• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا عجب درس گاہ ہے۔ کوئی چاہے نہ چاہے، یہ اپنے سبق پڑھائے جاتی ہے۔ اب میں اپنا تازہ سبق سُناتا ہوں۔
کراچی کی ایک لڑکی نے،جس کا نام علیزہ بروہی ہے،اسٹیل مل کے قریب مزدوروں کی ایک بستی میں غریب گھرانوں کی کمسن لڑکیوں کے لئے ایک مفت اسکول کھولا ہے۔اس نے باہر دیوار پر لکھا، یہاں لڑکیوں کی تعلیم بالکل مفت ہے، داخلہ جاری ہے۔ اگلے ہی روز پچاس لڑکیاں اپنی ماؤں کے ہاتھ پکڑے وہاں آگئیں۔ ماؤں نے علیزہ سے کہا کہ خدا کے لئے ان کو داخل کرلو۔ یہ رات دن پیچھے پڑی رہتی ہیں کہ ہمیں اسکول جانا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں تو کھانے کو بھی نصیب نہیں، ان کو کہاں سے پڑھوائیں، تم ہم پر اور بچّیوں پر احسان کرو، ان کو کلاس میں بٹھالو۔ علیزہ مان گئی۔ لڑکیوں کے لئے جماعت کے دروازے کھلنے کی دیر تھی کہ اور پچاس لڑکیاں اپنی ماؤں کی انگلی تھامے چلی آئیں اور دو کمروں کی وہ چھوٹی سی عمارت دیکھتے دیکھتے بچّیوں سے بھر گئی۔ تعلیم اس شان سے شروع ہوئی کہ جیسے کسی نے ان سب کے کان میں کہا ہو، اقراء۔ دیکھتے دیکھتے برتن دھونے اور پونچھا لگانے والی بچیوں کے ہاتھ میں دو چیزیں نمودار ہو گئیں، کتاب اور قلم۔ علم کی کرن نے اس بار پھوٹنے کے لئے تنگدست اور بدحال مزدوروں کی بستی کو چُنا۔ وہ جن گھروں میں رات کے سنّاٹے میں چھوٹی چھوٹی آوازیں آیا کرتی تھیں، امّی مجھے اسکول جانا ہے یا ابّو مجھے اسکول بھیج دو، اب وہاں سونے سے پہلے وہی آوازیں تھکے ہوئے ماں باپ کو کبھی کلمہ سنا رہی ہیں، کبھی قُل اور کبھی’ اے فار ایپل، بی فار بے بی، سی فار (توتلی زبان سے) تار یعنی کار‘۔
علاقے کا مزاج بدل رہا ہے، علیزہ گھر گھر جا کر اپنے اسکول کے لئے بڑی اور محفوظ عمارت ڈھونڈ رہی ہے۔ محفوظ یوں کہ سڑک کے کنارے لڑکیوں کا اسکول کھولنے کی ایک سزا بھی ملی ہے۔ بعض لوگ آتے جاتے اسکول میں پتھر پھینک جاتے ہیں۔ علیزہ لڑکیوں کو جلدی سے کمرے میں بند کر لیتی ہے۔ ایک روز اس نے طالبات کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔ اس چھوٹی سے عمارت کو سجایا گیا، دریاں بچھائی گئیں۔ غبارے اور جھالریں لگائی گئیں۔ علیزہ نے اپنی ماں کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا۔ وہ پہلی بار اس عمارت میں آئیں۔ لڑکیوں کا خوشی کے مارے براحال تھا۔ پہننے کوان کے پاس نئے نئے کپڑے تو نہ تھے لیکن جہاں تک ہوسکا وہ بن سنور کر آئیں۔ جشن جاری تھا کہ باہر سے کچھ اوباش لڑکوں نے پتھراؤ کر دیا۔ علیزہ کی ماں کے ایک بازو پر پتھر لگا لیکن شکر ہے کہ زخمی نہیں ہوئیں۔ بچّیاں سہم کر رہ گئیں۔ علیزہ سوچتی ہی رہ گئی کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ میں نے فون کر کے خیریت معلوم کی۔ کہنے لگی کہ میں ہار ماننے والی نہیں۔
اُسے اُن ایک سو لڑکیوں کی فکر ہے جو ابھی باہر ہیں اور داخلہ لینے کے لئے بے چین ہیں ۔ ان کے ماں باپ ان کے شوق کو دیکھ کر حیران ہیں اور چند ایک تو فیس دینے پر بھی آمادہ ہیں مگر وہاں تو واضح اعلان ہے کہ نادار گھرانوں کی غریب بچّیوں کے لئے تعلیم مفت ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ کچھ دردمند لوگ خاموشی سے علیزہ کے ساتھ کھڑے ہیں جن سے اُس کو تقویت ہے۔ وہ اس یقین کے ساتھ اس سفر پر نکل کھڑی ہوئی ہے کہ لوگ ساتھ دیں گے تو کارواں بن جائے گا۔اس سبق کا اگلا باب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ تو ضخیم کتاب ہے اور دور تک اور دیر تک پڑھی جائے گی۔ وہ اگلا باب کچھ یوں ہے: علیزہ کے اسکول میں آنے والی غریب لڑکیوں کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کے گھروں میں اتنی زیادہ مفلسی ہے کہ اکثر لڑکیاں شام کو کہیں سبزی بیچتی ہیں، کسی گھر میں پونچھا لگاتی ہیں یا کسی گھر کے جھوٹے برتن دھوتی ہیں۔اب یہ ہوا کہ ایک روز علیزہ ان لڑکیوں کو لے کر بیٹھی اور ان سے گفتگو شروع کی۔ علیزہ کی باتوں کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مختلف گھروں میں جاکر کام کرنے والی لڑکیوں کو اپنی حفاظت کیونکر کرنی چاہئے۔ وہ تھوڑی سی رقم کمانے کے دوران کیسے کیسے خطرے ان کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں اور بچّیوں کو ان خطروں کا مقابلہ کیسے کرنا چاہئے۔
لڑکیاں خاموشی سے سنتی رہیں۔ جب علیزہ خاموش ہوئی تو بچّیوں نے بولنا شروع کیا۔ انہوں نے کیا کہا، یہ تو میں بعد میں بتاؤں گا، یہاں یہ بتادوں کہ ان کی باتیں سن کر علیزہ سنّاٹے میں آگئی۔ وہ لرز اٹھی اور حیرت کے مارے اس کے لئے بولنا مشکل ہو گیا۔ لڑکیوں کی کہانیوں میں دکھ ہی دکھ بھرے تھے۔ گھر کے نوکروں کو جو ذلّت اٹھانی پڑتی ہے اسے جانے دیجئے۔ ان کو ٹھوکروں میں رکھا جاتا ہے، وہ چلن بھی پرانا ہوا۔ ان پر کبھی طرح طرح کے الزام لگتے ہیں ،کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو جائے تو ان کی نہایت حقیر اجرت سے پیسے کاٹے جاتے ہیں۔ طیش کچھ زیادہ ہو تو ان کو مارا جاتا ہے، پیٹا جاتا ہے اور کبھی کبھی ان کے غریب ماں باپ کو بلا کر ان کو بھی ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ سب تو خدا جانے کب سے چلا آرہا ہے۔ اب جو ایک اور آفت آئی ہے وہ بچّیوں نے علیزہ کو سنائی۔ وہ یہ کہ گھر کے مرد ان پردست درازی کرتے ہیں اور موقع ملنے پر ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس پر علیزہ نے ان سے وہی سوال پوچھا جو ہر ذی شعور پوچھتا ’’تم اپنے والدین کو بتاتی ہو؟‘‘
جواب ملا ’’نہیں۔ وہ ہمیں ڈانٹتے ہیں، خفا ہوتے ہیں اور ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ اس لئے ہم چپ رہتے ہیں، اسی میں ہماری بچت ہے‘‘۔
لڑکیاں تفصیل بتانے لگیں، علیزہ وہ تفصیل مجھے سنانے لگی۔ میں نے ایک پرانا مصرعہ پڑھ کر اسے خاموش کر دیا:
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
اب میں خاموش ہوں لیکن کان میں لڑکیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں جیسے وہ کہے جارہی ہوں ’’انکل سن لیجئے، انکل سن لیجئے‘‘۔
تازہ ترین