• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ سندھ میں ایک جانب معمول سے کہیں زیادہ اور طوفانی بارشوں کے سبب تیئس اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے اور دوسری جانب کراچی سمیت سندھ کے سولہ اضلاع میں اٹّھائیس اگست کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ ہونی ہے۔ بعض حلقے موجودہ حالات میں پولنگ کی تاریخ آگے بڑھانے کی بات کررہے ہیں اور بعض وقتِ مقرّرہ پر اس عمل کے حامی ہیں۔ لیکن ہمارے لیے مسئلہ پولنگ کی تاریخ کا نہیں بلکہ اس کے ذریعے وجود میں آنے والے ڈھانچے کی کارکردگی اور اس کے نتائج کا ہے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا صوبے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبے کے شہروں اور دیہات میں ترقّی اور خوش حالی کی نئی راہیں کھل سکیں گی یا کچھ تبدیل نہیں ہوگا؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر،کراچی کےلیے بھی بلدیاتی انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح اس شہر کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں ،ان حالات میں یہاں بہت موثر اور با اختیار مقامی حکومت کی ضرورت روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔یہ شہر چند برسوں سے جو منظر پیش کررہا ہے وہ اس شہر کے باسیوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس شہر کے امیر اور غریب طبقات کے علاقے یہاں موجود طبقاتی تفریق کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں، لیکن کئی برس سے ان دونوں طبقات کے علاقوں میں ایک تفریق بہت حد تک ختم ہوچکی ہے۔ سوائے ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی کے، اب کراچی کے امیر طبقے کے تقریبا ہر علاقے میں اسی طرح گٹر ابلتے دیکھے جاسکتے ہیں جس طرح غریب طبقے کے علاقوں میں ابلتے دکھائی دیتے ہیں۔

جنہوں نےقیامِ پاکستان سےقبل اس شہر کا صاف ستھراچہرہ دیکھا انہیں چھوڑیے۔ انہیں بھی چھوڑدیں جنہوں نے سن ستّر کی دہائی میں بہت حد تک منظم اور بہت حد تک صاف ستھرا عروس البلاد دیکھا۔ ان سے پوچھیے جنہوں نے اسّی کی دہائی کے ابتدائی چند برسوں میں کراچی دیکھاتھا۔وہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی آج کی نسبت اس وقت تک ہر اعتبار سے بہت بہتر شہر تھا۔

لیکن اس کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا۔ دعوے بہت ہوئے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اس شہر کی بربادی کی کہانی دہائیوں پر محیط ہے اور مذکورہ برسوں کے بعد اس کے باسیوں کی دُہائیوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اس کا ذمے دار کوئی ایک شخص یا ایک حکومت نہیں بلکہ بہت سے اشخاص، ادوار اور عوامل ہیں۔ تاہم ذمے دارہر وہ شخص ہےجس کے پاس اس شہر سے متعلق کوئی بھی اور کسی بھی درجے کا اختیار تھا یا ہے۔

وہ بھی اس شہر کی تباہی کے ذمے دار ہیں جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ شہر کے مسائل حل نہیں کرسکتے، عوام کو ہر دور میں بے وقوف بنا کر اور کراچی کو پیرس بنانے کا دل فریب نعرہ لگاکر ووٹ اور سپورٹ حاصل کی، لیکن شہر کے مسائل حل نہیں کرسکے۔ اس شہر کے ساتھ یہ کھیل ہر دور میں کھیلا گیا اور ہر سیاسی جماعت نے کھیلا۔ جو لوگ یہاں ہونے والی کچھ ترقی کی بات کرتے ہیں انہیں بگوٹا شہرکی ترقی ،اس کے ذمے دار شخص اور بگوٹا ماڈل کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

تب انہیں پتا چلے گا کہ کسی شہر کی حقیقی ترقی کیا ہوتی ہےاور یہ بھی کہ وژن کے بغیر کیے جانے والے کام کچھ عرصے بعد عذاب بن جاتے ہیں جس کا خرچ اور خمیازہ بالاخر عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے ذمے داروں کو اچھی طرح یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کے دور میں ترقی کوئی معنی نہیں رکھتی۔آج ترقی کے ضمن میں نئی اصطلاح ایجاد ہوچکی ہے، یعنی پائے دار ترقی۔ اب ہمیں بھی اس اصطلاح پر عمل کرنا ہوگا۔

نظام کا جھگڑا اور ’’اسمارٹ سٹی‘‘

یہاں بلدیاتی نظام کیسا ہو ،کے معاملے پر سیاست دانوں میں جھگڑا رہتا ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں پہلےجو شہر کچھ ’’اسمارٹ‘‘ تھےانہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔ اور دوسری جانب سرحدوں اور سمندروں کے پار دنیا نئی کروٹ لے رہی ہے۔ ہمارے پڑوس میں بالخصوص اور مغربی دنیا میں بالعموم شہروں کے بارے میں نیا تصور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ پہلے لوگ اسمارٹ ہوتے تھے، لیکن اب شہر اسمارٹ بنائے جارہے ہیں۔ بھارت میں جنوری 2016 میں اسمارٹ سٹی منصوبے کے تحت تیار کیے جانے والے پہلے بیس شہروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا۔

کہا گیا تھاکہ ان شہروں میں پانی اور بجلی کی فراہمی، صفائی اور ٹھوس ویسٹ مینجمنٹ، مکمل شہری ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ، آئی ٹی کے ذریعے رابطہ، ای گورننس کے ذریعے بنیادی سہولتیں فراہم اور عوام کی شرکت کا انتظام کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت نے اس ضمن میں اگست2015 میں ستّانوے شہروں کا انتخاب کیا تھا۔ پہلے مرحلہ میں بیس اور اگلے ہر دو سال میں چالیس چالیس شہروں کو اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے لیے منتخب کیے جانے کی بات کی گئی تھی۔ 

بھارت کی مرکزی وزارت شہری ترقیات نے اسمارٹ سٹی منصوبے کا جو تصور پیش کیا تھا اس میں ای گورننس، آن لائن خدمات کی فراہمی، اطلاعات عامہ ، بلا رکاوٹ پانی اور بجلی کی فراہمی، موثر ٹرانسپورٹ کا نظام ، تعلیم اور صحت کی معیاری سہولتیں شامل تھیں۔ اسمارٹ سٹی کے سماجی اور معاشی مقاصد میں غریبوں تک رسائی، سڑکوں، اراضیات اور نئے مواقع میں عوام کو مساوی حق دینا شامل تھا۔

دنیا بھر میں اسمارٹ سٹی کے منصوبے مقامی حکومتوں کے ذمّے ہیں، لیکن یہاں اوّل تو حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتی ہیں، دوم اگر کرانے پر راضی ہو جائیں تو اس بات پر جھگڑا شروع ہوجاتا ہے کہ بلدیاتی نظام کیسا ہوگا۔

انگریز کی کوششیں

غیر منقسم ہندوستان میں انیسویں صدی دراصل بہ تدریج آنے والی تبدیلیوں کی صدی تھی۔ اس صدی میں برطانوی حکم رانوں کی جانب سے تعلیم، معیشت اور سیاست کے شعبوں میں متعارف کرائی جانے والی تبدیلیوں نے یہاں کے معاشرے میں بعض ساختیاتی عدم توازن پیدا کر دیے تھے۔ ان تبدیلیوں کے نتائج نمایاں تھے، لیکن ان کے ساتھ ہی یہاں کے سماج نے اپنے ردعمل کا اظہار کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ انگریزوں نے غیر منقسم ہندوستان پر اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جو راہ اختیار کی وہ ہم وار نہیں تھی۔ انگریزوں سے قبل اس خطے میں سیاسی طاقت اور غلبے کے کئی مراکز تھے۔ 

مثلاً حکم راں طبقہ ہر علاقے کی بااثر شخصیات، بڑے بڑے زمیندار، رئوسا، اپنے علاقے میں عسکری طاقت رکھنے والے افراد اور گائوں کی سطح پر تعینات مقامی سرکاری اہل کار یہاں کے روایتی طاقت کے ڈھانچے کی نمائندگی کرتے تھے۔ انگریزوں نے یہاں سیاسی اور فوجی غلبہ حاصل کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے انہوں نے اس پورے نظام کی جڑیں ہلا دی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقامی جاگیردار طبقے سے طاقت کی نوآبادیاتی حکومت کو منتقلی کا عمل تھا۔

تبدیلی کے اس مرحلے پر انگریزوں نے پرانے نظام کو اپنی نظروں سے اوجھل ہونے دیا تھا اور نہ اس کی اہمیت کو نظرانداز کیا تھا۔ اس کے علاوہ نیا نظام متعارف کراتے ہوئے انہوں نے محتاط روی کا مظاہرہ کیا اور اٹھارہویں صدی کی انتظامیہ کے بھی بعض اصول اس میں شامل کرلیے تھے۔ پہلے انہوں نے یہاں کے پرانے ڈھیلے ڈھالے، لیکن باہم مربوط غلبے کے مراکز میں دخل اندازی کی اور پھر اسے توڑ کر اپنا غلبہ قائم کر لیا۔ اس کے نتیجے میں سابق حکم راں یا طاقت ور طبقات نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کی۔ 

یہ کوششیں 1857ء تک جاری رہیں اور اس دوران مختلف علاقوں میں مختلف مواقع پر مسلح مزاحمتیں بھی ہوتی رہیں۔ 1857ء کے بعد انگریز حکم رانوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ وہ جاگیرداروں کی مخالفت مول لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ چناں چہ برطانوی ہند کی تین پریسی ڈینسیز کے ابتدائی دور میں قانون ساز کونسلز میں جن افراد کی نام زدگیاں کی گئی تھیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی طبقے سے تھا۔ 

سیاسی استحکام پانے کے مرحلے میں انگریزوں نے محاصل سے متعلق نئے اصول و ضوابط بھی نافذ کیے جو بہ ظاہر جمہوری انداز کے تھے لیکن عملاً وہ استحصالی تھے۔ مزید استحصالی سرمایہ دارانہ معیشت کا نظام ٹھونسنے کے عمل نے یہاں کے لوگوں میں انگریزوں کے خلاف مزید غم و غصہ بھر دیا تھا۔ چنانچہ برصغیر میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں طاقت کا استعمال زیادہ نہیں تھا۔ انگریزوں نے اس سے نمٹنےکے لیے دوسری راہ اختیار کی جو مقامی لوگوں کو اقتدار میں شراکت کا احساس دلانے پر مبنی تھی۔

برصغیر پاک و ہند میں مقامی حکومتوں کے نظام کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں انگریزوں کے قبضے سے قبل چھوٹی چھوٹی جمہوریتوں (Little Republics) کی شکل میں مقامی حکومتوں کا وجود تھا۔ وہ گائوں کی پنچایتوں کی شکل میں منظم تھیں اور ترقیاتی، عدالتی اور انتظامی امور کی ذمے دار تھیں۔ تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ ان پر گائوں کی اشرافیہ کا غلبہ ہوتا تھا لہٰذا اس میں عوام کی شرکت اور طاقت کے عدم ارتکاز کا عنصر دم توڑ جاتا تھا۔

اس خطے میں 1871ء سے قبل مقامی حکومتوں کے اداروں کی ترقی کی کوئی مماثل مثال نہیں ملتی۔ 1871ء میں لارڈ میو نے انتظامیہ کے عدم ارتکاز کا منصوبہ متعارف کرایا تھا جس میں دیہی اور شہری علاقوں کیلئے کمیٹیز کا تصور دیا گیا تھا۔ ان کمیٹیز کے زیادہ تر ارکان نام زد ہوتے یا سرکاری اہل کار ہوتے تھے۔ 1880ء تک چند شہروں اور قصبوں میں یہ نظام نافذ کر دیا گیا تھا۔ 1882ء میں لارڈ رِپن نے مقامی حکومتوں کے بارے میں جو قرارداد پیش کی تھی وہ اس خطے میں مثالی حکومتوں کے ارتقا کے ضمن میں سنگ میل تھی۔ اس نظام کے تحت دیہی مقامی اتھارٹیز کا نیٹ ورک قائم کیا گیا اور پورے غیر منقسم ہندوستان میں ڈسٹرکٹ اور سرکل بورڈز قائم کیے گئے۔ 

ان کوششوں کا ایک مقصد لوگوں کو سیاست کی تعلیم دینا بھی تھا۔ اس نظام کے تحت مقامی طور پر محاصل کی وصولی، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی اور ترقیاتی کام کرانے کی ذمے داری مقامی لوگوں کو سونپی گئی۔ لارڈ رِپن کی قرارداد کے ساتھ برطانوی حکومت نے یہاں دیگر بنیادی نوعیت کے قوانین بھی متعارف کرائے جن کی مدد سے انتظامیہ کا دائرہ مقامی سطح تک پھیلایا گیا۔ 1907ء میں انگریزوں نے ڈی سینٹرالائزیشن کمیشن قائم کیا جس نے مقامی حکومتوں سے متعلق تمام معاملات کا جائزہ لیا اور سفارشات پیش کیں، لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

مقامی حکومتوں کا نیا دور 1919ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت شروع ہوا اور دیہی مقامی حکومت کو صوبے کا ستون قرار دیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت گاؤں کی پنچایتوں کو بحال کیا گیا اور ضلع، تعلقہ اور تحصیل کی سطح پر بورڈ اور یونین کمیٹیز قائم کی گئیں۔ جن کے صدور منتخب ہوتےتھے ان بورڈز اور کمیٹیز کو تمام صوبوں میں گاؤں کی انتظام کاری اور محاصل کے بارے میں کافی اختیارات دیئے گئے تھے۔ 1919ء کے ولیج سیلف گورنمنٹ ایکٹ کے تحت پنچایتوں کو باقاعدہ تحفظ دیا گیا تھا۔ یہ نظام 1947ء تک جاری رہا۔

برطانوی ہند میں 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت صوبائی خودمختاری دی گئی تھی اور صوبوں کو مقامی حکومتوں کے بارے میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت تمام صوبوں میں مقامی حکومتوں میں اختیارات کے عدم ارتکازکے لیے مزید قانون سازی کی گئی، لیکن مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ نہیں حاصل تھا۔ چناں چہ یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے دور میں مقامی حکومتیں مالی اور سیاسی طور پر مرکز پر انحصار کرتی تھیں۔ 

آئینی طور پر ان کے لیےکسی قسم کے محاصل مخصوص نہیں تھے، چناں چہ ریاستوں کی حکومتیں مقامی حکومتوں کے معاملات پر اثر انداز ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔ اس صورت حال میں مقامی حکومتیں مالی اور سیاسی اعتبار سے کم زور ہوتی تھیں اور ان پر بعض طبقات کا غلبہ ہوتا تھا۔ وہ افسر شاہی کے ماتحت ہوتی تھیں اور قانونی طور پر ان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ دراصل وسائل نچوڑنےکے لیے ہوتی تھیں اور ان کے اراکین اور عہدے داران کے سیاست میں حصہ لینے کی سرگرمی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔

دراصل انگریزوں کی کبھی یہ خاص خواہش نہیں رہی تھی کہ مقامی لوگ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے ترقی کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس زمانے میں بھی اصل طاقت ڈسٹرکٹ آفیسر کے پاس ہی ہوتی تھی۔ گائوں کے لوگوں کی ان کونسلز میں شراکت کو کبھی یقینی نہیں بنایا گیا تھا۔ دیہی آبادی اور انتظامیہ کے درمیان کسی قسم کے تعلق کا فقدان تھا۔ گاؤں کے بااثر افراد نوآبادیاتی حکم رانوں اور دیہات کے لوگوں کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرتے تھے۔ مقامی حکومتوں کو کبھی بھی دیہی ترقی کا کام نہیں سونپا گیا تاہم بعض استثنیٰ تھے جن میں کسی برطانوی افسر کی ذاتی دل چسپی کا معاملہ سامنے آتا تھا۔

دوسری جانب انگریزوں کی جانب سے اختیارات کے ارتکاز کے ضمن میں اٹھائے جانے والے بعض اقدامات قابل تعریف گردانے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں کی جانے والی اصلاحات افسر شاہی کے ارتکاز کی وجہ سے قابل ذکرحد تک کم زور تھیں تاہم وہ محدود اور عدم ارتکاز پر مبنی جمہوریت کی بنیاد ثابت ہوئیں۔ لوکل کونسلز اگرچہ افسر شاہی کے کنٹرول کی وجہ سے آپریشنل خودمختاری نہیں رکھتی تھیں، لیکن ان کے اثرات دوررس تھے۔ 

انہوں نے سیاسی جماعتوں کو دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طاقت ور لوگوں سے پنجہ آزمائی کر کے قومی سطح کی سیاست میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسری جانب افسر شاہی نے مقامی حکومتوں میں سیاست کا عروج ہوتے دیکھ کر اپنے اختیارات چھن جانے کا خوف محسوس کیا تو نئی کونسلز کے کام میں روڑے اٹکانے لگی تھی۔ اس کے نتیجے میں عام سیاسی حالات میں مزید خرابی پیدا ہوئی اور یوں مقامی حکومتوں کی پوری مشینری پر برے اثرات مرتب ہوئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کے تجربات

قیام پاکستان کے بعد یہ توقع تھی کہ مقامی حکومتوں کا نظام تقویت پائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ انگریزوں نے دراصل یہ نظام اس لئے تشکیل دیا تھا کہ دیہی علاقوں کے جاگیرداران کے ساتھ حکومت چلانے میں تعاون کریں، شہری علاقوں میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی جمہوری خواہشوں کو تسکین حاصل ہو سکے اور انگریزوں کے اقتدار کو قانونی جواز مل سکے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ غیر جمہوری حکم رانوں اور آمروں کے ادوار میں جاری رہا۔ تاہم 1956ء میں مقامی حکومتوں کے ضمن میں قابل ذکر اصلاح کی گئی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری رائج کی گئی۔ 

لیکن اس سے پہلے کہ یہ جمہوری طریقہ آزمایا جاتا 1958ء میں پاکستان میں جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا اور فوجی طاقت کے زور پر اقتدار میں آنے کے بعد اس عمل کو ملک کے لیے غیر موزوں قرار دے کر نادر شاہی حکم کے ذریعے ختم کر دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا جو 1971ء تک چلتا رہا۔ 1972ء میں پیپلز گورنمنٹ آرڈیننس نافذ کیا گیا۔ 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا۔ 2001ء میں جنرل مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا۔

جنرل ایوب نے بنیادی جمہوریت کا جو نظام قائم کیا تھا، اس میں سوائے یونین کونسلز کے تمام لوکل کونسلز کے سربراہ بیورکریٹ ہوتے تھے۔ وہ دراصل بیورکریسی اور جمہوریت کا معجون تھا جو قوم کو دھوکا دینے کے لیے کھلایا گیا تھا۔ اس میں سب سے اوپر پراونشل ایڈوائزری کونسل اور سب سے نیچے یونین کونسل تھی۔ پراونشل ایڈوائزری کونسل کے بعد ڈویژنل کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل کونسل تھی جن کے سربراہ بالترتیب ڈویژنل کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور سب ڈویژنل آفیسر ہوتے تھے۔ پی اے سی کا سربراہ صوبے کا گورنر ہوتا تھا۔ لیکن انہیں ایک سال بعد ہی ختم کردیا گیا تھا۔ 

یونین کونسل کے سوا تمام کونسلز میں تین طرح کے اراکین ہوتے تھے۔ 25 فی صد اراکین منتخب ہوتے تھے، 50 فی صد بیوروکریٹ اور حکومت کے نام زد کردہ اراکین ہوتے تھے۔ یونین کونسل میں دو طرح کے اراکین ہوتے تھے، یعنی 67 فی صد منتخب اراکین اور 37 فی صد نام زد کردہ۔ 1962ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد اراکین کی نام زدگی کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔

تاہم یونین کونسل کی سطح سے اوپر کی تمام کونسلز کے اراکین میں منتخب اور نام زد اراکین شامل ہوتے تھے۔ اس نظام میں عملاً ضلعی انتظامیہ کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوتا تھا، جس میں ڈپٹی کمشنر سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ چناں چہ یہ نظام منطقی طور پر ملک میں جمہوریت کو فروغ نہیں دے سکا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 1972ء سے 1977ء کے درمیانی عرصے میں بلدیاتی اداروں کی تطہیر کی کوشش کی۔ پی پی پی نے بلدیاتی کونسلز، بالخصوص یونین کونسلز کی جگہ(بالخصوص دیہی علاقوں میں) کثیر المقاصد کو آپریٹیوز بنانے کی کوشش کی، جسے ولیج کمیٹی کا نام دیا گیا۔ ولیج کمیٹی کے پاس کوئی اختیار ہوتا تھا اور نہ اس کے مالیاتی ذرایع ہوتے تھے۔ وہ دراصل ایک مشاورتی ڈھانچا ہوتا تھا جو گائوں کے مسائل کی نشان دہی کرتا اورآئی آر ڈی پی کے تحت وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کراتا تھا۔ ان ولیج کمیٹیزپر دراصل گائوں کے جاگیرداروں کا غلبہ ہوتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے سیاسی طاقت کے ارتکازکے باوجود عدم ارتکازِ اختیارات کی بعض پالیسز اپنائیں اور اس ضمن میں بعض قوانین بھی بنائے گئے۔ 1973ء کا آئین نافذ ہوا تو ہر صوبے میں یونین کونسلز کی تشکیل کو آئینی تحفظ حاصل ہوگیا، اور خود مختاری اور انہیں بھرپور طریقے سے ترقی دینے اور خود پر انحصار کرنے والی کمیونٹی کے طور پر ابھرنے کی ضمانت دے گی۔ اس کے بعد صوبائی اسمبلیز نے تین پہیوں والے بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی کی اور دیہی کونسل، حلقہ کونسل اور ضلع کونسل کی تشکیل ممکن بنائی گئی۔ 

پھر پیپلز کونسلز ایکٹ مجریہ 1975ء سامنے آیا جس کے تحت لوکل گورنمنٹ یونٹس کو آئینی تحفظ دیا گیا اور انہیں ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بلدیاتی ادارے ترویج نہیں پاسکے اور صرف یہ تبدیلی آسکی کہ وفاقی حکومت کے مالیاتی شعبے کی انتظام کاری کی ذمے داریاں کسی حد تک تقسیم ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کونسلز کے انتخابات ہوئے اور نہ قوانین پر عمل درآمد کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر عارضی انتظام کے تحت ڈسٹرکٹ کے ایڈمنسٹریٹرز مقرر رہے۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے وقت تک جاری رہا۔

جنرل ضیاء الحق کی جانب سے طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنے، منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے اور آئین معطل کرنے کی وجہ سے ملک میں سیاسی مزاحمت کا نیا دور شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو قانونی سہارا دینے اور نچلی سطح تک طاقت کی بنیادیں قائم کرنے کے لیے اپنے پیش رو فوجی آمر جنرل ایوب کی طرح بلدیاتی اداروں کو استعمال کرنے کے بارے میں منصوبہ بنایا۔ ستمبر 1979ء میں انہوں نے بلدیاتی اداروں میں اصلاحات کا اعلان کیا جس کے لیے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء جاری کیا گیا۔ اس آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ ان اصلاحات کا مقصد نچلی سطح تک لوگوں کی حکومت میں شرکت کو یقینی بنانا اور اختیارات کا ارتکاز کم کرنا ہے۔ 

اس مقصد کے لیے صوبوں نے بھی قانون سازی کی، جس کے تحت دیہی اور شہری بلدیاتی ادارے قائم کیے گئے۔ اس اقدام کی وجہ سے بلدیاتی اداروں میں ضلعی انتظامیہ کی مطلق العنانی کا سلسلہ کسی حد تک تھم گیا۔ یہ بلدیاتی اداروں کی تنظیم نو کے حوالے سے اہم پیش رفت تھی۔ دیہی بلدیاتی ادارے دو پہیوں کی گاڑی کی مانند تھے۔ منتخب ہونے والی کونسلز کو ٹیکس لگانے اور ترقیاتی کام کرانے کے اختیارات حاصل تھے۔ تمام صوبوں میں یہ ادارے اپنی ساخت کے لحاظ سے تقریباً یکساں تھے۔ فرق تھا تو صرف ان کونسلز کے حجم اور ان کے زیرِ تحت علاقوں کے رقبے کے بارے میں تھا۔ یونین کونسلز اس نظام کی بنیاد تھیں۔ اس نظام کا دوسرا ٹائر ضلع یا ڈسٹرکٹ کونسل تھا۔

اس نظام کی بنیادی خرابی مالیاتی مسائل تھے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ چناں چہ مسائل اور وسائل کے درمیان وسیع خلیج حائل تھی۔ 1985ء میں وفاق اور صوبوں نے ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمیٹیز کا نظام بناکر اس مسئلے کو مزید گمبیھر بنادیا تھا جس کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے گرانٹس دی جانے لگی تھیں۔ 

یوں یونین کونسلز کی فزیکل پلاننگ اور ریگولیٹری فنکشنز کے معاملات ڈی ڈی سی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ڈسٹرکٹ کی سطح کے افسران کے تحت ہوگئے تھے۔ ڈی ڈی سی کے اراکین وفاقی اور صوبائی اسمبلیز کے اراکین ہوتے تھے جن کا تعلق حکم راں جماعت سے ہوتا تھا۔ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے براہ راست احکامات کے تحت کام کرتے تھے۔ اس طرح اس نظام پر سیاسی اثرات بھی پڑنے لگے۔

پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے نومبر 1989ء میں پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے نظام کی خامیوں کی نشان دہی کرنے اور انہیں دور کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی، جس کے سربراہ اس وقت کے سندھ کے گورنر کمال اظفر تھے۔ ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں تین اہم نکات کی نشان دہی کی تھی، یعنی اختیارات اور وسائل کا حد سے زیادہ ارتکاز ہے، وزارتوں کی حدسے زیادہ تقسیم کی گئی ہے اور بلدیاتی ادارے تقریباً غیر مؤثر ہیں۔ 

مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دو ٹائر والا بلدیاتی ڈھانچا بنایا جائے جو ضلع، ٹائون/ ولیج کونسل پر مشتمل ہو۔ ضلع کی سطح پر اسمبلی بنائی جائے، جس کا سربراہ وفاق کا نام زد کردہ ڈسٹرکٹ گورنر ہو اور اراکین منتخب کیے جائیں، ڈسٹرکٹ کا نظام چلانے کے لیے چار رکنی ضلعی کا بینہ تشکیل دی جائے، ڈپٹی کمشنر اس اسمبلی کا سکریٹری ہو، ہر علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے ضلع اور ولیج کمیٹی کو شامل کیا جائے اور لوکل کونسلز کو صوبائی محاصل میں سے حصہ دیا جائے۔ تاہم ان سفارشات پر عمل نہیں ہوا اور نہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت اور میاں نواز شریف کے دونوں ادوارِ حکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔

جنرل مشرف میاں نواز شریف کی حکومت کو غیر آئینی طور پر ہٹاکر اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے لیفٹننٹ جنرل تنویر نقوی کی سربراہی میں نشینل ری کنسٹرکشن بیورو تشکیل دیا جس کے بطن سے نئے بلدیاتی نظام نے جنم لیا۔ اس منصوبے کا نام نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم رکھا گیا۔ نیا نظام 14اگست 2001ء کو لوکل گورنمنٹ پلان 2000ء کے نام سے سامنے آیا۔ پھر صوبائی حکومتوں نے 2001ء میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کیے۔ یہ نظام ڈسٹرکٹ، تحصیل، یونین اور ولیج کونسلز پر مشتمل تھا۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ساتھ بڑے شہروں میں شہری حکومتیں بھی بنائی گئیں۔ 

بہ راہ راست ووٹس کے ذریعے ہر کونسل کے لیے اراکین منتخب کیے گئے جنہوں نے بعد میں ٹائون کے لیے اور ٹائونز نے شہری حکومتوں کے لیے ناظم، نائب ناظم وغیرہ کا انتخاب کیا۔ اس نظام میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو اختیارات کی تقسیم کے ضمن میں مرکزی اکائی کی حیثیت حاصل تھی۔ ہر ڈسٹرکٹ کو دیہی علاقوں میں تحصیل اور یونین کونسلز میں اور شہری علاقوں میں ٹاؤن کونسلز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت دو مرتبہ چار چار برس کے لیے عوام نے اپنے علاقوں سے نمائندے منتخب کیے۔

شہری حکومتوں کے نظام میں ڈویژنل کمشنر کو ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر کا نام دے کر شہری حکومت کے ناظم کے ماتحت کردیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈویژنل پولیس کے افسر یعنی ڈی آئی جی کو سی سی پی او کا نام دیا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔ بیوروکریسی یا ضلعی انتظامیہ کو علیحدہ ادارہ بناکر اس کے اختیارات کم کیے گئے تھے۔ ضلعی حکومت میں ضلع ناظم اور نائب ناظم اور ضلعی انتظامیہ شامل تھی۔ نائب ضلع ناظم کونسل کا اسپیکر بھی ہوتا تھا۔ 

ضلع کونسل کے اراکین منتخب شدہ یونین کونسل کے ناظم ہوتے تھے۔ اس طرح ہر یونین کونسل کا ایک نمائندہ ضلع کونسل میں ہوتا تھا۔ ضلع کونسل میں جنرل سیٹس ضلع میں موجود یونین کونسلز کی تعداد کے لحاظ سے مقرر تھیں۔ 33 فی صد نشستیں خواتین، 5 فی صد محنت کشوں اور کسانوں اور 5 فی صد اقلیتوں کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ مخصوص نشستوں کے لیے حلقۂ انتخاب اس ضلع کی یونین کونسلز کے کونسلرز تھے۔

ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر مختلف صوبائی محکموں کے اختیارات کی تقسیم کی وجہ سے یہ مقامی حکومتیں زیادہ تر حکومتی کاموں کے بارے میں بااختیار تھیں اور انہیں کئی اقسام کے محاصل اور فیسز وصول کرنے کا بھی اختیار تھا۔ انہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بھی وسائل فراہم کیے جاتے تھے۔ تاہم مالیاتی اختیارات کی تقسیم کے نظام کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی تھی۔ 

یہ مسئلہ اس نظام پر تنقید کے ضمن میں کلیدی تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ قدرتی وسائل کی ملکیت کی منتقلی نہ ہونا، صوبائی اسمبلی کی جانب سے ڈسٹرکٹ اسمبلی کی کسی بھی قرارداد کو عوام کے مفاد کے منافی قرار دے کر قرار دے کر صرف گورنر کی منظوری کے بعد مسترد کرنے کی پابندی کو اس نظام کی منفی باتیں قرار دیا جاتا ہے۔

پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا متعارف کرایا گیا نظام کافی موثر تھا، لیکن اس میں بھی چند خامیاں تھی۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد یہ نظام بھی لپیٹ دیا گیا اور پھر تجربات کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔