• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسین قریشی

’تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم اتنی تیزی سے اپنی شاخوں کو کیوں ہلا رہے ہو؟ اس وقت تو ہوا بھی خاموشی سے چل رہی ہے۔ ایسا کرنے سے تمہاری شاخوں پر لگے بیر زمین پر گر رہے ہیں جو خراب ہو جائیں گے۔ تمہیں یہ بات سمجھنا چاہئے۔ ‘‘

میدان نے بیر کے پیڑ سے کہا۔ ’’تو کیا کروں؟ کس کے لئے بیروں کو سنبھال کر رکھوں؟ یہ بیر کچھ دن پہلے ہی پک چکے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ نیچے گر بھی رہے ہیں مگر بہت دن بیت گئے، اب کوئی بھی بیر توڑنے نہیں آتا۔ مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ پیارے پیارے، راج دلارے اور ہمارا دل بہلانے والے بچے کہاں چلے گئے ہیں؟ پتہ نہیں کیوں وہ اب بیر توڑنے نہیں آتے ہیں؟ بچوں کی مستی، ان کی کھلکھلاہٹ اور کھیل کود کی آوازیں مجھے بہت لطف دیتی تھیں۔ بڑا مزہ آتا تھا۔ بچوں کا ضد کرنا۔ میری شاخوں پر پتھر مارنا۔ اور بیر اٹھاکر جمع کرنا۔ میرے میٹھے میٹھے مزیدار بیر بچے بہت پسند کرتے تھے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے نمبر لگاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو بیر بانٹتے تھے۔ کوئی روٹھ جاتا تو دوسرا اسے مناتا۔

بیر لے کربچے خوشی خوشی اپنے گھر جاتے تھے۔ کبھی صبح تو کبھی شام کے وقت بچے مجھے پریشان کرتے تھے۔ ان کی شرارتیں میرا دل لبھاتی تھیں۔ میں کبھی ان سے شکایت نہیں کرتا تھا بلکہ دل ہی دل میں خوش ہوتا تھا۔ کچھ بچے غلیل لے کر آتے تو کچھ بڑی لمبی لکڑیاں لے کر آتے میری شاخوں کو زور زور سے جھٹکے دیتے۔ ان کی اس محنت سے میں اپنے بیر نیچے گرا دیتا۔ بچے اسے خوشی خوشی بڑی چستی و چالاکی سے چنتے جو زیادہ جمع کرتا وہ اپنے ساتھیوں کو دکھاتاکراتراتا تھا۔ 

بچے بھی اس سے بیر مانگنے کے لئے اس کے پیچھے جاتے تھے۔ بڑا مزہ آتا تھا۔ میں اس موسم کا پورے سال بڑی بےصبری سے انتظار کرتا رہتا تھا مگر نہ جانے یہ بچے تین چار سالوں سے کہاں گم ہوگئے۔ اب اس سال بھی میرا بیروں کا موسم یوں ہی مایوسی و اداسی میں گزر رہا ہے۔ اس بات کا مجھے بے حد دکھ اور افسوس ہے۔ مجھے غصہ بھی آرہا ہے۔ بس اپنی بے چینی و بے قراری کو دور کرنے کے لئے یہ سب بیر نیچے پھینک رہا ہوں۔‘‘ بیر کے پیڑ نے افسوس و دکھ بھرے انداز میں میدان سے کہا۔

’’ہاں ! بھائی تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میری رونق و دلکشی انہی بچوں کی چہل پہل، کھیل کود اور بھاگ دوڑ سے تھی۔ ان کی بھاگ دوڑ، کھیلنا کودنا، شرارتیں، ہنسنا شور مچانامجھے بہت پسند تھا لیکن اب پتہ نہیں یہ بچے کہاں چلے گئے ہیں؟ مَیں نے سنا ہے کہ بچے اب ٹیکنالوجی سے بنے کھیل، کھیل رہے ہیں۔ مطلب موبائل گیم، کمپیوٹر گیم وغیرہ پر اکیلے ہی کھیلتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح سے بچے اپنی صحت خراب کر لیں گے۔ ہر وقت موبائل فون، کمپیوٹر پر جھکے رہتے ہیں، اس سے ان کا کتنا نقصان ہورہا ہے، وہ نہیں جانتے۔

ایک دن دو ڈاکٹر اس میدان میں باتیں کر رہے تھے کہ بچوں کی آنکھیں خراب ہورہی ہیں۔ گردن کی ہڈی جھکے رہنےسے باہر نکل آتی ہے۔ بچے کچھ کھاتے نہیں اس لئے کمزور ہوجاتے ہیں۔ پھر جب ماں باپ ڈانٹتے ہیں تو چڑ چڑے اور بدد تمیز ہوجاتے ہیں۔ آگے آنے والے وقت میں کیا ہوگا، پتہ نہیں اور ہم بھی ویران ہوکر اپنی رنگت، خوبصورتی کھو دیں گے۔ ہمیں بچوں کو آواز دینی چاہئے۔ ‘‘ میدان نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے بیر کے پیڑ سے کہا،تو وہ زور زور سے چلانے لگا, ’’ احمد.... ہمارے پاس آؤ۔ اپنے دوستوں کو لے کر آؤ۔ جلدی آؤ۔‘‘

’’ہاں! دوست مَیں آرہا ہوں۔ مَیں آرہا ہوں۔ میں اپنے دوستوں کو لے کر آرہا ہوں۔‘‘

احمد کی چیخ سن کر اس کی امی دوڑتی ہوئی آئیں، انہوں نے اسے نیند سے بیدار کرتے ہوئے پوچھا، ’’بیٹا! کیا ہوا ؟ کیوں چیخ رہے ہو؟ اور کہاں جانے کی بات کررہے ہو؟ شاید! تم نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ ‘‘ امی نے پوچھا۔

’’ ہاں! امی میں نے بیر کے پیڑ اور میدان کی گفتگو سنی ہے۔ وہ ہم بچوں کو یاد کر رہے ہیں‌۔ میں صبح جلد ہی اپنے تمام دوستوں کو میدان پر کھیلنے کے لئے لے جاؤں گا۔ ‘‘ احمد نے چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا! مَیں بھی تمہیں کتنی مرتبہ سمجھا چکی ہوں کہ یہ موبائل یا لیپ ٹاپ پر گیم کھیلنا بری عادت ہے۔ اس سے صحت خراب ہوجاتی ہے لیکن تم مانتے ہی نہیں ہو۔ ‘‘ ماں نے احمد کے سر پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’اب مَیں بھی مان گیا ہوں اور یہی بات اپنے دوستوں کو بھی سمجھا کر میدان پر کھیلنے کے لئے لے جاؤں گا۔ ‘‘ احمد نے کہا