• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں پورا پاکستان المیوں کا شکار ہے، کہیں طوفانی بارشیں اور سیلاب تباہی و بربادی کی درد ناک داستانیں رقم کرنے کے بعد کسی اور مقام کی جانب بڑھ چکا ہے اور کہیں یہ سلسلہ اب بھی جاری وساری ہے۔ بلوچستان ایسا حُرماں نصیب صوبہ ہے جہاں مُون سُون کے آغاز سے تادم تحریر تیز اور طوفانی بارشوں اور سیلاب کا سلسہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، تاہم اب اُن کی شدّت کسی حد تک کم ہوگئی ہے۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے پورے ملک میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور بہت سے افراد زخمی اور لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد کا سب کچھ پانی بہاکر لے جاچکا ہے اور وہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مجموعی طور پر مالی نقصانات کا اندازہ ایک ہزار ارب روپے سے زاید ہے ، تاہم یہ ابتدائی اندازہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر میں تباہی مچارکھی ہے، ہم اس سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔ موجودہ صورت حال اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے۔ تقریبا ایسی ہی صورت حال 2010 میں بھی پیدا ہوئی تھی۔اس وقت ماہرین نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھانےکی ضرورت پر زوردیا تھا، لیکن تاحال ہم اس ضمن میں کچھ خاص نہیں کرسکے ہیں۔

قدرتی آفات :بہت سے آنسو روکے جاسکتے ہیں 

قدرتی آفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بتا کر نہیں آتیں۔ لیکن سائنس کی ترقی کے باعث آج ان میں سے بعض کے بارے میں کسی حد تک پیش گوئی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ تاہم یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے کہ کوئی قدرتی آفت آنے سے کتنی دیر پہلے پیش گوئی کرنا ممکن ہے اور اس کی روشنی میں کس حد تک ممکنہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں، محققین اور ماہرین ماحولیات کے مطابق کوئی بھی قدرتی آفت آنے سے پہلے کئی مخفی اور کئی عیاں علامات کا اظہار کرتی ہے۔ 

ان میں سے بعض کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی اور بعض کو آج سائنسی سہولتوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود انسان آج تک اس قابل نہیں ہو سکا ہے کہ وہ تمام قدرتی آفات آنے سے قبل ان کے بارے میں پیش گوئی کر سکے۔ یہ بھی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ کوئی قدرتی آفت کو آنے سے روک سکے۔

البتہ ان کے بارے میں جو اشارے سمجھے جا سکتے ہیں انہیں مدنظر رکھ کر اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کر کے ہم ممکنہ نقصانات کم کر سکتے ہیں۔ یہ ہی بات ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر اکتوبر کے دوسرے بدھ کو قدرتی آفات سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کا دن منایا جاتا ہے۔

قدرتی آفت دراصل فطری خطرات کے اثرات کا دوسرا نام ہے جو ہمارے ماحول پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جانی، مالی اور ماحولیاتی نقصانات ہوتے ہیں۔ یہ فطری خطرات سیلاب، ہوا کے طوفان، سمندری طوفان، آتش فشانی، زلزلہ یا تودے گرنا یا زمین کا سرکنا وغیرہ ہیں۔ ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا دارمدار اس علاقے میں آباد لوگوں کی جانب سے ان خطرات سے نمٹنے، ان کے خلاف مزاحمت کرنے یا ان کا معاون بننے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سادہ سا کلیہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے: ’’قدرتی آفت اس وقت آتی ہے یا تباہی پھیلاتی ہے جب خطرات کی سطح بہت بلند ہو جاتی ہے۔‘‘ 

چنانچہ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی فطری خطرہ اس علاقے میں بہت زیادہ تباہی پھیلاتا ہے جہاں خطرات کی سطح بلندی تک جا پہنچی ہو۔ مثلاً بہت شدید زلزلہ اگر کسی غیرآباد علاقے میں آتا ہے تو وہاں مالی اور جانی نقصانات کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ ماہرین کے نزدیک ’’قدرتی آفت‘‘ کی اصطلاح میں لفظ ’’قدرتی‘‘ متنازع ہے ،کیوںکہ فطری خطرات اس وقت تک آفت میں تبدیل نہیں ہوتے جب تک ان میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب کوئی فطری خطرہ کسی آباد علاقے میں ہوتا ہے تو وہ جانی اور مالی نقصانات کی وجہ سے آفت قرار دیا جاتا ہے۔ 

دوم یہ کہ بہت سے فطری خطرات کا سبب انسان کی فطرت کے خلاف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں آج کل بہت زیادہ قابل ذکر بات عالمی حِدّت میں اور اس کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اس اضافے کا سبب گرین ہاؤس گیسز کا زیادہ اخراج بتایا جاتا ہے جو کارخانوں، گاڑیوں اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ عالمی حِدّت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں 2010سے کررہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ قدرتی آفات سے کرہ ارض پر پائی جانے والی مخلوقات اور تہذیب کو کس قدر خطرہ ہے جو اس کے نقصانات سے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر یوم منایا جاتا ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ یہ خطرہ بہت شدید نوعیت کا ہے، لیکن اس خطرے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں اعداد و شمار پر نظر ڈالنا ہوگی۔ 

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دو، تین دہائیوں میں دنیا بھر میں جو قدرتی آفات آئیں ان کے نتیجے میں ہر سال انسانوں پر ان کے اثرات اور مالی نقصانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں 1900ء سے 1980ء تک کے اعدادو شمار کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ قدرتی آفات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور یہ بھی پتا چلا کہ یہ اضافہ اس دور میں ہوا جب دنیا میں اقتصادی ترقی کی شرح بڑھ رہی تھی۔

اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چوںکہ ہم قدرتی آفات پر قابو نہیں پا سکتے، لہٰذا ہمیں دولت کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ان خطرات کو کم سے کم ضرور کرنا چاہیے۔ یہ بات یوں بھی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک دولت کے انبار لگانے کے بجائے ترقی پذیر یا غریب ممالک کے لوگوں کی اقتصادی مدد کریں تو وہ بہت سے مسائل پر قابو پا کر فطری خطرات کو کم سے کم کر سکتے ہیں۔

مثلاً اگر ترقی یافتہ ممالک غریب ممالک کو ایسی ٹیکنالوجی ارزاں نرخوں پر فراہم کریں جس کے ذریعے وہ سستی بجلی پیدا کر کے استعمال کر سکیں اور وہ طریقہ ماحول دشمن بھی نہ ہو تو ان ممالک سے گرین ہائوس گیسز کا اخراج کم ہو سکے گا۔ بہ صورتِ دیگر وہ کوئلے اور فرنیس آئل جیسے ماحول دشمن ایندھن کے ذریعے بجلی بنانے پر مجبور ہوں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 1992ء سے 2002ء کے درمیان دنیا بھر میں قدرتی آفات کے نتیجے میں جو اوسط حقیقی اقتصادی نقصانات ہوئے وہ 1960ء کی دہائی کے مقابلے میں 7.3 گنا زیادہ تھے۔ ورلڈ ڈیزاسسٹر رپورٹ برائے سال 2002ء کے مطابق ان نقصانات کی اوسط سالانہ شرح 69ارب امریکی ڈالرز کے مساوی تھی۔ ان میں سے دو تہائی نقصانات ان ممالک میں ہوئے جو انسانی ترقی میں بہت آگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1991ء سے 2002ء کے درمیان جو قدرتی آفات آئیں ان کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصانات سے پتا چلتا ہے کہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے دنیا پر کس طرح کے اثرات ہو رہے ہیں۔ مثلاً ان آفات کے نتیجے میں براعظم افریقا کے مقابلے میں براعظم یورپ اور امریکا میں زیادہ اقتصادی نقصانات ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق دو دہائیوں (2002ء سے پہلے کی) کے درمیان قدرتی آفات کے نتیجے میں کُل تقریباً 15لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے اور ان دو دہائیوں میں ان آفات کے نتیجے میں سالانہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی ہوگئی تھی۔اگر بیسویں صدی کے دوسرے نصف کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں قدرتی آفات سے دنیا بھر میں ہونے والے اقتصادی نقصانات میں اضافے کے واضح رجحان کا پتا چلتا ہے۔ 1950ء سے 1959ء کے درمیان یہ نقصانات تقریباً 45 ملین امریکی ڈالرز (2002ء کی قدر کے مطابق)تھے۔ 1960ء کی دہائی میں یہ تقریباً 80 ملین تک پہنچے۔ 1970ء کی دہائی میں تقریباً 150 ملین تک، 1980ء کی دہائی میں تقریباً 210 ملین تک اور 1990ء کی دہائی میں 700 ملین امریکی ڈالر کے مساوی تھے۔ 1990ء کی دہائی میں قدرتی آفات سے براعظم ایشیا میں مجموعی طور پر 40064.8 ملین امریکی ڈالرز (2000ء کی قدر کے مطابق) کے مساوی مالیت کے نقصانات ہوئے۔ 

براعظم یورپ میں یہ شرح 164868.1 ملین، براعظم امریکا میں 204434 ملین، براعظم افریقا میں 2140.2 ملین اور اوشیانا کے خطے میں 11753.2 ملین امریکی ڈالرز کے مساوی تھی۔ سینٹر فار ریسرچ آن ایپی ڈیمیالوجی آف ڈیزاسٹر (سی آر ای ڈی) کے مطابق 2000ء سے 2007ء کے درمیانی عرصے میں قدرتی آفات سے اوسط سالانہ جتنا جانی نقصان ہوا تھا، اس کے مقابلے میں 2008ء میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2008ء میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 321 قدرتی آفات آئیں، جن کے نتیجے میں 235816 افراد ہلاک اور 21 کروڑ 10 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 181 ارب امریکی ڈالرزکے مساوی مالیت کے اقتصادی نقصانات ہوئے۔ اس عرصے میں براعظم ایشیا سب سے زیادہ متاثر ہوا اور قدرتی آفات کے نتیجے میں دنیا میں جن 10 ممالک میں سب سے زیادہ جانی نقصانات ہوئے تھے، ان میں سے 9 کا تعلق اسی براعظم سے تھا۔ 2000ء سے 2007ء کے درمیانی عرصے میں قدرتی آفات کے نتیجے میں اوسط سالانہ شرح اموات 66812 تھی، لیکن 2008ء میں یہ شرح تین گنا زیادہ ہوگئی تھی۔ 

اس کی دو بڑی وجوہ میانمار میں آنے والا سمندری طوفان NARGIS اور چین کے علاقے سی چوان میں آنے والا زلزلہ تھا۔ اول الذکر قدرتی آفت کے نتیجے میں138366اور موخرالذکر کے نتیجے میں 87476 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سی آر ڈی کی رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2007ء کے درمیانی عرصے میں قدرتی آفات کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افراد کی اوسط سالانہ شرح 231 ملین کے مقابلے میں 2008ء میں یہ شرح کم تھی۔ 2008ء میں سیلاب سے 42 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔اس کے مقابلے میں 2007ء میں 164 ملین افراد قدرتی آفات سے متاثر ہوئے تھے۔ تاہم 2008ء میں بھی تسلسل کے ساتھ آنے والی قدرتی آفات میں سیلاب پہلے نمبر پر تھا۔ اس کے ساتھ موسم سے متعلق دیگر قدرتی آفات بھی شامل تھیں۔

سی آر ڈی کی رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2007ء کی درمیانی مدت میں قدرتی آفات کے نتیجے میں اوسط سالانہ شرحِ نقصان81ارب امریکی ڈالرزکے مقابلے میں 2008ء میں یہ شرح دگنی ہوگئی تھی۔ 2008ء میں دنیا میں اقتصادی حوالے سے دو تباہ کن آفات امریکا میں آنے والا ہری کین اور چین میں آنے والا زلزلہ تھا۔ اول الذکر آفت کے نتیجے میں30ارب امریکی ڈالرز کے مساوی اور موخرالذکر کے نتیجے میں85ارب امریکی ڈالرز کے مساوی نقصان ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2008ء میں قدرتی آفات کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات میں ڈرامائی طور پر اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق ان نقصانات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی تھی، اگر بالخصوص چین میں اسکولز اور اسپتالوں کی عمارتیں زلزلے کے خلاف مزید بہتر انداز میں مزاحمت کرنے کے اصولوں کے مطابق بنائی جاتیں۔ اسی طرح میانمار میں خطرے کی بروقت نشان دہی کرنے والے موثر نظام اور عوام کی جانب سے مزید بہتر انداز میں اس سے نمٹنے کی تیاری کرکے نقصانات کم کیے جاسکتے تھے۔ 2000ء سے 2007ء کے درمیانی عرصے میں دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات کی اوسط سالانہ شرح 398 تھی، لیکن 2008ء میں اس شرح میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی، یعنی یہ 321 تھی۔

آئیے اب 1991ء سے 2005ء کے درمیانے عرصے میں آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس عرصے میں براعظم افریقا میں سیلاب اور موسم سے متعلق دیگروجوہ کی بناء پر براعظم افریقا میں ہر دس لاکھ میں سے اوسطاً 1.30 افراد، ارضیاتی آفات (مثلاً زلزلے) کے نتیجے میں 0.37 اور حیاتیاتی وجوہ (مثلاً بیماریاں) کی بناء پر 7.31 افراد ہلاک ہوئے۔ براعظم امریکا میں یہ شرح بالترتیب 6.23، 0.31 اور 1.13 اور براعظم ایشیا میں بالترتیب 5.19، 7.54 اور 0.39 ، براعظم یورپ میں بالترتیب 4.77، 0.23 اور 0.03 اور اوشیانا کے خطے میں یہ شرح بالترتیب 1.92، 5.06 اور 0.62 تھی۔

1991ء سے 2005ء کی درمیانی مدت میں آنے والی آفات کے نتیجے میں جو اقتصادی نقصانات ہوئے ان کی شرح (2005ء میں امریکی ڈالر کی قدر کے مطابق) کچھ یوں تھی۔ براعظم افریقا میں سیلاب اور موسم کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں 3.93 ارب امریکی ڈالر کے مساوی، ارضیاتی وجوہ کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں 6.14 ارب امریکی ڈالر کے مساوی اور حیاتیاتی وجوہ کی بناء پر آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں 0.01 ارب امریکی ڈالر کے مساوی مالیت کے نقصانات ہوئے تھے۔ براعظم امریکا میں یہ شرح بالترتیب 400.82، 29.98 اور 0.13، براعظم ایشیا میں بالترتیب 357.70، 219.74 اور 0.00، براعظم یورپ میں 142.83، 16.17 اور 0.00 اور اوشیانا کے خطے میں بالترتیب 14.51، 0.87 اور 0.14 ارب امریکی ڈالر کے مساوی تھی۔

ان نقصانات کو یہاں تفصیل سے پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم قدرتی آفات سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں۔ دنیا بھر میں قائم تحقیقی مراکز قدرتی آفات کی وجوہ، ان سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں جاننے اور ان اعدادو شمار پر تحقیق کرنے کے لیے بلاوجہ خطیر رقوم خرچ نہیں کرتے۔ 

ان اعدادو شمار اور تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھ کر وہ اپنے مستقبل کے لیے حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں، خطرات سے گھرے علاقوں کی نشان دہی کرتے ہیں، خطرات سے لوگوں کو بروقت آگاہ کرنے کا نظام مؤثر بناتے ہیں، خطرات سے گھرے علاقوں کے لوگوں کو طرزِ زندگی میں مناسب تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتے ہیں، خطرات کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرتے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کراتے ہیں اور متعلقہ سرکاری اداروں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنے پر زور دیتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں کیا کررہے ہیں؟ اس کا جواب 2005ء میں آنے والے زلزلے، 2010 میں آنے والے اور موجود سیلاب سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے اعدادوشمار پر نظر ڈالنے سے مل جاتا ہے۔ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے مطابق اگر ہم نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری کی ہوتی تو ان دونوں مواقع پر صورت حال خاصی مختلف ہوتی۔

چہار سُو بکھرے خطرات اور ہم

قدرتی آفت کسی بھی قدرتی خطرے جیسے سیلاب، ٹورنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا تودے وغیرہ سے منسلک اثرات کا نام ہے جو ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل کے اور جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والےنقصان کی شدت اس ماحول سے منسلک آبا د ی کے آفت آنے یا اس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ قدرتی آفت کے بارے میں یہ نظریہ دراصل اس بنیاد پر قائم کیا گیاہے کہ کسی بھی آفت کا اس علاقے میں زندہ اشیاء کی موجودگی اور آفت کے آنے کے نتیجے میں منسلک بے بسی کے ساتھ کس درجے کا تعلق ہو سکتا ہے۔

تیکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت کی تعریف دراصل آبادیوں کی موجودگی اور ان کی متوقع آفات سے خطرات کے دائرے ہی میں ممکن ہے۔ مثال کے طور پر غیر آبادعلاقے میں شدید ترین زلزلہ بھی تیکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اسی تیکنیکی تعریف کی بناء پر لفظ ’’قدرتی‘‘محققّین کے مابین اختلا ف کی وجہ ہے، کیوں کہ کسی بھی تیکنیکی آفت کا صرف ا نسان سے متعلق ہونا ہی کسی طور پر بھی قدرتی آفت نہیں کہلایا جانا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ کوئی بھی متوقع خطرہ جب حقیقت کا روپ دھارکر ہماری جائیداد یا ہمارے ماحول کو اتنا نقصان پہنچا دے کہ اس سے نمٹنے کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت پڑے تو اسے ڈیزاسٹر کہتے ہیں جو چار سطح کا ہو سکتا ہے، یعنی ،قومی، تنظیمی، ٹیم اور انفرادی سطح کا۔ مثلاً 2005 میں آنے والا زلزلہ بارہ برس قبل آنے والا اور موجودہ سیلاب قومی سطح کا ڈیزاسٹر ہے کیوں کہ اس سے نمٹنے کےلیے بیرونی دنیا کی امداد درکار تھی اور ہے۔

ماہرین کے مطابق کسی خطرے کے ڈیزاسٹر میں تبدیل ہونے کی 6 وجوہات ہوتی ہیں: معاشرتی، ماحولیاتی، نفسیاتی، اقتصادی، جسمانی اور تعلیمی۔ یہ تمام وجوہات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اوریک ساں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تمام وجوہات بہ درجہ اُتم مو جود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں درپیش خطرات ایک ایک کرکے ڈیزاسٹر میں تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ بس اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں۔ کاش ہم ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی سائنس کے ذریعے ان معاشرتی، ماحولیاتی، نفسیاتی،اقتصادی ، جسمانی اور تعلیمی کم زوریوں پر قابوپا سکیں جو ہمیں لاحق خطرات کو ڈیزاسٹر میں تبدیل کر سکتی ہیں۔بہ صورتِ دیگر ہم یوں ہی ہر تھوڑے عرصے بعد کسی سانحے کا شکار ہوتے رہیں گے۔

پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ افراد قدرتی آفات سے متاثر ہوتے ہیں

مئی 2015 میں عالمی ڈیزاسٹر رسک اسیسمنٹ رپورٹ جاری کرتے ہوئے عالمی بینک نےکہا تھا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 30 لاکھ افراد ، قدرتی آفات سے متاثر ہوتے ہیں جو کُل آبادی کے تقریباً 1.6فی صد کے برابر ہے۔ قدرتی آفات کے اعداد وشمارکے جائزےکے مطابق 1973ء سے 2015 تک قدرتی آفات سے ملک میں 77 فی صد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 

ان میں سے زیادہ ترسیلاب کےمتاثرین تھے۔ عالمی بینک کے عہدے داران کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ پاکستان کو قدرتی آفات سے پیدا ہونے والے بہت بڑے فنا نسنگ چیلنجنز کا سامنا ہے جن میں سے سیلاب سے وفاقی بجٹ پر سالانہ اقتصادی اثرات کا تخمینہ 3 سے 4 فی صد لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نتائج عالمی بینک کی جانب سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، وزارتِ خزانہ، SECP، پروانشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور صوبائی محکمہ خزانہ کے ساتھ قریبی شراکت داری سے تیار کردہ رپورٹ میں پیش کیے گئے تھے۔

کاغذی ہے پیرہن ۔۔۔

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی ذمےداری وفاقی سطح پر نیشنل ڈ یز ا سٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سپرد ہے جس کی سربراہی 22گریڈ کا ڈائریکٹر جنرل/سیکرٹری کرتا ہے ۔ کچھ فنڈ، کچھ عملہ نہ ہونے کے برابر مشینری اور دیگر وسائل اورکچھ ذاتی استعمال کی گاڑیوں کے علاوہ زلزلے اور سیلاب جیسی قیامت نازل ہونے پر بند سڑکوں کو کھولنے، ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے، متاثرہ لوگوں کو ریلیف مہیا کرنے اور مشینر ی کے ذریعے ملبہ ہٹانے کے کوئی خاص ذرایع نہیں ہیں۔ جہاں تک آبادکاری اور بحالی کا تعلق ہے تویہ بہت بعد کی بات ہے۔

صوبائی سطح پر بھی ایک محکمہ بہ نام صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی قائم کر کےصوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری سے خودکو فارغ سمجھتی ہیں اور اس صوبائی محکمے اور اس کے ا فسر ا ن کی کیفیت بھی وفاقی سطح کے محکمے سے مختلف نہیں ہے۔ اٹھارہویں ویں ترمیم کے تحت صوبوں میں ایسی آفات سے نمٹنے کے لیے جو محکمے بنائے گئے ہیں انہیں دیکھ کر غالب کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے:

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ِتصویر کا

یاد رہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کی کمی اس وقت شدت سے محسوس کی گئی تھی جب اکتوبر 2005 ء کے ہول ناک زلزلے میں 80 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے میں شمالی علاقہ جات اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں متعدد افراد کئی روز تک عمارتوں تلے دبے مدد کے انتظار میں دم توڑ گئے تھے۔

چنانچہ 2006ء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نامی ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد قدرتی آفات کے نتیجے میں فوری ریلیف مہیا کرنا تھا۔ تاہم 2010ء میں آنےوالے سیلاب اور بعد میں آنے والی آفات میں یہ ادارہ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکا۔ کچھ یہ ہی حال صوبوں میں قائم ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کا بھی ہے۔

پاکستان نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، جرمن ماہر 

عالمی سطح کے ماہرین کے بہ قول پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں سونامی اور گزشتہ برسوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں آنے والی ناگہانی آفات کی شدت سے کہیں زیادہ تھیں۔ پاکستان اس الم ناک صورتِ حال کے نتیجے میں سالوں نہیں بلکہ عشروں پیچھے چلا گیا۔ اس وقت سوال کیا گیا تھا کہ دوہزار کے قریب انسانی جانوں کا ضیاع،14 ملین متاثرین کی ناگفتہ بہ صورتِ حال اور لاکھو ں انسانوں کی بقاء کی جنگ۔ ان سب کا ذمے دار کون ہے؟

اس ضمن میں برلن،جرمنی، میں قائم ایک معروف جرمن تھنک ٹینک SWAP سے منسلک افغانستان اور پاکستان سے متعلق امورکےماہر کرسٹیان واگنر نے اگست 2010 میں کہا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں آنے والی ناگہانی آفات کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس کے علاوہ اس ملک میں توانائی کی فراہمی، صحت اور تعلیم کا نظام ہمیشہ سے ناقص رہا ہے اور وہاں کا بنیادی ڈھانچا ناقص ہے۔ یہ ہیں وہ اصل وجوہات جن کے سبب پاکستان بحران کا شکار ہے۔ کیا پاکستان میں بحرانی حا لا ت سے نمٹنے کا کوئی نظام پایا جاتا ہے؟ 

اس سوال کے جواب میں کرسٹیان واگنرکا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سالوں تک بدنام یا ناپسندیدہ سربراہانِ حکومت برسرِ اقتدار رہے۔ اس کا اند ا زہ ایسے ملکوں کے ناقص بنیادی ڈھانچوں سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ممالک میں تعلیم کی اوسط شرح سے متعلق بین الاقوامی اعداد و شمار بھی اس کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں جو مشکلات نظر آ رہی ہیں، اُن کی وجہ بھی ناقص حکومتی نظام ہی ہے۔