پاکستان میں اُردو ناول نگاری کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، جو دو ادوار کہلائے جا سکتے ہیں۔ پہلا دور پاکستان کے فروغ میں حصہ لینے کا جبکہ دوسرا دور سانحہ مشرقی پاکستان (سقوط ِ ڈھاکہ) کے بعد کا دور 1971ء کے بعد مختلف ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے ادب پروان چڑھتا گیا۔ 1978ء کے بعد کا دور جدید اُردو ناول نگاری کا کہلاتا ہے، کیونکہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں خصوصاً پاکستان کے حوالے سے جہاں شہروں اور دیہی زندگی میں نئے نئے اسالیب اور تکنیک میں اضافہ ہوا وہیں دنیا عالمی گائوں میں بدل چکی ہے۔
انسان خوف کی گرفت میں لپٹا ہوا ہے جنون اور پاگل پن کے ایسے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ زندگی لامعنی ٰ ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری تاریخ و تہذیب کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہیں، سیاسی معاشرتی، معاشی مسائل کو ایک نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ حالات کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں جو مسائل جنم لے رہے ہیں ان ہی کو جدت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ادیب و شاعر بھی اس جدت کے ساتھ اپنے قلم کی زور آزمائی کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو جدید ناول نگاری کا آغاز 1979ء سے شروع ہوا، جب انتظار حسین کا ناول’’بستی‘‘ منظرعام پر آیا۔ اس ناول کا اہم موضوع تقسیم ہند اور غریب الوطنی ہے۔ اس میں انتظار حسین نے اپنے اوپر ہونے والی داخلی اور خارجی وارداتوں کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی جنگی تباہیاں اور سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ ان کی ذہنی پریشانیوں کو اجاگر کرتا ہے، انسانی مسائل اور دکھوں نے احساسات کو بیان کیا گیا ہے۔
انتظار حسین کا ایک اور ناول ’’تذکرہ‘‘ جو 1979ء ہی میں منظر عام پر آیا ایک اہم قدم تھا۔ اس ناول میں انتظار حسین نے ماضی اور حال کو نسبتاً کشادہ کینوس پر ایک دوسرے کے روبرو لاکھڑا کیا ہے۔ یہ الفاظ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے انتظار حسین کے ناول تذکرہ پر کئے ہیں۔ اصل میں انتظار حسین کا یہ ناول ایک ’’فقہ‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے جدت کو تکنیک کو فنی و کلاسیکی انداز میں بیان کیا ہے۔ ’’تذکرہ‘‘ یقینا بستی سے ایک قدم آگے ہے۔
ناول نگاری میں جدت کا باقاعدہ آغاز 1980ء کی دہائی سے ہوتا ہے،جب نئے ناولوں کے نئے نئے ذائقے ناولوں کی جدت کا سبب بنے۔ 1980ء کے بعد قابلِ ذکر ناول آئے تو پتہ چلا کہ ناول نے اپنا صنفی اسلوب بدل دیا ہے۔ اب ناول میںجو موضوعاتی، تکنیکی، اسلوبیاتی، تبدیلیاں آتی ہیں اور جو تجربے کئے جا رہے ہیں وہ خوش آئند بات ہے۔
بیسویں صدی کی نویں دہائی کے آغاز یعنی 1980ء سے 1990ء کے درمیان اُردو ناولوں کی ایک بڑی کھیپ سامنے آئی، اس عرصے میں اُردو ناولوں میں ہیئت، تکنیک، اسلوب اور نئے نئے سماجی و معاشی مسائل ابھر کر ناول کی زینت بنے اور نئی جدت کا آغاز کر گئے۔
پاکستان میں جدید اُردو ناول نگاری میں ایک نام انیس ناگی کا بھی ہے ،ویسے تو ان کی شہرت بحیثیت شاعر و نقاد کی ہے، مگر جب انہوں نے اپنا پہلا ناول 1980ء میں ’’دیوار کے پیچھے‘‘ لکھا تو وہ بھی ناول نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔ یہ ناول اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے، اس میں انہوں نے سماجی رویوں سے پردہ ہٹایا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جن خاتون ناول نگاروں نے جدید ناول پر قلم اٹھایا ان میں ایک نام حجاب امتیاز علی کا بھی آتا ہے،جب انہوں نے ناول 1980ء میں ’’پاگل خانہ‘‘ لکھا۔
اس ناول میں دیکھا جائے تو حیرت انگیز فنتاسی(Fantas) دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ سائنسی فنتاسی کہلاتی ہے۔ اس میں حجاب امتیاز علی نے ایٹمی جنگوں پر مشتمل انسانوں پر ہونے والی آفات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بربریت کی گئی تھی اور لاکھوں بے گناہ انسان موت کے گھاٹ چڑھ گئے تھے۔ خاتون ناول نگاروں میں ایک نام نثار عزیز بٹ کا بھی ہے۔ انہوںنے دو ناول’’کاروانِ وجود‘‘ اور ’’دریائے سنگ‘‘ 1980ء میں لکھے۔ ان ناولوں میں جدت اورتکنیک نمایاں نظر آتی ہے ۔ اُن میں زیادہ تر عورتوں کی نفسیات مقابلہ مرد سے ہے۔
جدید اُردو ناول نگاری میں ایک نام انور سجاد کا بھی ہے ،ویسے تو وہ بحیثیت نقاد کے شہرت رکھتے ہیں لیکن 1981ء میں انہوں نے ایک خوبصورت ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ لکھ کر اپنے آپ کو جدید ناول نگاروں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ یہ ناول شہری زندگی کے مسائل کا احاطہ کرتا ہے خصوصاً پاکستان کے حوالے سے خاتون ناول نگاروں میں ایک نام جنہوں نے جدید ناول نگاری کو آگے بڑھایا الطاف فاطمہ ہیں۔
انہوں نے 1981ء میں ناول’’چلتا مسافر‘‘ لکھا ،جو ناول سابقہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی ایک ایسی فیملی کے گرد گھومتا ہے جس نے ہندوستان سے ہجرت کرکے سابقہ مشرقی پاکستان میں قیام کیا اور پھر سقوطِ ڈھاکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اس ناول میں کرب کا احساس اور جدائی کا غم جھلکتا ہے۔
بانو قدسیہ نے 1981ء میں’’راجہ گدھ‘‘ لکھ کرناول نگاری میں ایک نئی جدت کا اضافہ کیا۔ اس ناول میں انہوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا یعنی حلال و حرام کے انسانی زندگی پراثرات کاکہ ،کس طرح حرام انسان کے خون میں پیوست ہو کر اس کو خراب کرتا ہے اور کس طرح حلال کما کر زندگی کو پُر آسائش بنایا جا سکتا ہے۔ ناول نگار، رحیم گل نے ناول 1981ء میں ’’جنت کی تلاش‘‘ لکھا۔ یہ ناول ایک فلسفیانہ خیالات کی عورت کے گرد گھومتا ہے۔
غلام الثقلین نقوی نے 1981ء میں ناول ’’میرا گائوں‘‘ تحریر کیا، یہ ناول دیہی علاقے کی معاشرت اور حقیقت پسندانہ رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔
اُردو ناول کی جدید تاریخ میں ایک بڑا نام عبداللہ حسین کا ہے اُن کا مشہور ناول ’’اُداس نسلیں‘‘ تھا۔ عبداللہ حسین نے 1982ء میں ایکاور ناول ’’باگھ‘‘ لکھ کر مزید شہرت حاصل کی۔ اگرچہ اس ناول میں ’’اُداس نسلیں‘‘ والی بات تو نہ تھی ، اس میں انہوں نے کشمیر کا پس منظر بھی بیان کیا ہے جوکئی رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔
غلام عباس کا نام افسانے کی دنیا میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن انہوں نے ایک مختصر ناول ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ 1983ء میں لکھا۔ جس میں انہوں نے گائوں کی زندگی کی عکاسی اور پنجاب کے قصباتی تمدن و طرز معاشرت کی جھلک پیش کی ہے۔
خاتون ناول نگاروں میں ایک بڑا نام جمیلہ ہاشمی کا بھی ہے۔ انہوں نے 1983ء میں ناول’’دشت ِ سوس‘‘ لکھا۔ جمیلہ ہاشمی دراصل عورتوں کی آزادی کی علمبردار تھیں۔ انہوں نے اپنے ناول میں سیاست میں منافقت، سیاست کی خرابی ، اچھائی اور سیاسی رجحانات پر بحث کی ہے۔ دوسرا ناول ’’خواب رو‘‘ 1991ء میں لکھا جس میں ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کے مسائل اور مشکلات کو موضوع بنایا۔
ناول نگاری میں ایک بڑا نام شوکت صدیقی کا بھی ہے، جنہوں نے ’’خدا کی بستی‘‘ سے شہرت پائی۔ 1987ء میں انہوں نے ’’جانگلوس‘‘ لکھا جس میں جاگیردارانہ سسٹم، وڈیرہ شاہی کے مظالم کو بیان کیا ، دیکھا جائے تو اسی کو دیہی انڈر ورلڈ کی داستان کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں جن خاتون ناول نگاروں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ان میں خدیجہ مستور بھی ہیں۔ انہوں نے 1983ء میں اپنا مشہور ناول ’’زمین‘‘ لکھا زمین کا پلاٹ بھی ان کے مشہور ناول ’’آنگن‘‘ سے ملتا جلتا ہے۔ خدیجہ مستور کو ہم ترقی پسند ناول نگاروں کی فہرست میں شمار کرتے ہیں۔ ’’زمین‘‘ ان کا آخری ناول تھا، جس میں انہوں نے ہجرت کے مسائل دکھ اور پریشانیوں کی منظر کشی کی ہے۔ اگرچہ زمین کو وہ شہرت نہ حاصل ہو سکی جو آنگن کو ہوئی تھی۔ پھر بھی ’’زمین‘‘ اپنی طرز کا بہترین ناول کہلایا جا سکتا ہے۔
رضیہ فصیح احمد نے 1988ء میں’’صدیوں کی زنجیر‘‘ لکھا، جس میں انہوںنے سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی خانگی زندگی ، وہاں کے رسوم و رواج کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔
1989ء میں سلمیٰ اعوان نے ناول’’تمنا‘‘ لکھا، جس میں انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کا المیہ بیان کیا ہے۔ جب ایک لڑکی جو سابقہ مشرقی پاکستان میں پھنس جاتی ہے اور وہیں کے ماحول میں تعلیم حاصل کرتی ہے مگر اس سے برا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ناولوں کی رفتار خاصی سست رہی اس دہائی میں کل گیارہ ناول منظر عام پر آئے جن میں شوکت صدیقی کا ’’چہاردیواری‘‘ انتظار حسین کا ’’آگے سمندر ہے‘‘مستنصر حسین تارڑ کا ’’بہائو‘‘ عبداللہ حسین کا ’’قید‘‘ امرائو طارق کا ’’معتوب‘‘ فہمیدہ ریاض کا ’’گود اور میں‘‘ شائع ہوئے۔ یہ ناول اپنی جدت، موضوع اور تکنیک کے لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ اس دہائی میں اُردو ناول میں نئی نئی اختراع و جدت ،نئے نئے خیالات اور تکنیک میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جو پہلا ناول آیا وہ مستنصر حسین تارڑ کا ’’قربِ مرگ میں محبت‘‘ ہے، جو ایک بوڑھے امیر شخص کے گرد گھومتا ہے وہ تین عورتوں سے شادی کرتا ہے یہ عجیب طرح کا ناول ہے یہ تینوں عورتیں اس ادھیڑ شخص سے پیار بھی کرتی ہیں۔ آخر کار ایک بیوی کے ساتھ کشتی میں ہی انتقال کر جاتا ہے یہ ناول اپنی کہانی کے اعتبار سے بہت مختلف ہے۔
مستنصر حسین کا دوسرا ناول 2002ء میں’’قلعہ جنگی‘‘ شائع ہوا ، یہ افغان جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ، اس میں انہوں نے چند مجاہدین کا ذکرکیا ہے جنہیں ایک قلعہ میں محصور کر دیاگیا تھا۔ غرض یہ مجاہدین سخت مشکل بھوک پیاس میں قلعہ میں رہے اورکھانے کیلئے سوائے ایک گھوڑے کے کچھ نہ تھا۔ تارڑ کی اس منظرکشی کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے ،انہوں نے کس طرح افغان جنگ میں مجاہدین کی قربانیوں کی تصویر کشی کی ہے۔
2005ء میں مستنصر حسین تارڑ کا ایک اور ناول منظرعام پر آیا جس کا نام ’’ڈاکیا اور جوپالہ‘‘ تھا۔ یہ ناول ایک ایسے کردار یعنی ڈاکیا پر مبنی ہے جو ہمارے معاشرے میں کم ترین تنخواہ پاتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکیے کی نجی زندگی کو بہت قریب سے دکھایا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو پالتا اور بیماریوں سے اس قلیل تنخواہ میں لڑتا ہے، یقینا یہ ناول ہمارے معاشرے میں کم تنخواہ پانے والوں کی عکاسی کرتا ہے۔ 2001ء میں محمد عالم بٹ کا ناول ’’دائرہ‘‘ شائع ہوا ،جو ایک اداکار کے گرد گھومتا ہے کہ وہ کس طرح محسوس کرتا ہے کہ اس کی حقیقی شناخت غائب ہے اور یہ زندگی ایسی کٹھ پتلی کی طرح ہے جس کی ڈور دُور دُور سےہلائی جا رہی ہے، یہ کردار اپنے دائرے کو توڑ کر دوسرے دائرے میں جانا چاہتا ہے۔ ناول احساس زندگی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔
اکیسویں صدی میں خاتون ناول نگار خالدہ حسین کا نام بھی آتا ہے۔ جب وہ اپنا ناول ’’کاغذی گھاٹ‘‘ 2002ء میں لکھتی ہیں۔ یہ ناول معاشرے میں پائی جانے والی منافقت، خود غرضی، مادیت پرستی کی جانب منظر کشی کرتا ہے۔ ڈاکٹر منظرحسن جو ایک افسانہ نگار ہیں، انہوں نے ناول ’’العاصنعہ‘‘ ایک عرب ملک کے بارے میں لکھا ، جہاں بادشاہت ہے، جمہوریت ناپید ہے۔ ناول گھریلو زندگی اور ارد گرد کے ماحولاور عرب کی ثقافتی، سماجی، سیاسی زندگی کا مقابلہ پاکستان کے حوالے سے کرتا ہے۔
پاکستان میں نوجوان جدید ناول نگاروں میں نیا نام شیراز زیدی کا ہے۔ انہوں نے 2002ء میں ناول ’’جہنمی لوگ‘‘ لکھا۔ یہ ناول معاشرے میں غریب لوگوں کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح غریب اپنے آپ کو اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے کرتے ہیں اور کیسےاخلاقی و غیر اخلاقی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے ناول میں ریاست سے لیکر استحصال کرنے والوں کا مکروہ چہرہ نمایاں کیا ہے۔
پروفیسر مرزا اطہر بیگ جدید اُردو ناول نگاروں میں ایک اہم اضافہ ہے ، انہوں نے 2006ء میں ’’غلام باغ‘‘ لکھا ،اس ناول میں انہوں نے معاشرے میں پھیلے ہوئے مختلف قسم کے جنون مضحکہ خیزی اور لایعنت کا تاثر دینے والے اقدامات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ’’غلام باغ‘‘ میں کئی باتیں ایسی ہیں، جو آنے والے وقت میں صحیح ثابت ہو سکتی ہیں۔
افسانہ نگار محمد حمید شاہد نے ناول نگار ی کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کی۔ 2007ء میں ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ لکھا۔ اس ناول میں انہوں نے مٹی سے محبت کرنے والوں اور المیوں کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ، ظالمانہ و مکروہ جاگیردارانہ روایات کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز پاکستان میں جدید اُردو ناول نگاری کا دورِ زرین کہلایا جا سکتا ہے۔ جب پڑھنے والے مختلف موضوعات پر مختلف ناول نگاروں کے ناول پڑھیں گے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی