جنگ زدہ خطوں میں معدنیات کی تلاش ہمیشہ ایک پُرخطر کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، آج 2022ء میں جنگ زدہ خطوں میں اناج (جیسے گندم) کی پیداوار اور حصول انتہائی مشکل بن چکا ہے۔ روس-یوکرین تنازعہ جیسے جیسے طوالت اختیار کرتا جارہا ہے، غذا کی عالمی ’سپلائی چین‘ اتنی ہی زیادہ نازک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔
دنیا کی کیلوریز کی نصف ضروریات مکئی، چاول اور گندم جیسے بنیادی اناج سے پوری کی جاتی ہیں اور عالمی بینک کے تجزیہ کے مطابق گندم کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرین کا حصہ 29فی صد اور مکئی کی عالمی تجارت میں ان دوملکوں کا حصہ 17.4فی صد ہے۔
متذکرہ بالا تنازعہ کے باعث، کھانا پکانے کے مختلف تیل اور کھاد کی رسد بھی متاثر ہوئی ہے۔ کئی کمپنیوں نے عالمی پابندیوں یا شراکت داروں کے دباؤ کے باعث روس میں کاروبار بند کردیا ہے۔ ہرچندکہ، یوکرین کی بندرگاہوں سے منسلک سمندری راستے کھولنے کا سفارتی معاہدہ حوصلہ افزاء ہے لیکن غیریقینی کیفیت اب بھی برقرار ہے۔
’غذا تک رسائی کا حق‘ زائل ہونا
جب کسی خطے میں زرعی علاقوں کو ویران اور پانی کی تنصیبات کو تباہ کردیا جائے تو مقامی آبادی کا غذاتک رسائی کا حق متاثر ہوتا ہے۔ البتہ، روس- یوکرین تنازعے کا اثر ان ممالک کی سرحدوں سے باہر دور تک محسوس کیا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہ بنیادی اناج کی رسد کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی لاکھوں لوگوں کو عالمی بھوک کے گمبھیر مسئلہ سے دوچار کردے گی۔ روس-یوکرین تنازع نے عالمی غذائی سپلائی چین کو ایک ایسے وقت میں متاثر کیا ہے، جب ڈھائی سال قبل شروع ہونے والے کووِڈ وبائی مرض کے باعث یہ پہلے ہی زیرِ دباؤ تھی۔
اس تنازعہ سے دنیا کا ہر خطہ یکساں متاثر نہیں ہوا۔ دنیا کے وہ خطے جہاں پہلے ہی غربت بہت زیادہ ہے، وہاں بھوک اور غذائیت کی کمی کے خطرات زیادہ ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ وہ ممالک جن کی غذا کا دارومدار روس اور یوکرین سے درآمدات پر ہے، وہ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ دریں اثناء، ہم دیکھ رہے ہیں کہ غذا کی مقامی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کئی ممالک غذائی برآمدات پر پابندی عائد کررہے ہیں، جس سے غذا کی عالمی سپلائی چین مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے غذاتک رسائی کا حق، غذا کی مناسب مقدار میں عدم دستیابی کے باعث متاثر نہیں ہورہا، بلکہ اس کی بڑی وجہ غذا تک عدم رسائی ہے، خاص طور پر خریدنے کی قوت نہ رکھنے کے باعث۔ تاہم، روس-یوکرین تنازع اس صورتِ حال کو بھی مزید گمبھیر بنا رہا ہے، کیوں کہ ایک طرف دنیا کی ایک بڑی آبادی خوراک خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تو دوسری جانب اب ان ممالک سے درآمدات متاثر ہونے سے اناج کی عدم دستیابی کے بھی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ مزید برآں، جنگ زدہ خطے میں اناج کی بوائی بھی متاثر ہوئی ہے، جس سے آنے والے مہینوں میں صورتِ حال اور بھی سنگین شکل اختیار کرسکتی ہے۔
خوراک کی تجارت میں شفافیت
زیادہ تر خوراک کی پیداوار، پراسیسنگ، تجارت اور ڈسٹری بیوشن نجی کاروباری اداروں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ تاہم، نجی کمپنی جب اپنے انفرادی کاروبار کے خوراک کی عالمی ترسیل پر اثر کو دیکھتی ہے تو اسے یہ معمولی بات محسوس ہوتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی توجہ بھی اکثر ترقی یافتہ منڈیوں پر مرکوز رہتی ہے، جہاں غذائی تحفظ کا مسئلہ اس قدر تشویش کا باعث نہیں ہوتا۔ خطرہ یہ ہے کہ نجی کاروباری ادارے غذائی تحفظ کو ’میکرو ڈیویلپمنٹ‘‘ کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کئی کمپنیوں کے لیے غذائی تحفظ کے مسئلے پر شفافیت کی توقع نسبتاً ایک نیا تصور ہے۔
اس سلسلے میں گلوبل سسٹینیبلٹی اسٹینڈرڈز بورڈ نے رواں سال مئی میں غذائی اور غیرغذائی مصنوعات کے لیے معیارات کی منظوری دی ہے۔ ان معیارات کی مدد سے کمپنیوں کو اپنی سسٹینیبلٹی اثرات کو مفصل اور تقابلی انداز میں بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ رپورٹنگ کے ان نئے معیارات میں غذائی تحفظ کو بھی ایک ایسے قابلِ ذکر مسئلے کے طور پر شامل کیا گیا ہے، جسے کمپنیوںکو زیرِ غور رکھنا ہوگا۔ اس طرح اس موضوع پر کمپنیوں کو شفافیت اختیار کرنے کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔ ہرچندکہ متذکرہ بالا معیارات غذائی تحفظ کے عالمی مسئلے کے لیے کوئی مخصوص حل پیش نہیں کرتے، تاہم متعدد لائحہ عمل اختیار کرکے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، جس میں درج ذیل شامل ہیں:
فصلوں کی پیداوار اور رسد بڑھانے کیلئے کسانوں کی استعداد بڑھانا: گلوبل سسٹینیبلٹی اسٹینڈرڈز بورڈنے 1.5 ارب ڈالر مالیت کا افریقن ایمرجنسی فوڈ پروڈکشن پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت خطے میں غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے کسانوں کو ضروری بیج اور کھاد فراہم کی جارہی ہے۔ ایندھن اور آمدورفت کی بڑھتی ہوئی لاگت کسانوں کی آمدنی پر دباؤ کی ایک اور وجہ ہے، جس کے باعث کسانوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ کسانوں کی معاشی شمولیت میں اپنے کردار کی رپورٹنگ کے ذریعے، یہ اندازہ لگایا جاسکے گا کہ وہ غذائی تحفظ کے حصول میں کیا کردار اداکررہے ہیں اور مزید کیا اقدامات درکار ہیں۔
شراکت داری اور اشتراک کے ذریعے عالمی غذائی تحفظ سے متعلق تشویش کو ختم کیا جاسکتا ہے: کئی کمپنیاں اس سلسلے میں مختلف حکومتوں اور بین الاقوامی ترقیاتی ادارں کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرنیشنل فائنانس کارپوریشن نے ایک نجی زرعی کمپنی کے ساتھ اشتراک کیا ہے جس کے تحت ترقی پذیر ممالک کو گندم، مکئی اور سویا کی برآمدات بڑھائی جائیں گی۔ معاہدہ کے تحت کسی بھی بحران کی صورت میں کمپنیوں کے موجودہ ڈسٹری بیوشن چینل سے استفادہ کیا جاسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ متذکرہ بالا معیارات عالمی غذائی تحفظ کے لیے شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور کمپنیوں کو اسی لیے ان معاملات پر رپورٹنگ کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔
خوراک کے ضیاع پر قابو پانا
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق، کھیت سے تھوک تک آتے آتے 13.8فی صد غذائی مصنوعات ضائع ہوجاتی ہیں۔ اور بلاشبہ، ضیاع کم کرکے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کمپنیاں رپورٹنگ کرنے لگیں تو مخصوص اقدامات کے ذریعے خوراک کے ضیاع کو کم کیا جاسکتا ہے۔
خوراک میں خود کفالت کا حصول
دنیا کے ہر ملک کے لیے غذائی شعبہ میں خود کفالت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ خوراک کی درآمدات کو کم کرکے بیرونی ذرائع پر انحصار کو کم یا ختم کیا جاسکے، اس طرح وہ دنیا کے کسی دیگر خطے میں کسی بھی بحران پیدا ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو کم کرسکیں گے۔ خوراک کی مقامی پیداوار سے پروڈیوسر اور صارف کے درمیان فاصلہ بھی گھٹ جاتا ہے۔ مقامی یا خطے کی سطح پر غذائی تحفظ کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی رپورٹنگ کے ذریعے کمپنیاں اپنی ان کوششوں پر روشنی ڈال سکتی ہیں جو وہ مقامی یا خطے کی سطح پر غذائی تحفظ کے لیے کررہی ہیں۔
انعامات اور سمجھوتے
کاشتکاروں کو اس بات پر قائل کرنے اور باخبر کرنے کی ضرورت ہے کہ پائیدار غذاؤں کی پیداوار کے ذریعے وہ اپنی زمینوں کے مؤثر استعمال کو یقینی بناسکتے ہیں۔ ایسی فصلیں کاشت کرنے کی ضرورت ہے جو انسانی صحت اور ماحولیات کیلئے فائدے مند ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کاروباری اداروں کو یہ فیصلہ اور ان کی رپورٹنگ کرنا ہوگی کہ وہ زمین اور قدرتی وسائل کو کس طرح استعمال میں لارہے ہیں۔
ایک مسلسل اور پریشان کن چیلنج
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی بات آتی ہے تو ضروری خوراک اور مواد تیار کرنے والی کمپنیوں کے اقدامات کئی گنا زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔یہ بات یقینی ہوتی جارہی ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں سے کئی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے اور ممکنہ طور پر حاصل نہ ہونے والے اہداف میں ایس ڈی جی 2(بھوک کا خاتمہ) بھی شامل ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے کے مطابق روزانہ 80کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہے کہ نجی کمپنیوں کو اپنے غذائی تحفظ سے متعلق اقدامات کے سلسلے میں زیادہ ذمہ داری دکھانے کی ضرورت ہے۔