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی تو کیا یہ دیوار سمندر کوآگے بڑھنے سے روک سکے گی؟
ماہرین ماحولیات کے مطابق، سندھ کی 615 مربع کلو میٹر زمین کے سمندر برد ہونے کا خدشہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے خِطّے کے سمندر بُرد ہوجانے کی وجہ سے بے زمین ،بے روز گار اور بے آسرا لوگوں کی نئے علاقوں میں آباد کاری کا مسئلہ بھی سر اُٹھائے گا ۔اگر اس کی فی الفور پیش بندی نہیں کی گئی تو لاکھوں افراد ا کوپنے ہی ملک میں مہاجرکیمپوں کا رخ کرنا پڑے گا۔
اس ماحولیاتی مسئلے کے باعث دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ مختلف ممالک ان تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ چناں چہ ہمارے متعلقہ حکام اورتحفظ ماحولیات کے اداروں کو چاہیے کہ اس مسئلے کو اپنی تر جیحات میں شامل کریں ،تا کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔
مسئلے کے حل کی تجاویز
عالمی حِدّت میں پاکستان کا حصّہ نہ ہونے کے مساوی ہے ،لیکن اس کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی کے اثرات ہم پر بہت شدّت سے مرتّب ہورہے ہیں۔ چناں چہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ حکام اور نجی اداروں کو جلدازجلد اہم اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ،جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
٭ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراجکم سے کم کیا جائے۔
٭2050 ء تک عالمی حدت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دیا جائے بلکہ اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے
٭ماحولیاتی ماہرین اور اداروں کو چاہیے کہ ہر پانچ سال بعد اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے۔
٭ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے 100 ارب ڈالر سالانہ کی سر مایہ کاری اس عہد کے ساتھ کی جائے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔