اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہینِ عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے معافی مانگ لی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو عمران خان روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں اگر میں نے کوئی لائن کراس کی، کبھی بھی عدلیہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت نہیں تھی، یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ کبھی بھی ایسا عمل نہیں ہو گا۔
عدالت میں عمران خان نے خاتون جج سے ذاتی حیثیت میں معافی مانگنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اگر خاتون جج کو تکلیف پہنچی ہے تو معافی مانگنے کو تیار ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آج چارج فریم نہیں کر رہے، آپ کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں، فردِ جرم عائد نہیں کرتے، آپ نے اپنے بیان کی سنگینی کو سمجھا، ہم اس کو سراہتے ہیں، آپ تحریری حلف نامہ جمع کرائیں، عمران نیازی صاحب! بیانِ حلفی داخل کریں، عدالت جائزہ لے گی۔
عمران خان نے کہا کہ اگر عدالت کچھ اور چاہے تو وہ بھی کرنے کو تیار ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم آپ کی اس بات کی ستائش کرتے ہیں، آپ کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں، فردِ جرم عائد نہیں کرتے، 29 ستمبر کو حلف نامہ جمع کرائیں۔
عمران خان نے کہا کہ تقریر میں خاتون جج کو دھمکانے کی نیت نہیں تھی، اگر عدالت سمجھتی ہے میں نے حدود پار کی ہے تو میں خاتون جج سے جا کر معافی مانگنے کو تیار ہوں، یقین دلاتا ہوں کہ خاتون جج کے پاس جانے کو تیار ہوں، انہیں یقین دلاؤں گا کہ آئندہ ایسا کوئی عمل نہیں کروں گا، میں توہینِ عدالت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کی عدالت ہے، ہم آپ کے عدالت میں بیان کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی جس کے بعد عمران خان عدالت سے واپس روانہ ہو گئے۔
کمرۂ عدالت میں عمران خان نے کہا کہ آج میری بھی انگریزی کمزور ہے۔
یہ بات انہوں نے کمرۂ عدالت میں صحافی کے سوال کہ ’’ڈیپ ریگریٹ اور ان کنڈیشنل اپولوجی میں سے ہم کس کا ترجمہ کریں؟‘‘ کے جواب میں کہی۔
صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ خان صاحب معافی مانگیں گے یا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے۔
عمران خان نےجواب دیا کہ یہ آپ کو پتہ چل جائے گا۔
صحافی نے سوال کیا کہ عدالتوں سے آپ کی جان کب چھوٹے گی؟
عمران خان نے جواب دیا کہ ابھی نہیں چھوٹنے لگی۔
صحافی مطیع اللّٰہ جان نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا آپ معافی مانگ کر زیادہ خطرناک ہو جائیں گے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ تمہیں ان چیزوں کا زیادہ علم ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ خان صاحب! کیا آپ اب بھی کسی کے لاڈلے ہیں؟
جواب میں عمران خان مسکرا کر آگے بڑھ گئے۔
اس سے قبل کمرۂ عدالت میں عمران خان کی نشست تبدیل ہو گئی، چیئرمین پی ٹی آئی پچھلی کرسی سے اٹھ کر عدالتی بینچ کے قریب بیٹھ گئے۔
شاہ محمود قریشی اور شبلی فراز بھی چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کے ساتھ عدالت آئے۔
سماعت سے قبل اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، عدالتی معاون مخدوم علی خان اور عمران خان کے وکیل حامد خان کمرۂ عدالت میں پہنچے تھے۔
عدالتِ عالیہ میں آج سماعت کے حوالے سے پولیس سیکیورٹی آرڈر جاری کیا گیا۔
جاری کیے گئے پولیس سیکیورٹی آرڈر کے مطابق آج کی پیشی کے لیے 2 ایس پیز سمیت 710 افسران و اہلکار تعینات کیے گئے۔
سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے ہائی کورٹ کے ارد گرد کی مانیٹرنگ بھی کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر حفاظتی انتظامات کی ذمے داری سیکیورٹی ڈویژن کی تھی۔
عدالت کے اندر ایف سی اور رینجرز کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے۔
سیکیورٹی آرڈر کے مطابق عدالت کے روف ٹاپ کے علاوہ تمام افسران اور اہلکار غیر مسلح رہے۔
ہائی کورٹ کے باہر سیکیورٹی کی ذمے داری ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے انجام دی۔
پولیس سیکیورٹی آرڈر کے مطابق ڈیوٹی پر تعینات کوئی بھی اہلکار موبائل فون استعمال نہیں کر سکتا تھا۔
وائرلیس کا استعمال صرف ڈیوٹی کے لیے تھا، وائرلیس کے غیر ضروری استعمال پر محکمانہ کارروائی کی تنبیہ کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف خار دار تار لگا کر راستہ بند کیا گیا تھا۔
دورانِ سماعت 500 شارٹ رینج اور 500 لانگ رینج آنسو گیس شیل اور شیلنگ والی بکتر بند گاڑی عدالت میں موجود تھی۔
پولیس لائنز میں 3 ہزار شیل اور گاڑیاں تیار کھڑی تھیں۔
متعلقہ اور مخصوص افراد کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کورٹ روم نمبر ون کے باہر قناتیں لگائی گئی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہینِ عدالت کے کیس میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے آج چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو طلب کیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کے 2 جوابات عدالت میں جمع کرائے تھے۔
عمران خان کے پہلے جواب پر اظہارِ تشویش کے ساتھ عدالت نے دوبارہ جواب دینے کا موقع دیا تھا۔
دوسرے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ عوامی اجتماع میں کہے گئے اپنے الفاظ کے ساتھ نہیں کھڑے۔
دوسرے جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ خاتون جج کو دھمکی دینے پر افسوس اور پچھتاوا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کیس کی گزشتہ سماعت 8 ستمبر کو ہوئی تھی۔
دورانِ سماعت عدالت کے حکم پر سینئر وکلاء منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے عدالت کی معاونت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ کی زیرِ صدارت 5 رکنی بینچ نے عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیا تھا۔
عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا کہ عمران خان پر 22 ستمبر کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے پر توہینِ عدالت کے کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے حوالے سے گزشتہ روز سرکلر جاری کیا گیا تھا۔
جاری کیے گئے سرکلر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرۂ عدالت نمبر 1 میں انٹری رجسٹرار آفس کے جاری کردہ پاس سے مشروط تھی۔
سرکلر میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کی لیگل ٹیم کے 15 وکلاء کمرۂ عدالت میں موجود ہوں گے۔
اٹارنی جنرل آفس اور ایڈووکیٹ جنرل آفس سے 15 لاء افسران کو کمرۂ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی۔
سرکلر میں اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کو کورٹ ڈیکورم برقرار رکھنے کے لیے خصوصی سیکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔