مولانا نعمان نعیم
اسلام دین کامل ،ابدی ضابطۂ حیات اور ایک عظیم الہامی مذہب ہے۔ یہ کوئی نیا دین نہیں ، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام ہی کے وقت سے یہ دین چلا آرہا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے اسی نظامِ حیات اور طریقۂ زندگی کو پسند فرمایا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ کے نزدیک جو دین معتبر و مقبول ہے ،وہ صرف اسلام ہے ۔ (سورۂ آل عمران) اس دین کو آخری اور مکمل صورت میں امام الانبیاء،خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺپر نازل فرمایا گیا ، اب جو لوگ اس سچے دین پر ایمان لے آئیں ،وہ سب گویا ایک خاندان کے افراد ہیں اور ایمان کے رشتے نے ان کو جوڑ رکھا ہے۔
یہ ایک آفاقی اور عالمگیر خاندان ہے ، جیسے پانی کے ایک قطرے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ، ہوا اُسے اُڑا لے جاتی ہے اور دُھوپ اُسے لمحوں میں جلا کر رکھ دیتی ہے ، لیکن یہی قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے تو وہ سمندر کی وسعت و طاقت کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور ایک ناقابل تسخیر طاقت قرار پاتا ہے، اسی طرح جب کوئی انسان ایمان لاتا ہے ، تو وہ سمندر سے بھی زیادہ وسیع اور طاقتور خاندان کا ایک حصہ بن جاتا ہے ، علاقے اور جغرافیائی سرحدیں، برادریاں اور زبانیں یہ سب انسانی تقسیم کا باعث ہیں ، اسلام کی نگاہ میں پوری انسانیت صرف دو گروہ میں بٹی ہوئی ہے : ایک وہ جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ابدی سچائی پر یقین رکھتا ہو ، یہ قرآن کی زبان میں مسلم ہے، دوسرے وہ جو اس سچائی کے منکر ہیں ، جنہیں قرآن کافر سے تعبیر کرتا ہے۔
افسوس کہ مغرب نے اُخوت ِایمانی پر تیشہ چلانے اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے قومیت کے جاہلی تصور کو جگایا اور انہیں علاقہ، زبان اور قبیلہ و خاندان کے نام پر تقسیم کرنے کی بے جا کوشش کی اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک کنبہ اور خاندان ہیں اور ہم سب اس خاندان کے افراد ہیں ، اُخوتِ اسلامی کا یہ رشتہ تمام رشتوں سے زیادہ عزیز اور یہ تعلق تمام تعلقات سے زیادہ محبوب ہے ، رسول اللہ ﷺنے اس آفاقی خاندان کے باہمی رشتۂ محبت کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان فرمایا ، آپ ﷺنے فرمایا :تم اہل ایمان کو باہم رحم دلی او رمحبت و مودت میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضو کو بھی تکلیف ہو تو اس کے لئے پورا جسم بےخوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔( صحیح بخاری )
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر اسے عملی مثال کے ذریعے سمجھایا : ’’المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً ‘‘ ۔ (صحیح بخاری)یہ درد و محبت کا رشتہ ہے ، دنیا میں کہیں کسی مسلمان پر کوئی آزمائش آئے ، ہرمسلمان کو اس پر تڑپ اُٹھنا چاہئے ، ایک مسلمان کو کوئی زخم لگے تو دوسرا اپنے سینے پر اس کی کسک محسوس کرے، ایک مسلمان پر کوئی پتھر پھینکا جائے ، تو دوسرے کو اپنے کلیجے پر اس کی چوٹ محسوس ہو ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا : جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دُور کیا تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں مصیبت کو دُور فرمائے گا ، جس نے کسی تنگ دست پر آسانی پیدا کی ، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ آسانی فرمائے گا ، جو کسی مسلمان کی غلطی کو چھپائے اللہ دنیا و آخرت میں اس کی ستاری فرمائےگا ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد کی طرف متوجہ رہتا ہے۔(سنن ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺنے حاجت مندوں کی اعانت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے ، جسے سن کر ہر شخص کا دل پسیج جائے ، آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائےگا ، اے ابن آدم ! میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہیں کی ، بندہ عرض کرے گا ، پرور دگار ! میں کیسے آپ کی عیادت کر سکتا تھا ، آپ تو خود سارے جہاں کے رب ہیں ، ارشاد ہوگا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا ، تونے اس کی عیادت نہیں کی ، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے، پھر ارشاد ہوگا : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تونے مجھے نہیں کھلا یا ، بندہ عرض کرےگا : میرے پرور دگار ! آپ تو تمام عالم کے رب ہیں ، آپ کو میں کیوں کر کھانا کھلاتا ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانے کا طلب گار ہوا تھا ،تو نے اسے نہیں کھلایا ، اگر تو اسے کھلاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا ، پھر اللہ فرمائے گا : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تونے مجھے نہیں دیا ، بندہ ملتجی ہوگا ! میرے پروردگار ! آپ تو کائنات کے رب ہیں ، میں آپ کو کس طرح پلاتا ، فرمانِ باری ہوگا ، تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا ، تونے اسے پانی نہیں دیا ، اگر تو اسے پلاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا۔(صحیح مسلم ) گویا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی مدد کرنا براہِ راست اُسے اللہ کے حضور پہنچانا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں مخلوق کی خدمت اور بندوں کی حاجت روائی کی کیا اہمیت ہے ؟
قرآن پاک اور احادیث سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک خدمتِ خلق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، لیکن دور حاضر میں خدمت خلق کا جذبہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کی دنیا میں ہر شخص اپنی ہی خواہشات کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے، دنیا میں ملنے والی نعمتوں پر کسی کا حق نہیں ہوتا ،یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے، اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلئے کچھ حصہ ضرور نکالیں، آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو ،اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں۔بالخصوص حالیہ دنوں ملک کے چاروں صوبوں میں بدترین سیلاب اور تباہ کاریوں کے باعث ہمارے ہم وطن جس آزمائش،مصیبت اور غربت و تنگ دستی کا شکار ہیں۔ان کی مدد،خدمت اور کفالت ریاست اور صاحب ثروت ہم وطنوں کا ایک دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان حالات میں بڑھ چڑھ کر اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے، تم میں کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری ) جب تک ہم اپنی پسندیدہ چیز خدمت خلق کے لئے خرچ نہیں کریں گے، تب تک ہم اس کا اصل مزا نہیں چکھ سکتے اور اللہ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے ،کم کبھی نہیں کرتا تو ہمیں اللہ پاک کی رضا کی خاطر مخلوق خدا کی مدد کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (سورۃ البقرہ)
قرآن کریم میںخدمت خلق،کفالت عامہ اورایثار و انفاق کے جذبے کے تحت اپنا مال راہ ِ خدا میں خرچ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا:ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ،اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا دے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۃالبقرہ )
یاد رکھیے، جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے:جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اورعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہےاور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔ (سورۃ البقرہ)ایک مقام پر فرمایا گیا:جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے ،اسے چھپ کر اورعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ (سورۃ الرعد)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم)کسی کی مدد کرنے سے بظاہر مال میں کمی تو واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال میں کمی نہیں ہوتی ،بلکہ آخرت میں بدلے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں، اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی رہے، سوائے اس کے کہ کوئی چیز قرض کی ادائیگی کے لئے رکھ لی جائے۔ (بخاری، مسلم)
اللہ تعالیٰ ہمیں مصیبت اور آزمائش کی اس گھڑی اور سیلاب سے متاثرہ موجودہ حالات میں حسب استطاعت اپنا حصہ ڈالنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)