مکّہ کا موسم
علّامہ رفعت باشا تحریر کرتے ہیں کہ مکّہ کی آب و ہوا گرم خشک رہتی ہے۔ عموماً جنوری میں درجۂ حرارت18 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے، جب کہ جون، جولائی میں 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اور گرم ہوائیں شہرِ جاناں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ علّامہ فرید وجدی تحریر کرتے ہیں کہ مکّہ میں ہوائیں اپنا رُخ تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ اہلیانِ مکّہ کی رائے میں اللہ تعالیٰ نے70 قسم کی ہوائیں پیدا کی ہیں، جن میں سے 69 صرف مکّہ مکرّمہ کے لیے اور ایک باقی دُنیا کے لیے ہے۔ یہاں کی ہوا پہاڑوں سے ٹکرا کر بھنور کی طرح بَل کھاتے ہوئے چلتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مکّہ کے لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر روشن دان بنایا کرتے تھے۔ مکّہ میں سب سے عُمدہ ہوا وہ ہوتی ہے، جو مغرب سے چلتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں سمندر ہونے کی بنا پر ہوا مرطوب اور خوش کُن ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جو ہوا شمال کی جانب سے آتی ہے، وہ بھی خوش گوار ہوتی ہے، یہاں کے لوگ اسے ’’شمالی ہوا‘‘ کہتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں جو ہوائیں مشرق اور جنوب سے چلتی ہیں، وہ گرم ہوائیں ہوتی ہیں۔(دائرۃ المعارف، جلد1 ، صفحہ 348)۔
عموماً بارشیں کم ہوتی ہیں، لیکن کبھی اتنی موسلا دھار اور تیز ہو جاتی ہیں کہ سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکّہ کے چاروں جانب پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پورا پانی ایک ساتھ نیچے بہہ کر آ جاتا ہے، جو سیلابی صُورت اختیار کر لیتا ہے۔ سیلاب سے عموماً مسفلہ کا محلّہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے،جو نشیب میں واقع ہے۔ یہاں بارش کا اوسط تناسب 100 سے 150ملی میٹر کے درمیان رہتا ہے۔
مکّہ میں انبیاء کرامؑ کی قبور
علّامہ طاہر الکردیؒ تحریر کرتے ہیں کہ انبیاء کرامؑ میں کئی ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنی قوم سے مایوس ہو کر مکّہ مکرّمہ کی طرف ہجرت کی اوراسی زمین میں مدفون ہوئے، اِسی وجہ سے بیتُ اللہ شریف کے گرد و نواح میں تین سو انبیاء کرامؑ کی قبریں ہیں۔ رُکنِ یمانی اور حجرِ اَسود کے درمیان 70انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبریں ہیں۔ حطیم کے اندر اور میزابِ کعبہ کے نیچے سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام اور اُن کی والدہ ماجدہ، حضرت ہاجرہؑ کی قبریں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، رُکن یمانی اور مقامِ ابراہیمؑ کے درمیان 99 انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبریں ہیں۔ (تاریخ القویم، جلد3 ، صفحہ 47)۔
حضرت ابراہیمؑ کی مِصر کی جانب ہجرت
مکّہ مکرّمہ کو جس خاندان نے آباد کیا اور مستقل سکونت اختیار کی، وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اہلِ خانہ، یعنی اُن کی اہلیۂ محترمہ، سیّدہ ہاجرہؑ اور صاحب زادے، حضرت اسماعیل علیہ السّلام تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام، اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور شجاعت و استقامت کے پیکر تھے۔ نمرود کی بادشاہت کو سب سے بڑا خطرہ اُن ہی سے تھا۔ لیکن جب وہ نمرود کی آگ کے فلک بوس شعلوں سے زندہ سلامت واپس ہوئے، تو بابل سے ہجرت کا عزم کیا۔ اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر بیتُ المقدس کی جانب کُوچ کیا، لیکن پھر مِصر ہجرت کر گئے۔ اُس وقت آپؑ کی عُمر 75 سال تھی۔ کہتے ہیں کہ آپؑ کی اہلیہ، حضرت سارہؑ دُنیا کی حسین ترین خاتون تھیں۔
حضرت سارہؑ فرعون کے دربار میں
مِصر میں اُس زمانے میں فرعونوں کی حکومت تھی۔ مِصر کا فرعون ایک عیّاش اور جبّار شخص تھا۔ بادشاہ کو جب حضرت سارہؑ کے حُسن وجمال سے متعلق علم ہوا، تو اُس نے اُنہیں اپنے دربار میں طلب کر لیا۔ بادشاہ نے جب حضرت سارہؑ کو دیکھا، تو غلط ارادے سے اُن کی جانب بڑھا، لیکن اُس کے قدم زمین میں دھنس گئے۔ اُس نے حضرت سارہؑ سے التجا کی، تو اُن کی دُعا سے وہ آزاد ہوگیا۔ لیکن اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔
اُس نے دو تین مرتبہ پھر دست درازی کی کوشش کی، لیکن ہر بار وہ سیّدہ کے قریب آنے سے پہلے ہی زمین میں دھنس جاتا۔ یہاں تک کہ وہ حضرت سارہؑ کی بزرگی، پاکیزہ شخصیت اور کرامات کا قائل ہوگیا۔ اُس نے نہ صرف اُن سے معافی مانگ کر عزّت و احترام سے رُخصت کیا بلکہ اپنی صاحب زادی، ہاجرہ کو بھی ساتھ کر دیا کہ اِس نیک سیرت خاتون کی صحبت میں رہ کر بہتر تربیت پا سکے گی۔
حضرت ہاجرہؑ سے نکاح
اِس واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام فلسطین کُوچ کر گئے۔ وقت گزرتا رہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولادِ نرینہ کی شدید خواہش اور بے کراں دُعائوں کے باوجود اِس نعمت سے محروم رہے۔ آپؑ کی اولاد کی آرزو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے حضرت سارہؑ نے حضرت ہاجرہؑ سے نکاح کی تجویز دی، اُس وقت آپؑ کی عُمر85 سال تھی۔ حضرت ہاجرہؑ سے نکاح کے اگلے ہی سال اللہ تعالیٰ نے اُن کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو پیدا فرما دیا۔
فرعونِ مِصر کی صاحب زادی
علّامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ’’ فتح الباری‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ہاجرہؑ کا باپ قِبطی بادشاہ تھا، جو مِصر کے مضافاتی علاقے’’حفن‘‘ کا رہنے والا تھا۔ ( جلد6 ، صفحہ 304)۔ علّامہ حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ بیان فرماتے ہیں کہ’’ حضرت ہاجرہؑ لونڈی یا باندی نہیں، بلکہ شاہِ مصر کی شہزادی تھیں۔‘‘(قصص القرآن، جلد اوّل صفحہ 188)۔ سیّد سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ’’ بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام اورحضرت سارہؑ کے تقدّس سے متاثر ہو کر اپنی بیٹی (حضرت ہاجرہؑ) اس مقدس جوڑے کی خدمت کے لیے اُن کے حوالے کی تھی۔‘‘(ارض القرآن، صفحہ 280)۔
امام سہیلیؒ بیان کرتے ہیں کہ سیّدہ ہاجرہؑ مِصر کے قبطی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی شہزادی تھیں (روض الائف، صفحہ11)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم عموماً ارشاد فرماتے تھے کہ’’ میری دادی یعنی حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ حضرت ہاجرہؑ مِصری قبطیہ تھیں اور میرے بیٹے ابراہیمؓ کی والدہ ماریہ ؓبھی مصری قبطیہ ہیں۔‘‘
حکمِ رَبّانی کی تعمیل
86 سال کی پیرانہ سالی میں فرزندِ ارجمند کی آمد سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دِلی مُراد پوری ہوگئی تھی۔ بار بار صاحب زادے کو دیکھتے اور اللہ کا شُکر ادا کرتے۔ لیکن ایک اور آزمائش آپؑ کی منتظر تھی۔ ایک صبح حضرت جبرائیلؑ حکمِ الٰہی لے کر حاضر ہوئے کہ اپنی اہلیہ اور نومولود کو وادیٔ غیرِ ذی زَرَع میں چھوڑ آئیں۔
حکمِ رَبّانی کی فوری تعمیل مقصود تھی۔ اُسی وقت اہلیہ اور بچّے کو ساتھ لیا۔ پانی کا مشکیزہ اور گھر میں موجود کچھ کھجوریں زادِ راہ کے طور پر ساتھ رکھیں اور ایک طویل سفر پر روانہ ہوگئے۔ روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیل امینؑ براق لے کر حاضر ہوگئے تھے، جس پر سوار ہو کر آپؑ نے اپنے اس تاریخی سفر کا آغاز کیا۔
وادیٔ فاران کے بیابانوں میں
عرب کی بیابان گھاٹیوں، بے آب و گیاہ وادیوں، لق دق صحرائوں اور سنگلاخ چٹانوں کے دامن کو چیرتا تین نفوسِ قدسیہ پر مشتمل یہ چھوٹا سا قافلہ کالے پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے سُرخ ٹیلے کے قریب پہنچا کہ جہاں ویرانے میں ایک بوڑھا صحرائی درخت نہ جانے کب سے اپنے مکینوں کے انتظار میں کھڑا تھا۔ سیّدنا ابراہیمؑ ابھی اس ٹیلے کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ حضرت جبرائیلؑ حاضر ہوئے اور فرمایا ’’اے ابراہیمؑ! یہی آپؑ کی منزل ہے۔ یہ مکۃ المکرّمہ ہے اور اسی سُرخ ٹیلے کے نیچے اللہ کے گھر کی بنیادیں ہیں، جن پر آپؑ کو اللہ کا گھر تعمیر کرنا ہے۔ ‘‘اِس گفتگو کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے اپنی رفیقۂ حیات اور برسوں کی دعاؤں، التجاؤں کے بعد پیدا ہونے والے فرزند کو کہ جو ابھی شیرخوار ہی تھے، ٹیلے کے نزدیک بوڑھے درخت کے سائے میں بٹھایا۔
زادِ راہ قریب رکھا اور کچھ کہے سُنے بغیر واپسی کے لیے مُڑ گئے۔ جاں نثار رفیقۂ حیات نے شوہر کو واپس جاتے دیکھا، توحیران و پریشان ہو کر شوہر کی جانب لپکیں’’اے اللہ کے نبی آپؑ کہاں جارہے ہیں؟‘‘ جواب ندارد۔ تڑپ اُٹھیں، آگے بڑھ کر جاتے شوہر کا دامن تھاما اورنہایت التجائی آواز میں محبّت و اُلفت سے مرغوب ہو کر گویا ہوئیں’’ اے ابراہیمؑ! پہاڑیوں کے درمیان یہ لق دق صحرا کہ جہاں نہ آدم ہے، نہ آدم زاد اور نہ ہی زندگی کا کوئی نام و نشان، اس وادی میں آپؑ ہمیں کس کے سپرد کیے جا رہے ہیں؟‘‘ بار بار کی فریاد و التجا کے باوجود جب حضرت ابراہیمؑ نے کوئی جواب نہیں دیا، تو ورطۂ حیرت میں ڈُوب گئیں۔
یہی خیال کیا کہ حد سے زیادہ محبّت کرنے والے شفیق شوہر کی اس لاتعلقی اور بے رُخی کی ضرور کوئی وجہ ہوگی، پھر یاد آیا کہ حضرت ابراہیمؑ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ پیغمبروں کا ہر عمل اللہ کے حکم کے تابع ہوتا ہے اور یہ خیال آتے ہی استغفار کیا۔ ’’اے اللہ کے نبی! کیا یہ حکمِ الٰہی ہے؟‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے پیچھے مُڑے بغیر جواب دیا’’ہاں۔‘‘ یہ سُن کر حضرت ہاجرہؑ نے اطمینان و سکون کے ساتھ پُرعزم لہجے میں کہا’’تو پھر مجھے یقین ہے کہ ہمارا اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔‘‘حضرت ابراہیمؑ آگے بڑھ گئے۔ سیّدہ ہاجرہؑ واپس پلٹیں اور شیر خوار لختِ جگر کو گود میں لے کر درخت کے سائے میں اللہ کے آسرے پر بیٹھ گئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دُعا
سیّدنا ابراہیمؑ واپسی کے راستے پر چلتے ہوئے ایک ٹیلے کے قریب پہنچے۔ ٹیلے کی اوٹ میں ہو کر اِس بات کا اطمینان کیا کہ اب ہاجرہؑ مکمل طورپر نظروں سے اوجھل ہوگئی ہیں۔ اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب جاں نثار اہلیہ اور لختِ جگر کی محبّت نے جوش مارا، بیابان ویرانے میں اہلِ خانہ کی بے سرو سامانی دیکھ کر پکار اُٹھے’’اے میرے رَبّ! مَیں نے اپنی اولاد کو اِس میدانِ بیابان (مکّہ مکرّمہ) میں کہ جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ہے۔
تیرے محترم گھر کے قریب لا بسایا ہے تا کہ یہ نماز قائم کریں، بس تُو لوگوں کے دِلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پَھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ یہ تیری شُکرگزاری کریں۔‘‘(سورۂ ابراہیم، آیت 37)۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دُعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔ آج ہزارہا سال گزر جانے کے باوجود مکّہ کے بازاروں میں کبھی پَھلوں اور اجناس کی کمی نہیں ہوئی۔
اطاعتِ خداوندی کی خُوب صُورت نظیر
اطاعتِ خداوندی کی ایسی عظیم نظیر اور فرماں برداری کا ایسا قابلِ رشک مظاہرہ چشمِ فلک نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ صابر و شاکر اہلیہ سے تسلّی و تشفّی کی کوئی بات کی اور نہ برسوں کی دُعائوں کا ثمر، اولادِ نرینہ، لختِ جگر، معصوم اسماعیلؑ کے سر پر دستِ شفقت پھیرا۔ فوری واپسی کا حکم تھا، چناں چہ تعمیل میں ذرا سی بھی دیر گوارا نہ تھی۔ دُعا کے فوری بعد نہایت برق رفتاری سے مُلکِ شام کی جانب روانہ ہوگئے۔
ماں کی بے قراری اور اللہ کا انعام
ویران صحرا کی سیاہ خوف ناک رات کے بھیانک سنّاٹے میں کُھلے آسمان تلے حُزن و ملال اور کرب و اضطراب کے عالم میں صبر و ضبط کا پیراہن زیب تن کیے اللہ کی یہ برگزیدہ بندی اپنے رَبّ کی رحمتوں کی منتظر کم سِن شیرخوار کو سینے سے چمٹائے ذکر اذکار میں مصروف ہے۔ آزمائش کی اِس سخت ترین گھڑی میں دُور بیٹھا شیطان اس بندیٔ ناتواں کی مضبوط قوّتِ ارادی کے بکھر جانے، صبر و تحمّل کے ٹوٹ جانے اور حوصلوں کے پست ہو جانے کا منتظر ہے۔ ڈر اور خوف کے سائے حواسوں پر چھا جانے کے لیے بے قرار ہیں۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ زادِ راہ ختم ہوگیا، پانی کا مشکیزہ خالی ہوگیا۔
بھوک و پیاس کی شدّت نے اپنا رنگ دِکھانا شروع کر دیا۔ ہر گزرتے لمحوں کے ساتھ معصوم نونہال کی بے قراری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ممتا کی ماری ماں نے جگر گوشے کی اضطرابی کیفیت دیکھی، تو گھبراہٹ کے عالم میں اپنے چاروں جانب نظریں دوڑائیں، لیکن سوائے ریت کے گرم تھپیڑوں کے کچھ نہ تھا۔ افسردگی اور بے بسی کے عالم میں ایک نظر لختِ جگر پر ڈالی، تو تڑپ اُٹھیں۔ ننّھی سی جان اپنی چھوٹی چھوٹی آنسوئوں سے لب ریز آنکھوں سے ماں کو ملتجی نظروں سے دیکھتے ہوئے بِلک بِلک کر زمین میں ایڑیاں رگڑ رہی تھی۔
یہ منظر ناقابلِ برداشت تھا۔ بے قراری کے عالم میں اُٹھیں، قریبی ’’صفا‘‘ نامی پہاڑی پر چڑھیں۔ مضطربانہ نگاہیں چاروں جانب دوڑائیں کہ شاید کوئی انسان یا پانی کا کوئی نشان نظر آ جائے۔ مگر وہاں بھی مایوسی و محرومی کے سِوا کچھ نہ تھا۔ تڑپتے دِل کے ساتھ بے قرار ہو کر اُتریں۔ وادی کو تیزی سے عبور کر کے دُوسری پہاڑی ’’مروہ‘‘ پر چڑھیں، لیکن بے سود۔ واپس دوڑتی ہوئی صفا پر چڑھیں۔ اسی اضطراب کے عالم میں سات مرتبہ دونوں پہاڑیوں کے چکر لگائے۔ ساتویں مرتبہ مروہ پہاڑی سے صاحب زادے کی جانب نگاہ دوڑائی، تو یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئیں کہ بچّے کے پاس ایک نورانی شکل کے بزرگ کھڑے ہیں اور اسماعیلؑ کے قدموں تلے پانی اُبل رہا ہے۔
تیزی سے دوڑ کر وہاں پہنچیں، لختِ جگر کو گود میں اُٹھایا۔ پانی تیزی سے بہنے لگا تھا، لہٰذا اس کے گرد حوض کی طرح مٹّی کا گھیرا بناتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ ’’زم زم‘‘ یعنی’’ رُک جا، رُک جا۔‘‘ حضرت ہاجرہؑ نے خود بھی پانی پیا اور معصوم اسماعیلؑ کو بھی پلایا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ’’اللہ پاک اُمّ ِ اسماعیلؑ پر رحم فرمائے۔ اگر وہ پانی کو اِس طرح نہ روکتیں، تو آج زم زم کنوئیں کے بجائے ایک نہر کی شکل میں ہوتا۔‘‘
حضرت جبرائیلؑ کی آمد
روایت میں ہے کہ وہ بزرگ شخصیت، حضرت جبرائیل ؑ تھے۔ اُنہوں نے حضرت ہاجرہؑ سے فرمایا’’ تم اس زمین پر اطمینان اورسکون سے رہو۔ اللہ تمہیں ضائع نہیں کریں گے۔ یہاں اللہ کا گھر ہے، جس کی تعمیر تمہارا یہ نونہال اوراس کے والد کریں گے۔‘‘ روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیلؑ نے اللہ کے حکم سے حضرت اسماعیلؑ کے پائوں کے پاس اپنے پَر کا کونا مارا تھا، جس سے پانی کا چشمہ اُبل پڑا۔ حضرت جبرائیلؑ ، حضرت ہاجرہؑ کو تسلّی دے کر واپس جا چکے تھے۔
حضرت ہاجرہؑ نے وہاں ایک جھونپڑی بنا لی تھی۔ آبِ زم زم کے پینے سے پیاس لگتی ہے اور نہ بھوک، لہٰذا اس سے دونوں ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ رَبِّ کعبہ کو اپنی برگزیدہ بندی کے صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے کا یہ عمل اِس قدر پسند آیا کہ اسے حج و عُمرے کا رُکن بنا دیا۔ (جاری ہے)