چار عشروں پر مشتمل جنگ اخبار سے جڑا پہلا ادبی نام رئیس امروہوی کا ہے۔ سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی برصغیر کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہرمرموز علوم تھے۔ 12 ستمبر 1914ء کو یوپی کے شہر امروہہ کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔1936 میں صحافت سے وابستہ ہوئے، ابتدا میں امروہہ کے اخبارات قرطاس اور مخبر عالم کی ادارت کی۔ بعد ازاں روزنامہ جدت (مرادآباد) کے مدیر اعلیٰ رہے۔
آپ سید محمد تقی اور جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے۔تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔
غزل ہو یا نظم قطعات ہوں یا رباعیاں، ادب ہو یا فلسفہ، سنجیدہ مضامین ہوں یا طنز و مزاح، وہ ہر میدان کے ”مرد میدان“ نظرآتے اور جس موضوع پر لکھتے خوب لکھتے ۔ایک مفہوم کو رنگا رنگ اسلوب سے ادا کرنا، ایک حقیقت کو گوناگوں الفاظ و عبارت کے جامے میں سمونا، جہاں شاعرانہ صلاحیتوں کا مظہر ہوتا ہے وہاں شاعر کے تخیل اور علمی سرمائے کا بھی اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ رئیس امروہوی میں یہ خصوصیت بہت نمایاں تھی۔
جب ہم ان کی بعض منظومات مثلاً ”آفرینش نامہ“ دیکھتے ہیں تو پوری نظم جو تین صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، اس کا ماحصل دو الفاظ ’’اطلاق و قید یا مطلق و قید‘‘ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر نے ان فلسفیانہ اصطلاحات کی خشک زمین کو نہایت شگفتہ اور بہت ہی تروتازہ نظم سے باغ و بہار بنا دیا ہے ،پوری نظم زور بیاں، ندرت کلام اورشوکت الفاظ کا مرقع ہے۔
22 ؍ستمبر 1988 کی شام وہ اپنے گھر میں جنگ کے لئے قطعہ لکھ رہے تھے کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس قطعہ پر ان کے خون کے چھینٹے تھے۔ رئیس امروہوی نے جنگ دہلی سے آغاز قطعہ کیا، جبکہ جنگ کراچی سے اختتام قطعہ، زندگی کے اختیام کے ساتھ ہوا۔رئیس امروہوی نے قطعے کو وہ معنویت عطا کی کہ بقول محمدعلی صدیقی کے، ’’چار مصرعوں میں نکتہ پیدا کرنا، بات نکالنا، طنز کرنا، مسکرا کے نشتر چبھونا اور ساتھ ہی کہنا کہ آپ کو تکلیف تونہیں ہوئی، رئیس کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔‘‘روزانہ ایک قطعہ تحریر کرتے، تادم مرگ یہ مشق سخن جاری رہی۔
رئیس امروہوی کو سیاسی قطعہ نگاری کا باوا آدم کہاجاتا تھا۔ بقول شورش کاشمیری مرحوم، ان کے چار مصرعوں نے بڑے بڑے گنبدوں کو پیوند زمین کیا، شاید ہی قومی و بین الااقوامی سماجی و سیاسی زندگی کا کوئی اہم گوشہ، کوئی توجہ طلب نکتہ، کوئی دور رس اور چونکا دینے والا واقعہ ان کے قلم کے زد سے بچا ہو۔ فکر و نگارش کا یہ سلسلہ تاحیات جاری رہا۔ بقول رئیس امروہوی کے ’’اردو ادب و شعر کے ذخیرہ نادرات میں میرے قطعات کو کہاں جگہ ملے گی، اس بارے میں مجھے فکر مند ہونےکی ضرورت نہیں، میرا فرض تولکھنا ہے صرف لکھنا، کبھی روشنائی سے، کبھی قطرہ اشک سے، کبھی خون جگرسے؎
لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی
آرائش کتاب بشر کررہے ہیں ہم
رئیس امروہوی پاکستانی سیاست اور ملک کے روز و شب کا احوال اپنے قطعات میں پیش کرتے۔ ان کے بعض قطعات نے تو صرف المثل کی حیثیت اختیار کی اور بعض کو آج بھی پڑھ کر لگتا ہے، جیسے ابھی لکھے گئے ہیں۔ سیاسی دھنگا مشتی سے انتخابات تک مہنگائی سے بے روز گاری تک، کرپشن سے عدالت تک، غرض ان کے قلم سے حالات حاضرہ کا کوئی واقعہ بچا ہو ۔بلا مبالغہ ان کے قطعات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ قطعات کے علاوہ شعر و شاعری بھی کی۔ کالم اور مضامین بھی لکھے لیکن وجہ شہرت قطعات بنی۔ 21؍اکتوبر 1947ء کو ان کا جنگ کراچی میں پہلا قطعہ بہ عنوان ’’جلا وطن‘‘ شائع ہوا۔ ذیل میں رئیس امروہوی کے چند قطعات ملاحظہ کریں۔
میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی
میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی
تفریق ہی محال ہے بود و نبود کی
پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی
لیکن شکایتیں ہیں یہود و ہنود کی
کامیابی کا ہے رئیسؔ امکاں
کامیابی کا ہے رئیسؔ امکاں
گر مرتب عمل کے خاکے ہوں
اف بیانات کی یہ گونج گرج
جس طرح ایٹمی دھماکے ہوں
جو اپنے قول کو قانون سمجھیں
جو اپنے قول کو قانون سمجھیں
وہ قائل ہو نہیں سکتے ابد تک
بہت سے لوگ یاران وطن ہیں
محقق ہیں مگر حقے کی حد تک
ہم لوگ ہیں واقعی عجوبہ
ہم لوگ ہیں واقعی عجوبہ
کیوں آپ میں مست ہیں نہ جانے
سنتے ہیں نیوز بی بی سی سے
آل انڈیا ریڈیو سے گانے
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی