• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ضلع بدین‘ ، اگرچہ یہ پسماندہ ہے مگر پھر بھی ترقی کی روشنی نظر آرہی ہے

انتظامی لحاظ سے پاکستان صوبوں، ڈویژنوں، اضلاع اور تحصیلوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ انگریزوں نے ملکی نظم و نسق کو چلانے کیلئے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع کے نظام کو تشکیل دیا تھا۔ سب سے پہلے چارلس نیپیئر نے صوبہ سندھ کو تین اضلاع میں تقسیم کیا، اس زمانے میں جو اضلاع بنائے وہ (1)۔ کراچی(2)۔حیدر آباد(3)۔شکار پور تھے۔ ان کا قائم کیا ہوا اضلاع کا انتظام ہم نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد اضلاع میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج پاکستان میں )6؍ ستمبر2022ء) تک پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 135ہو چکی ہے۔

ضلع کہانی میں، ضلع کی وجہ تسمیہ، حدود اربعہ آبادی، طبعی خدوخال، اقوام، پیشہ، زراعت، شخصیات، سیاست، صنعت و حرفت، تعلیم، آثار قدیمہ وغیرہ کے بارے میں بتائیں گے۔ دیکھا جائے تو ضلع کہانی دراصل ’’سفرنامہ‘‘ ہے جو قارئین کو گھر بیٹھے ضلع کی سیر کرائے گا۔ ہم نے ایک کوشش ہے ایک ضلع کے لوگوں کو دوسرے ضلع کے لوگوں کو سمجھنے کی اس طرح ہم اپنے ملک میں موجود علاقوں (اضلاع) کے بارے میں واقف ہو جائیں گے۔

ضلع کہانی میں ہم صوبہ سندھ کے اضلاع کا احاطہ کریں گے، وہ بھی حروف تہجی کے لحاظ سے مثلاً حروف تہجی کے مطابق سندھ کا پہلاضلع’’بدین‘‘ ہے۔ ملاحظہ کریں اس کے بارے میں۔ 

مقبرہ، سومن سرکار
مقبرہ، سومن سرکار 

 بدین سندھ کے بھبھورڈ ڈویژن کا ضلع ہے۔ اس کو1975میں ضلعی حیثیت ملی۔ رقبہ6726مربع کلو میٹر اور آبادی 2017کی مردم شماری کے مطابق 1804516 نفوس پر مشتمل ہے۔ ضلع کے شمال میں ضلع ٹنڈوالہ یار اور ضلع حیدرآباد اور مشرق میں میر پوخاص اور تھرپاکر کے اضلاع ہیں۔ ضلعی صدر مقام بدین شہر ہے۔ انتظامی طور پر یہ پانچ تحصیلوں یعنی تحیصل بدین۔تحصیل ماتلی۔ تحصیل شہید فاضل راھو(گولاچی) تحصیل تلہار اور تحصیل ٹنڈو باگو پر مشتمل ہے۔ 

بدین کا پوسٹل کوڈ72220ہے۔ اور ٹیلی فونک رابطہ297 نمبر سے ملتا ہے، چونکہ یہ ضلع ساحل سمندر پرتھا اور وہاں کے بادباں بہت مشہور تھے اسی نسبت سے بابان اور پھر بدین بنا ایک اور روایت ہے کہ یہاں شروع میں بدوین لوگ رہتے تھے اس لحاظ سے یہ علاقہ بدین کہلایا ،زرعی اعتبار سے یہ ضلع خاصا زرخیز ہے ، چاول اس کی اہم فصل ہے، اس کے علاوہ کپاس، جوار، گندم بھی ہوتی ہے۔ گنے اور دھان کی فصلیں بھی کاشت ہوتی ہیں۔ ضلع بھر کی زراعت کا دارومدار سکھر اور کوٹری بیراج پر ہے۔ 

مزار، پیر تاج الدین
مزار، پیر تاج الدین 

بدین میں تیل اور گیس کے ذخائر بھی دریافت ہوچکے ہیں۔ ضلع میں گنے کی وافر مقدار کی پیداوار کی وجہ سے اس کو ’’ شوگر اسٹیٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے بدین کو اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہاں سے سکندر اعظم کا گزر بھی ہوا تھا۔ ماضی میں اسے سانول پور‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1750 میں بدین نام کے ایک ملاح نے اسے آباد کیا تھا۔ صنعت وحرفت نے بھی خاص ترقی کی ہے۔ یہاں چینی کے کارخانے اور متعدد رائس ملز ہیں۔

ضلع میں80%مسلمان اور20%ہندو رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ سندھی زبان بولی جاتی ہے جسکی شرح92% ہے۔ دوسری اہم زبان پنجابی ہے جسکو ضلع کے ساڑھے پانچ فیصد لوگ بولتے ہیں۔ بدین میں سب سے بڑا نمک کا صحرا ہے جو رن آف کچھ سے لیکر یہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ موسم معتدل ہے۔ مارچ سے اکتوبر تک سمندری ہواوں میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔ ضلع میں سڑک اور ریل کا بہترین انتظام ہے۔ گولارچی میں ایک گیس فیلڈ بھی ہے۔ زمزمہ گیس فیلڈ بھی اسی ضلع میں ہے۔ کھیل کے میدان بھی ہیں۔ 1981میں کراٹے کلب اور1976میں ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ ایک ڈسٹرکٹ اسپورٹس کمیٹی ہے۔ ضلع بھر میں ملاکڑہ۔کبڈی۔ اونٹ موڑ۔ گھوڑدوڑ اور والی بال بھی کھیلے جاتے ہیں۔

ضلع بدین میں کئی اقوام آباد ہیں، جس میں مشہور لاشاری، جو نیجو، تالپور، سومرو، شیدی،لغاری اورمیمن کثرت سے آباد ہیں۔ بدین ضلع کا موسم ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت خوشگواررہتا ہے سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جو گرم موسم کو سرد بنادیتی ہیں۔ مون سون کے دنوں میں بادل چھائے رہتے ہیں گرمیوں میں فضا میں نمی رہتی ہے۔سردیاں نومبر کے شروع میں آتی ہیں ،گرمیوں میں درجہ حرارت 46سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ فضائی نمی کا تناسب50فیصد کے لگ بھگ ہے۔ سالانہ بارش کا وسط221.64میٹر ریکارڈ ہے۔

بدین کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ علاقہ حکومت چندرا گپتا موریہ کے ماتحت رہا۔ تین تا ساتویں صدی تک ،پھر ایران کے قبضہ میں چلا گیا۔ برہمنوں نے بھی یہاں حکومت کی،712میں عرب یہاں پر وارد ہوئے۔ مغل بادشاہ ہمایوں بھی 1542میں تعلقہ بدین پہنچا یعنی عمر کوٹ اور یہیں مغل بادشاہ اکبر کی پیدائش ہوئی۔ میرزا محمد باقی ثرخان نے اپنی آخری زندگی میں سندھ کو تین صوبوں میں تقسیم کردیا۔

اس دوران حاکم بدین میرزا مظفر اور جانی بیگ میں جنگ ہوئی۔ اس میں مرزا مظفر شریک نہ ہوئے لیکن شکست ہوئی۔1601میں بدین کا صوبیدار محمد علی سلطان مقرر ہوا۔ 1015میں فتح اللہ و حاکم بدین مقرر کیا گیا۔1658میں داراشکوہ بھی بدین آیا مگرچند ماہ ٹھہر کر گجرات چلا گیا۔ 1745میں نور محمد خاں نے خود قلعہ کا نجی پر حملہ کرکے اسکو فتح کرلیا۔ بدین میں متفرق دڑلے(آثار قدیمہ) جو ماقبل تاریخ سے متعلق ہیں، یہ دڑلے تعلقہ ٹنڈ باگو تعلقہ گولارچی تعلقہ ماتلی میں پائے گئے۔ ضلع میں ایک میوزیم، لاڑمیوزیم کے نام سے قدیم تاریخ کا محافظ ہے۔ 

قلعہ کا پہلے نام ٹھاکر آباد تھا کبھی قلع کی دیوار سے دریا کی لہریں ٹکرایا کرتی تھیں۔ سندھ کے کئی بہادر حکمرانوں کا تعلق بدین سے تھا۔ ضلع بدین علم ادب کا بھی گہوارہ رہا ہے یہاں کے ادبا میں مشہور میر بخش کلوٹی،مولانا محمد عثمان،خواجہ احمد علی،مولوی تاج محمد،حاجی احمد صلاح ۔شیخ محمد سومار۔الہ بچایو، مہرو فقیر جمالی۔

بچل ابڑو ، نے بدین کے علم وادب میں اضافہ کیا ۔بدین کی صحافت بھی اپنا الگ مزاج الگ رکھتی ہے۔ ضلع کے مشہور صحافی شمیشر الحیدری،الہ بخش اعوان،یاسین آرائیں، عبدالجبار عارفانی، در محمد کمال ،عبدالطیف زرگر، رمضان خاص خیلی، شریف کھوسو، صدیق بارن،محمد ہمدم، احمد کپڑ، کلیم چند شرما،کنول لوہاتو اور خان محمد مہیری نمایاں ہیںں نے ٖضلع کی صحافت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

صاحب محل
صاحب محل 

ضلع میں تعلیم وتربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے شہر میں گورنمنٹ ڈگری کالج اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کا کیمپس ہے۔ بدین سیاسی لحاظ سے سندھ کا مضبوط ضلع ہے یہاں سے قومی اسمبلی کی دونشستیں NA.229، NA230 ہیں۔ پاکستان کی پہلی خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعلق بھی اسئ ضلع سے ہے۔ ضلع میں کل ووٹرز کی تعداد7,56,029ہے جس میں مرد ووٹرز411903اور خواتین ووٹرز کی تعداد344126 ہے۔ 

اس طرح 54.48 فیصد تناسب مردوں کا اور45.52فیصد تناسب عورتوں کا ہے۔ 2018کے الیکشن میںNA-229سے غلام علی تالپور اورNA-230سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا منتخب ہوئیں تھیں ضلع میں صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں ہیں۔ یہps-70سے لیکرps-71تک ہیں۔ سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا تعلق بھی اس ضلع سے ہے۔

ضلع بدین میں بے شمار اولیا اللہ کے مزارات ہیں جن میں مشہور اولیا سید سمن شاہ۔پیر تاج الدین۔ جرکس کی درگاہ ، ہیبت فقیر، غلام محمد اسماعیل سومرو۔ ؟؟؟ سید حسن علی شاہ ۔ مہاولی۔ باجھی فقیر ۔ سرور ہیر۔خلیفہ محمود نظامی ۔ سنگرول۔ فقیر میاں ہوت عمرانی۔ بدین کے اہم علما کرام میں شیخ الحدیث مولانا الحاج جاوید اللہ میمن۔ محمد اسماعیل ۔محمد عبداللہ جونیجو۔مولوی محمد ہارون چنو۔ مولوی علی محمد بھاگلائی۔ بشیر احمد عسکری۔ مولانا عبدالرزاق صاحب۔ مولانا خان محمدی اور بے شمار علما اکرام دینی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ضلع بدین کی اہم جگہوں میں روحانی پیشوا ہیر تاج الدین کا مزار گورنمنٹ پاکستان کالج سعید پور تعمیر 1971، صاحب محل1940میں میر خدا بخش تالپور نے بنوایا۔درگاہ جرکس دینانی کیٹون جو لوت کے دو مقبرے ۔ٹنڈو باگو میں ٹاون پبلک لائبیریری ۔پنگریوٹاون میں حضر ت سمن سرکار کا مقبرہ ۔حاجی علی بخش شاہ میں تاریخی مسجد، مرخیان جو ڈارو(شاہ نورل ڈارو) سید شاہ دیوانو کا مقبرہ۔

شہید رانی کی قبر کلہوڑہ دور کی گولارچی ٹاون میں درگاہ احمد راجو،درگاہ گولارچی ٹاون ،حضرت مخدوم عبدالملک سروری کا مزار،تاریخی مسجد مخدوم نوح جی کونی، میاں موسیٰ کا مزار (ٹنڈو باگو)ضلع بدین میں صحت اور علاج ومعالجہ کے لیے کئی نئے اسپتال قائم ہوئے ، جس میں مشہور سول اسپتال بدین ڈسٹرکٹ ۔ڈی۔ ایچ ۔کیو اسپتال بدین( ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بدین) انڈس اسپتال بدین۔ سی ایم ایچ اسپتال بدین اور دیگر پرائیوٹ اسپتال ، لیبارٹریز ، صحت عامہ کے کام میں دن رات مشغول ہیں اور ضلع کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔

بدین ضلع روز بروز ہر شعبہ زندگی میں ترقی کررہا ہے چاہے وہ تعلیم کا میدان ہو، معاشی وزرعی ترقی ہو۔ سیاسی میدان ہو، صحافت اور ادب ہو ،یہ ضلع سندھ کے بقیہ اضلاع سے اگر چہ پسماندہ ہے مگر پھر بھی اس میں ترقی کی روشنی نظر آرہی ہے آئندہ سالوں میں یہ سندھ کا ترقی یافتہ ضلع ہوسکتا ہے۔