ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
آخری شب معالجین جاوید منزل میں جمع ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ کل شام سے علامہ ؒ کو بلغم میں خون آرہا ہے۔ معالجین کے نزدیک یہ علامت یاس انگیز تھی۔ اس کی بھنک اقبالؒ کے کان میں بھی پڑ گئی تھی۔ احباب کی سرگوشیاں بھی معنی خیز تھیں۔ جاوید اقبال کہتے ہیں:
”انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی موت کا وقت قریب آن پہنچا ہے، تاہم وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔“
(زندہ رود:719)
نذیر نیازی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقیوم کے مطابق فیملی ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے ایک ٹیکہ تجویز کیا، مگر اس سے پہلے المونیم کلورائیڈ پلانا ضروری تھا جب پلایا گیا تو علامہ بہت بدمزہ ہوئے اور فرمایا:
”تم ڈاکٹروں کی دوائیں بد مزہ ہوتی ہیں۔یہ دوائیں غیر انسانی ہیں۔“
حکیم قرشی نے خمیرہ گاؤ زباں عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے سکون ہو گیا طے ہوا کہ ٹیکہ اگلی صبح لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالقیوم رات وہیں ٹھہر گئے۔
(اقبال درون خانہ :خالد نظیر صوفی،ص170)
رخصت ہوتی بہار کے یہ آخری دن تھے،ابھی جاوید منزل کے چمن میں پھول کھلنا بند نہیں ہوئے تھے۔اس شام جاوید منزل کا لان پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ علامہ اقبال باہر لان میں بچھی ہوئی چارپائی پر لیٹے ہوئےتھے۔رات اترنے پر خنکی بڑھی تو چارپائی اندر گول کمرے میں لائی گئی۔ اتنے میں منیرہ آ کر ان سے لپٹ گئی۔ ڈورس احمد بھی قریب بیٹھ کر مزاج پرسی کرنے لگی۔کچھ دیر بعد جب اس نے منیرہ کو اندر لے جانا چاہا تو اس نے ”کچھ دیر اور“ بابا کے پاس بیٹھے رہنے پر اصرار کیا۔ علامہ نے مسکرا کر ڈورس احمد سے کہا:”اس کی حس بتا رہی ہے کہ بابا کے ساتھ اس کی آخری ملاقات ہے۔“
(زندہ رود:جاوید اقبال ص 718)
شب کے بارہ بجے تک بہت سے لوگ وہاں موجود رہے،پھر ایک ایک کرکے چلے گئے۔ شروع میں تو علامہ پر سکون رہے ،پھر بےچینی ہونے لگی،نیند بھی نہ آئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب زیادہ بے چین ہوئے تو حکیم محمد حسن قرشی کو بلا بھیجا ،مگر وہ نہ ملے۔ڈاکٹر عبدالقیوم سستانے کے لیے باہر لان میں آ کر لیٹ گئے تھے رات ڈھل چکی تھی ،ستارے ماند پڑتے جا رہے تھے۔
دفعتاً علی بخش نے چلا کر ڈاکٹر عبدالقیوم کو بلایا۔وہ اٹھے اور لپک
کر اندر پہنچے اور علامہ کی نبض ٹٹولی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
لاہور کی فضا اذانوں سے گونج رہی تھی اور علامہ اقبال کی روح اللہ اکبر کی انھی صداؤں میں ملاء اعلیٰ کی جانب محو پرواز تھی۔علی بخش ان کے قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر سسکیاں لے رہا تھا اور علامہ اقبال کے لبوں پر ہلکا ہلکا تبسم رقصاں تھا۔
(اقبال درون خانہ۔ص 173)
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرد آید تبسم بر لب اوست
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی