• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’توشہ خانہ‘‘ کسی باضابطہ قانون کے تحت وجود میں نہیں آیا‘ جسٹس لودھی

اسلام آباد (حنیف خالد) سپیکر قومی اسمبلی آف پاکستان راجہ پرویز اشرف کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران احمد خان نیازی کیخلاف ’’توشہ خانہ ریفرنس‘‘ کی 18اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فل کورٹ میں باضابطہ سماعت کا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں اُٹھنے والے چند قومی اہمیت اور عوامی دلچسپی کے سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے جنگ نے جب قانونی اور آئینی امور پر اپنی رائے رکھنے والے لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس عباد الرحمان لودھی سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ توشہ خانہ کا قیام کسی باقاعدہ قانون کے تحت عمل میں نہیں آیا بلکہ 1974ء میں کیبنٹ ڈویژن نے انتظامی احکامات کے تحت ایک ’’امانت گھر‘‘ کے طور پر توشہ خانہ قائم کیا‘ اور اُس کو توشہ خانہ (مینٹی ننس اینڈ ایڈمنسٹریشن) رولز 1974ء کا نام دیا گیا۔ یہ رولز پارلیمنٹ کے بنائے گئے کسی قانون کے تحت حاصل کسی اختیار کے بغیر وضع کئے گئے اور اُنکی قانونی حیثیت ایک سوالیہ نشان ہے؟ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ اس قسم کے ناقص قواعد میں بھی نہ تو ان قوانین کی خلاف ورزی کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی ایسی کسی ممکنہ خلاف ورزی کو قابل گرفت قرار دیا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس عباد الرحمان لودھی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے یہ ریفرنس پارلیمنٹ کے چند اراکین کی جانب سے اُنکے سامنے 4جولائی کو تحریری طور پر یہ سوال اٹھائے جانے کے بعد اس کو ایک ریفرنس کی شکل دیکر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 3اگست 2022ء کو بھجوا دیا۔ قانون سازوں کی طرف سے اُٹھائے گئے اس سوال کی بنیاد اُس مواد کو بنایا گیا جو انفارمیشن کمیشن آف پاکستان نے ایک شہری کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد مہیا کیا تھا۔ جسٹس لودھی نے کہا کہ ایسا مواد ’’شہادت کا درجہ نہیں رکھتا‘‘ جبکہ آئین کے آرٹیکل 63کے تحت کسی رکن پارلیمنٹ کو صرف اُس وقت نااہل قرار دیا جا سکتا ہے جب اُسکے خلاف قابل ادخال (Admissable)شہادت موجود ہو۔ اُنہوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2016ء میں دیئے گئے ایک فیصلے بعنوان محمد صدیق بلوچ بنام جہانگیر خان ترین وغیرہ (پی ایل ڈی- 2016ء سپریم کورٹ 97) جو فیصلہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ ہے‘ کی بنیاد پر کہا کہ کسی رُکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کیلئے اثباتی شہادت ضروری ہے جبکہ گمان‘ مفروضے‘ قیاس آرائی یا استدلال پر مبنی شہادت کی بنیاد پر نااہلیت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ مسٹر جسٹس عباد الرحمان لودھی نے قانون شہادت آرڈر 1984ء کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ قانون کے آرٹیکل 2(سی) کے تحت شہادت‘ یا تو ایسے بیان جس کی عدالت نے کسی گواہ کو اپنے سامنے زیر تجویز معاملے میں بیان کرنے کی اجازت دی ہو‘ تو وہ زبانی شہادت کہلائے گی یا ایسی دستاویز جو عدالت کے سامنے اُسکے جائزے کیلئے پیش کی جائے وہ دستاویزی شہادت کہلائے گی‘ لہٰذا جب تک کسی گواہ کا بیان یا کوئی دستاویز اس عدالتی عمل سے نہ گزرے اُسے اثباتی شہادت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس سوال کے جواب میں کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اس ریفرنس کے فیصلے کیلئے 30ایام ہیں‘ جسٹس لودھی نے اسے بہت بڑی غلط فہمی قرار دیا اور وضاحت کی کہ 30ایام کا تعین آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت سپیکر کیلئے متعین کیا گیا ہے کہ اُس کے سامنے جب ایسا سوال اٹھایا جائے اور وہ اس امر پر مطمئن ہو جائے کہ زیرہدف رُکن کیخلاف نااہلی کا بادی النظر میں کیس بنتا ہے تو وہ 30یوم کے اندر یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجنے کا پابند ہے اور اسی آرٹیکل کے تحت اگر 30یوم گزرنے کے باوجود سپیکر معاملہ الیکشن کمیشن کو ارسال نہیں کرتا تو (Deeming Clause)کے تحت یہ تصور کیا جائیگا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج دیا گیا ہے لیکن آرٹیکل 63(3)کے تحت الیکشن کمیشن کو ایسا ریفرنس موصول ہونے کے بعد 90دن کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ اس ریفرنس کا حتمی فیصلہ کر دے۔
اہم خبریں سے مزید