• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے سے کراچی کے پانچ تاریخی مقامات ہیں ان مقامات سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے مختلف ادوار وابستہ ہیں، کراچی کو یہ فخر حاصل ہے کہ قائد اعظم 25 دسمبر 1876ء کو یہاں پیدا ہوئے۔ 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے عہدے کا حلف کراچی میں اٹھایا۔ اسی شہر میں 25 اگست 1947ء کو پہلا شہری استقبالیہ دیا گیا اور پھر 11 ستمبر 1948ء کو کراچی میں ہی قائداعظم کا انتقال پرملال ہوا، یہیں ان کا مزار ہے۔

پانچ تاریخی عمارات میں پہلی عمارت وزیرمینشن کھارادر ہے جہاں قائد اعظم پیدا ہوئے اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے، دوسری عمارت سندھ مدرسۃ الاسلام ہے، جہاں قائد اعظم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، تیسری عمارت قائد اعظم ہاؤس میوزیم ہے، جہاں قائد اعظم اور فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے چند قیمتی سال گزارے، چوتھی عمارت گورنر جنرل ہاؤس ہے، جہاں قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حکومتی کاموں کا آغاز کیا اور پانچواں قائد اعظم کا مزار ہے، جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آرام فرما ہیں۔ اگر ہم ان کا جائزہ لیں تو بہت آسانی کے ساتھ ہم قائد اعظم کی زندگی، ان کے فرمودات اور ان کی جدوجہد کو سمجھ سکتے ہیں ۔اس ہفتے مزار قائد اعظم کے بارے میں ملا حظہ کریں۔

پرانی نمائش کے قریب چھ بڑی سڑکوں کےسنگم پر واقع ہے، جہاں ملک کے مختلف شہروں اور دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت، وزرائے اعظم، مختلف شخصیات اور سیاح نہ صرف حاضری دیتے ہیں بلکہ قائد اعظم کو ان کی عظیم جدوجہد پر خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں، یکم جنوری 1975ء سے قائد اعظم کے احترام میں یہاں مسلح افواج کے باقاعدہ گارڈز لگا دیئے گئے جو چوبیس گھنٹے پہرا دیتے ہیں۔

تینوں افواج کے جوان چار چار ماہ یہاں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، 23 مارچ کو یوم پاکستان، 11ستمبرکو قائد اعظم کی وفات ، 14 اگست کو جشن آزادی پاکستان اور 25 دسمبر کو قائد اعظم کے یوم ولادت کے موقع پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوتی ہے، مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے، گورنر، وزیراعلیٰ سندھ، کابینہ کا ارکان، مسلح افواج کے نمائندے، میئر کراچی اور دیگر مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماء مزار پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے قائد کی عظمت کو سلام کرنے ان کی آخری آرام گاہ کا رخ کرتی ہے، جہاں وہ قائد کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر اور پھول چڑھا کر ان کی عظیم جدوجہد کو یاد کرتے ہیں۔ 

مزار قائد پر ہر سال 14 اگست کو جشن آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی پروقار تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں اسکولوں کے ہزاروں بچوں کے علاوہ گورنر، وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء، مختلف ملکوں کے سفیر اور معززین شہر کی ایک بہت بڑی تعداد شرکت کرتی ہے، قومی نغمے پیش کئے جاتے ہیں اور قائد اعظم کو زبردست انداز میں اظہار تشکر کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا جہاں ہم آج آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم انتقال کرگئے،انتقال کی خبر ملتے ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان نے کراچی کی انتظامیہ کے سربراہ سید ہاشم رضا اور سید کاظم رضا کو ہدایت کی کہ کراچی میں قائد اعظم کی تدفین کے لئے ایک ایسی نمایاں اور کشادہ جگہ تلاش کی جائے جہاں قائد اعظم کی تدفین عمل میں لائی جاسکے، جگہ کی تلاش کا عمل شروع ہوا اور چھ مقامات جن میں عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کا احاطہ، لیاری علی باغ کا قبرستان، لیاری میں انجمن مسلمانان پنجاب اور دیگر انجمنوں کے قبرستان، ساحل سمندر کے قریب کلفٹن کا علاقہ، کنٹونمنٹ بورڈ کا قبرستان اور گورا قبرستان کا جائزہ لیا گیا لیکن ان مقامات کے متعلق حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ، آخر کار پرانی نمائش کے قریب جگہ کو منتخب کیا گیا۔ مزار کے لئے تیس(30) ایکڑز زمین مختص کی گئی، جو شہر سے نسبتاً اونچی،وسیع اور موزوں تھی، محترمہ فاطمہ جناح کے مشورے سے اس جگہ کو حتمی طور پر قائداعظم کی آخری آرام گاہ کے لئے منتخب کرلیا گیا اور تدفین عمل میں لائی گئی۔ 

ستمبر 1948ء سے فروری1960ء تک قائد اعظم کا مزار ایک شامیانے کے سائے میں رہا؟کیوں کہ مزاد کی باقاعدہ تعمیر شروع نہیں ہوسکی تھی۔ بابائے قوم کے مزار کے لئے 1956 ء میں چار ڈیزائن تیار کئے گئے، ایک ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات اے واصفی ایگلی، دوسرا نواب زین یار جنگ اور تیسرا برطانوی ماہر تعمیرات راگلنگ اسکوائر جبکہ چوتھا ڈیزائن یحییٰ مرچنٹ نے تیار کیا، ان ڈیزائن کا جائزہ لینے کے بعد معروف ماہر تعمیرات یحییٰ مرچنٹ کے ڈیزائن کو پسند کیا گیا ۔ دسمبر 1959ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے اس ڈیزائن کی اپنی جانب سے حتمی منظوری دی۔ یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا ،وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے قائد اعظم کے شان و مرتبے اور قیام پاکستان میں ان کے لازوال کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن تیار کیا تھا۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل ایوب خان نے 8فروری 1960ء کو مزار کا سنگ بنیاد رکھا اور 31 جولائی 1960ء سے مزار کی باقاعدہ تعمیر کا آغاز ہوا، اس میں قائد اعظم کی مختلف سوانح، پاکستان کے پرانے سکے اور قرارداد پاکستان کا متن رکھا گیا، پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مزار کی حدود میں 71 ایکڑ رقبے کی توسیع کی گئی، اس طرح مزار کا کل رقبہ 131.58ایکڑز ہوگیا، پہلے مرحلے میں ڈیڑھ سو فٹ وسیع چبوترا تعمیر ہوا ۔1962 ء میں عمارت کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوا۔12 جون 1970ء کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔

پاکستان کے اس وقت کے صدر یحییٰ خان نے 1970ء میں اپنے دورہ کراچی کے دوران مزار قائد اعظم کے تعمیراتی کاموں کا معائنہ کیا اور ان کاموں کی نگرانی کے لئے باقاعدہ ایک بورڈ تشکیل دیا ،جس نے تعمیرات مکمل ہونے تک کاموں کی نگرانی کی، مزار قائداعظم کے پلیٹ فارم کا رقبہ 117x117 فٹ ہے جبکہ اونچائی 100 فٹ کے قریب ہے، مزار کے گنبد کا اندرونی قطر70 فٹ اور بیرونی قطر 72 کے قریب ہے، مزار کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں 250 فٹ کا چبوترا تعمیر کیا گیا، جس کی نچلی منزل میں اصل قبر ہے، تہہ خانہ 114 فٹ بلند ہے، چبوترے کی تعمیر کے بعد اصل گنبد کی تعمیر ہوئی، قبر کی تعویزکے اطراف میں چاندی اور سنگ مرمر کی جالیاں لگائی گئی جو کتبے نصب ہیں اس کی کتابت پاکستان کے مشہور خطاط عبدالمجید دہلوی نے انتہائی توجہ اور ملی جذبے کے ساتھ انجام دی، تعویز پر سورہ نصر کی پوری آیات اور سورہ فتح کی ایک آیت تحریر ہے، قبر کے لئے 18ہزار تولے اور چاندی بھی استعمال کی گئی ہے اندرونی گنبد میں حکومت چین کی جانب سے تحفے میں دیا گیا انتہائی دیدہ زیب فانوس نصب ہے، یہ 29 فروری 1970ء کو پاکستان کے انتہائی قریبی دوست ملک چین نے تحفے کے طور پر مزار قائد کے لئے دیا تھا، اس فانوس کی لمبائی تقریباً 15 فٹ ہے،رات کے وقت فانوس اور لائٹیں روشن ہونے کے بعد مزار کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

مزار کا گنبد شہر کے مختلف علاقوں سے نظر آتا ہے، مزار کے چاروں اطراف ہائی پاور لائٹس نصب ہیں، چبوترے پر چاروں اطراف 48 سرچ لائٹیں لگائی گئی ہیں یہ سرچ لائٹیں، بلب اور برقی قمقمے ایک ساتھ جب روشن ہوتے ہیں تو مزار کا منظر آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے، مزار کے اطراف چار بڑے دروازے بنائے گئے ہیں، جبکہ چار چھوٹے دروازے زینے کے تہہ خانے کے لئے ہیں، مزارکے مرکزی ہال کے اطراف چاندی کا 13 فٹ لمبا اور 10 فٹ چوڑا خوبصورت اور قیمتی کٹہرا ہے، جس کا وزن تقریباً 16ہزار تولے ہے، اس وقت یہ کٹہرا تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار روپے میں تیار کرایا گیا تھا۔ 15 جنوری 1971ء کو مزار قائد اعظم کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ 

مضمون نگار
مضمون نگار 

مہمان خصوصی سابق صدر پاکستان یحییٰ خان تھے۔ اس وقت تک مزار کی تعمیر پر ایک کر وڑ 15 لاکھ روپے خرچ کئے گئے تھے، بعد میں جو تعمیرات مکمل کی گئیں اس پر لاگت 3 کروڑ تک پہنچ گئی۔ مزار قائداعظم کی تعمیر کم و بیش بارہ سال میں مکمل ہوئی۔ مزار کے ایک بڑے احاطے میں تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں کی قبریں بھی ہیں، جن میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان، قائد اعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، تحریک پاکستان کے رہنما سردار عبدالرب نشتر، نورالامین اور بیگم رعنا لیاقت علی خان شامل ہیں۔ مزار کی تعمیر کے بعد ضرورت تھی کہ اس کے اطراف ایک خوبصورت باغ تعمیر کیا جائے لیکن نامعلوم وجوہ کی بناء پر ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ 

14 اگست 1986ء کوکراچی کے نشتر پارک کے جلسہ عام میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جو نیجو نے اعلان کیا کہ قائد اعظم کے مزار کے اطراف جو باقی ماندہ کام رہ گئے ہیں وہ مکمل کئے جائیں گے اور خوبصورت و دلکش باغ تعمیر کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مجوزہ باغ کے منصوبے کے حوالے سے مزار قائد مینجمنٹ بورڈ اور کے ڈی اے کے درمیان جون 1987ء میں ایک معاہدہ طے پایا اور 11 کروڑ روپے کی لاگت سے باغ کا تعمیراتی کام شروع کیا گیا۔ 

وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم ہوتے ہی باغ پر بھی کام رک گیا اور طویل عرصے تعمیراتی کام نہیں ہوسکا، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تعمیراتی کاموں کے لئے 6 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے لیکن اس کےباوجود باغ کی تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا،پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں باغ قائد اعظم کو تعمیر کیا گیا، باغ میں مختلف اقسام کے درخت لگائے گئے، راہداریاں بنائی گئیں، کئی اقسام کے پھولوں سے کیاریاں سجائی گئیں، فوارے لگائے گئے، دو لاکھ گیلن کا نیا ٹینک بھی بنایا گیا جبکہ ایک لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی پہلے سے گنجائش موجود تھی، بجلی کی فراہمی کے لئے 250 کلو واٹ کے دو سب اسٹیشن بھی تعمیر کئے گئے ،تاکہ یہاں آکر شہریوں کو خوشگوار احساس ہو اور کچھ دیر سکون سے بیٹھ سکیں، مزار قائداعظم کے احاطے میں ”ایوان نوادرات قائد اعظم“قائم ہے۔ 

اس میوزیم میں عوام کی دلچسپی اور قائد اعظم کے نوادرات نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں، یہ نوادرات قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی نے عطیہ کئے، 1959 ء میں اس کے لئے ایک باقاعدہ انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی ایم اے ایچ اصفہانی نے کی، دوسرے ممبران میں تحریک پاکستان کے رہنماء راجہ صاحب محمود آباد اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ڈاکٹر ایف اے خان شامل تھے جو نوادرات یہاں رکھے گئے، انہیں صاف کرکے پالش کیا گیا اور کیمیکل کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے۔ 1970ء میں مسٹر اصفہانی اور راجہ صاحب محمود آباد کی نگرانی میں یہ تمام نوادرات محکمہ آرکیالوجی کے حوالے کی گئیں۔ اس ایوان نوادرات قائد اعظم کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے وفاقی وزیر تعمیرات حاجی حنیف طیب نے 23مارچ 1988ء بمطابق4 شعبان 1408 ہجری کو کیا تھا۔ اس کے قیام اور تعمیر میں بھی حاجی حنیف طیب نے بھرپور کوششیں کیں۔ 

وفاقی حکومت کی جانب سے ہر طرح کا تعاون بھی مزار قائد مینجمنٹ بورڈ کو حاصل تھا۔ ایوان نوادرات میں نوادرات کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا ہے، قرآن پاک والے حصے میں قرآن کریم کے نو نسخے رکھے گئے ہیں ان نسخوں میں مکہ اور روس میں تیار ہونے والے نسخے بھی شامل ہیں۔ ایک نسخہ قاھرہ مصر سے بھی تعلق رکھتا ہے ،اس نسخے پر اخوان المسلمین کے بانی رہنما حسن البنا کا آٹوگراف بھی ہے، قائد اعظم کو یہ نسخہ 1946ء میں اس وقت پیش کیا گیا تھا جب انہوں نے لندن میں ہونے والی گول میزکانفرنس میں شرکت کے بعد ہندوستان واپس آتے ہوئے کچھ دیر کے لئے قاھرہ میں قیام کیا تھا۔ سپاس نامے اور تقاریر والے حصے میں قائد اعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے مختلف جلسوں اور پروگراموں میں پیش کئے گئے۔ سپاس نامے، نظمیں اور تقاریر ہیں جو سلور اور لکڑی کے خوبصورت فریموں میں آویزاں ہیں ،ان کی کل تعداد 19 ہے۔

لباس اور دیگر اشیاء والے حصے میں قائد اعظم کے زیر استعمال پاکستانی اور یورپین لباس رکھے گئے ہیں ،جن میں تھری پیس سوٹس، ٹائیاں، لمبے کوٹس،شرٹس،نیک ٹائیز اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ زیادہ تر لباس لند ن، پیرس اور بمبئی کے تیار شدہ ہیں جبکہ قائد اعظم کے زیر استعمال جوتے، سینڈل، کھوسے اور چپل بھی اس حصے میں موجود ہیں۔ ایک حصے میں قائداعظم کے زیر استعمال چھڑی، سگریٹ بکس، یک چشمی(Monocles) اور دیگر اشیاء موجود ہیں جو انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں، ایوان نوادرات میں اس کے بعد جو حصہ نظر آتا ہے اس میں قائد اعظم کے زیر استعمال فرنیچر کا ہے، جس میں آرام گاہ، کھانے کے کمرے، مطالعہ کے کمرے اور بیٹھک کا فرنیچر رکھا گیا ہے، جبکہ پانچ عدد قیمتی قالینیں بھی رکھی گئی ہیں۔

قائد اعظم کے زیر استعمال اسلحہ بھی یہاں رکھا گیا ہے جس میں جنگ میں استعمال ہونے والا لباس، چھ پستولیں اور رائفلز، 9 تلواریں، تین خنجر اور ایک شیلڈ موجود ہے، دو شارٹ گن جو بلجیم کی تیار کردہ ہیں وہ بھی یہاں موجود ہیں جبکہ دراہ کی تیار کردہ 303 نمبر رائفل بھی اس کا حصہ ہیں جو قائد اعظم کے دراہ کے دورے کے موقع پر پیش کی گئی تھیں، ایک حصے میں گھر کی خوبصورتی کے لئے استعمال ہونے والی مختلف اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں چین کے تیار کردہ برتن بھی شامل ہیں، ایوان نوادرات کی سب سے اہم اور نمایاں اشیاء میں وہ کاریں ہیں جو قائد اعظم کے زیر استعمال رہیں، 1938 کے ماڈل کی سفیدرنگ کی ان کی ذاتی کار Packard جبکہ دوسری کالے رنگ کی Cadillac کمپنی کی تیار کردہ کار ہے جو انہوں نے گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے استعمال کی وہ بھی یہاں شیشے کے بڑے فریم میں موجود ہے یہ 1947ء کا ماڈل ہے۔

ان اشیاء کو دیکھنے کے بعد ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ قائد اعظم کس قدر نفیس، خوش لباس اور خوش اخلاق اور خوش طبع شخص تھے، تمام اشیاء قائد کی مدبرانہ اور منظم سوچ کی عکاس ہیں۔ مزار قائد اعظم وہ عمارت ہے جو اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ کراچی آنے والے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے قائد سے عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے مزار قائد اعظم آکر قائد کے حضور حاضری دیں اور اظہار تشکر کریں کہ انہوں نے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔