• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابدی حقیقتوں اور سچے جذبوں کی حامل کتابیں زندہ رہتی ہیں۔ میں اپنی قوم کو زندہ اور تابندہ دیکھنا چاہتا ہوں اور آج کے کالم میں اِن چند کتابوں کا ذکر کروں گا جن میں ایک انفرادیت ،ایک عظمت اور واقعات کے دریچوں سے جھانکتی ہوئی ایک صداقت پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تصنیف ’’اخوت کا سفر‘‘ بے اختیار کئی بار پڑھی اور ہر بار لطف دوبالا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب جس مشن پر نکلے ہیں ،اُس کی بنیادیں مواخات پر قائم ہیں۔ مواخات ایک ایسا تجربہ ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
وہ تجربہ جو تاریخ میں پندرہ سو سال پہلے ہوا تھا ، ڈاکٹر صاحب اُسے عصرِ حاضر میں ایک عالمگیر تحریک اور ایک زبردست سماجی انقلاب کے قالب میں ڈھال رہے ہیں۔ اُنہوں نے ’’اخوت‘‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا اور ضرورت مند مردوخواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے بلاسود قرضِ حسنہ دینے کا پروگرام فقط دس پندرہ ہزار کی رقم سے شروع کیا جو اب بفضلِ خدا چھ ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں پریشاں حال خاندان اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور ’’اخوت‘‘ کے ڈونرز بھی بنتے جا رہے ہیں۔ اِس پروگرام کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس کا نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے۔ اِسے رضا کار چلا رہے ہیں اور قرضِ حسنہ مسجدوں میں دیا اور وصول کیا جاتا ہے۔ قرضوں کی واپسی کی شرح تقریباً سو فی صد ہے جو کسی طور ایک عجوبے سے کم نہیں۔ عزیزی مجیب الرحمٰن شامی نے جناب ڈاکٹر امجد ثاقب کو اُس وقت کے گورنر جناب خالد مقبول سے متعارف کرایا جنہوں نے اِس پروگرام کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف گزشتہ پانچ برسوں سے ڈاکٹر صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے میں بڑے سرگرم ہیں کہ اخوت کا منصوبہ غربت کے خاتمے کا ایک یقینی اور ایمان افروز وسیلہ ہے۔’’اخوت‘‘ کے تجربے نے ایک دنیا کو حیران کر دیا اور مائیکرو فنانسنگ کے جدید تصورات کو ہلا کے رکھ دیا ہے ، چنانچہ امریکی ہارورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے تجربات بیان کرنے کی دعوت دی۔ اِس یونیورسٹی کے دو اداروں کی دعوت کے درمیان دو ہفتوں کا وقفہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب ان دوہفتوں میں امریکہ کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں گئے اور ہزاروں مردوں ، عورتوں اور جوانوں کے سامنے اخوت کا فلسفہ اور پاکستان میں اِس فلسفے پر عمل پیرا ہونے کے اثرات تفصیل سے بیان کیے۔ اُنہوں نے ذہنی اور جسمانی سفر کی رُوداد بڑے خوبصورت اور انتہائی دلنشین انداز میں تحریر کی ہے۔ زبان کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی اور معانی تاریخ کی گہرائی میں اترے ہوئے۔ امریکی معاشرے ، سیاست اور تاریخ کو صحیح پس منظر میں سمجھنے کے لیے اِس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ انسانی تقدیر کو بدل دینے والا مشن اور ذہن میں ہلچل مچا دینے والی ایک بلاخیز تحریر یکجا کم ہی نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں خیر اور ایثار کے جذبوں کی تہذیب کی اِس تحریک میں ہر پاکستانی شہری کو حصہ لینا چاہیے کہ اخوت مسلک ، فرقے اور مذہب کی تقسیم سے ماورا ہے اور جالندھر میں بھی اِس بھائی چارے کا تجربہ شروع ہونے والا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب ایک مسیحا بھی ہیں ، فکری راہنما بھی اور ایک اسلوب نگارش کے موجد بھی۔ ہمیں اُن کے جذبوں کے آگے آنکھیں بچھا دینی اور اُن کے مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
دوسری کتاب محترمہ سلمیٰ اعوان کی ’’لہو رنگ فلسطین‘‘ ہے جو تاریخ کے وہ گوشے بے نقاب کرتی ہے جو یا تو ہماری نظروں سے اوجھل رہے یا ہماری یادداشت سے محو ہوتے جا رہے ہیں۔ سلمیٰ اعوان جن کی سترہ تخلیقات منظرِ عام پر آچکی ہیں ۔ اُن کی تازہ تصنیف فلسطین کے بارے میں ہے جو اُردو ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا عظیم ناول ہے کہ اِس میں تاریخ بھی ہے ،عرب موسیقی کی دھنیں بھی ہیں، محبت کی داستانیں بھی اور وہ سازشیں بھی جو یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں عرصۂ دراز سے ہوتی آئی ہیں جن سے فلسطین ایک آتش کدے میں تبدیل ہو گیا ہے اور مسلمان ،یہودی، عیسائی اور آرمینائی جو صدیوںسے بیت المقدس میں امن و سلامتی سے یکجا رہتے تھے ،اُن کے درمیان منافرتوں کی دیواریں حائل ہوتی چلی گئیں ہیں۔ یہ ناول اِس بدقسمت اور مظلوم فلسطینی قوم کی جیتی جاگتی کہانی ہے جو دو تہائی صدی سے وطن کی تلاش میں ہے۔ اِس ناول میں تاریخ کے مدوجزر نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور ظلم کے خلاف مسلم خواتین میں جس انداز کے جذبات پرورش پا رہے ہیں ، اُن کے زیروبم کا اظہار بڑی عمدگی سے ہوا ہے۔ ایک فلسطینی دانشور جوشیلے جوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اسلحے کی زبان استعمال کرنے کے بجائے دلیل اور صداقت کی زبان استعمال کی جائے اور عرب کاز کے لیے قلم کو ذریعۂ اظہار بنایا جائے تاکہ دنیا پر واضح کیا جا سکے کہ فلسطین میں ناانصافی اور درندگی کے خاتمے کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ لہو رنگ فلسطین پڑھتے وقت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم ستم زدہ کشمیری قوم کی داستانِ حیات پڑھ رہے ہیں۔ محترمہ سلمیٰ اعوان کی یہ کاوش قابلِ ستائش ہے۔تیسری کتاب ’’ڈیڈی‘‘ بھی اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب اِس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ پہلی بار باپ کو تحریر کا عنوان بنایا گیا ہے۔ جناب قدرت اﷲ شہاب نے ’’ماں جی‘‘ تخلیق کر کے ماں کو لافانی بنا دیا ہے ، مگر ادیبوں اور قلم کاروں نے والد کے کردار پر بہت کم توجہ دی ہے۔ یہ عامر زاہد خاں ہیں جنہوں نے اپنے والدِ گرامی کی شخصیت پر کمالِ فن سے قلم اُٹھایا ہے اور اُن کے کردار کی اہمیت اور افادیت واضح کی ہے۔ پورا خاندان، اہلِ محلہ اور عمائدینِ شہر اُن کو ڈیڈی کے نام سے پکارتے تھے کہ اُن میں جدت پسندی ، بلا کی شفقت اور فراخ دلی پائی جاتی تھی۔ ’’ڈیڈی‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ وقت کے سخت پابند اور اعلیٰ اقدار کے پاسباں تھے۔ وہ گھر کے معاملات میں پوری دلچسپی لیتے اور خود سودا سلف خرید کر لاتے۔ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لیتے اور گھر میں اُن رسائل و جرائد کو آنے دیتے جو کردار سازی کے لیے مفید تھے۔ اُن کی طبیعت میں اعتدال اور خلوص تھا۔ جناب عامر زاہد کا اسلوب نہایت شگفتہ ہے۔
تازہ ترین