• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ اور پاکستان میں مجرموں کی واپسی کے معاہدے پر دستخط

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانیہ اور پاکستان میں مجرموں کی واپسی کے متنازع معاہدے پر دستخط، امیگریشن ماہرین نے معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے برطانیہ کے حق میں قرار دے دیا۔

 تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت غیر ملکی مجرموں اور امیگریشن کے مجرموں کو برطانیہ سے پاکستان واپس لایا جائے گا۔

 ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے بدھ کو پاکستان کے سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان کے ساتھ نئے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ اعلان کیا۔

 پاکستانی ہائی کمیشن کے ترجمان نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ دو طرفہ باہمی معاہدہ ہے اور دونوں ممالک پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ واپسی کا پانچواں معاہدہ ہے جس پر برطانیہ کے ہوم آفس نے اپنے ’نئے پلان برائے امیگریشن‘ کے تحت 15 ماہ میں دستخط کیے ہیں۔

 برطانیہ نے بھارت، نائیجیریا اور البانیہ کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ نئی پالیسی کا نفاذ ان پاکستانیوں پر نہیں ہوگا جو دوہری قومیں ہیں یعنی پاکستانی اور برطانوی دونوں شناخت رکھتے ہیں۔

 سفارت کاروں نے دی نیوز اور جیو کو بتایا کہ نئی پالیسی ان پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کو متاثر کرے گی جو یا تو امیگریشن کے جرائم میں ملوث ہیں یا جنسی گرومنگ، پیڈو فیلیا سمیت منظم جرائم میں ملوث ہیں۔ برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لینے والے ایک پاکستانی سفارت کار نے بتایا کہ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر کافی عرصے سے اس معاہدے پر زور دے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ تقریباً دس سالوں سے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل اے) اور انفرادی کیس بنیادوں کے تحت غیر ملکی مجرموں کو پاکستان بھیج رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب ریاست تا ریاست سطح پر باضابطہ معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں پاکستان کے لیے کیا ہے تو سفارت کار نے کہا کہ پاکستان نے برطانیہ کی حکومت سے طلباء اور وزیٹرز کے لیے ویزا کے نظام میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے۔

 سفارت کار نے کہا کہ برطانیہ کی حکومت اس معاملے کو دیکھنے پر رضامند ہو گئی ہے۔ تاہم برطانیہ کے امیگریشن وکلاء نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان معاہدے پر کئی اعتراضات اٹھائے اور اسے برطانیہ کے حق میں قرار دیا۔

امیگریشن کے ایک معروف ماہر محمد امجد نے دی نیوز اور جیو کو بتایا کہ پاکستان میں مجرموں کے واپس آنے کے بعد ان کی مدد کرنے کا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ واپس کیے جانے والے مجرموں کو پاکستان کے قانون کے تحت گرفتار نہیں کیا جا سکتا اور پاکستانی حکام ان پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے۔

لیبر پارٹی کے کونسلر اور امیگریشن کے وکیل معظم علی سندھو نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ پاکستان کی ضمانتوں کے بغیر دستخط کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہوم آفس کی پریس ریلیز میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ایک ’’باہمی‘‘ معاہدہ ہے لیکن یہ بتانے میں ناکام رہا کہ پاکستان کو اس سے کیا مل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک رجعت پسند اقدام معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس نے مجرموں کو واپس لینے پر اتفاق کیا جنہوں نے اپنی زیادہ تر یا پوری زندگی برطانیہ میں گزاری ہے اور برطانیہ میں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید