• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلیک ہول کا وجود کائنات کے عجیب ترین مظاہر میں سے ایک ہے۔ یہ اس قدر کثیف ہوتا ہے کہ اس میں سے روشنی بھی خارج نہیں ہو سکتی۔ جب کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصّے میں ہوتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے یا پھر بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

 کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ بلیک ہول میں تھوڑی جگہ پر انتہائی زیادہ مادے کی وجہ سے اس کی کشش اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ روشنی بھی اس سے فرار نہیں ہوسکتی۔

خلائی مائرین کی تحقیق کے مطابق بلیک ہول خلا میں موجود ایسے مقامات ہیں جن کی کشش ثکل اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ روشنی کو بھی نگل جاتے ہیں۔ ایک عام نظریہ کے مطابق سپیس میں بہت بڑی مقدار میں موجود گاڑھا مادہ مخصوص وقت کے بعد بلیک ہول کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جس کے گرد کا حلقہ ایونٹ ہوریزون کہلاتا ہے ماہرین کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر کسی بھی چیز کے لیے واپسی ممکن نہیں ہے۔

خلا میں موجود اس حلقے کو بلیک ہول ا س لیے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ جو بھی روشنی اس پر پڑتی ہے وہ منعکس نہیں ہوتی اور وہاں سوائے سیاہ دھبے کے اور کچھ نظر نہیں آتا ہے۔