خاتون جج کو دھمکی دینے پر چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت میں وقفے سے قبل اس کیس کے آگے بڑھنے یا نہ بڑھنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
وقفے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
عدالت عالیہ نے اپنے مختصر فیصلے میں ریمارکس دیے کہ اس کیس کی سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کی جاتی ہے جبکہ 22 ستمبر کو عمران خان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
واضح رہے کہ عدالتی کارروائی میں 5 منٹ کا وقفہ کیا گیا تھا، تاہم عدالت کے اٹھتے ہی عمران خان بھی کھڑے ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ جسٹس صاحب میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟ جس پر چیف جسٹس نے اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے جواب دیا کہ ہم نے آپ کے وکلا کو سن لیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ عدالت نے جو سوال پوچھے، ان پر مجھے اپنا مؤقف دینا تھا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہینِ عدالت ہے، دوسری جوڈیشل توہینِ عدالت اورتیسری فوجداری توہینِ عدالت، عدالت کی اسیکنڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہینِ عدالت ہے جو زیرِ التواء مقدمے سے متعلق ہے۔
انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاؤس جی کیس دیکھیں، جس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اتنی پولیورائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ ہم نے وکلاء تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے، ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈ لائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم لا علمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے، جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے، ہمیں احساس ہے کہ اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟
’’عمران خان کے جواب سے لگتا ہے سنگینی کا احساس نہیں‘‘
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کا جواب ان 2 عدالتی فیصلوں کے مطابق ہے؟ اس عدالت کو کوئی مرعوب نہیں کر سکتا، ہم نے قانون کے مطابق جانا ہے، پچھلی مرتبہ آپ کو سمجھایا تھا، جواب سے لگتا ہے کہ سنگینی کا احساس نہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے جواب کا پیرا گراف 2 دیکھیں۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ شوکاز نوٹس کا کیا جواب ہے؟ کیا آپ شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھیں گے؟ حامد خان صاحب میں آپ سے شوکاز نوٹس کے جواب کا پوچھ رہا ہوں، شوکاز نوٹس میں کرمنل اور جوڈیشل توہینِ عدالت دونوں کا ذکر ہے۔
حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، شہباز گِل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔
’’ضلعی ججز کی عزت سپریم اور ہائیکورٹ کے جج جیسی ہے‘‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت اس بات سے بہت آگاہ ہے، آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کرنا چاہتے تو آپ کی مرضی، کیا اگر سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں یہ الفاظ ہوتے تو یہی جواب ہوتا؟ ضلعی عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج جیسی ہے۔
وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کسی جج کے جذبات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے، اس کورٹ نے آپ کو طریقے سے گریویٹی سمجھا دی ہے، گزشتہ سماعت پر باور کرانے کی کوشش کی، اس عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی۔
’’یقین دلاتے ہیں عمران اور سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے‘‘
حامد خان نے کہا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران اور ان کے سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیسے ایک سیاسی رہنما جلسے میں کسی جج کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہے؟ جج کے خلاف کارروائی کے لیے ایک فورم ہے، عوامی جلسہ وہ فورم نہیں۔
حامد خان نے جواب دیا کہ لیگل ایکشن کا مطلب شکایت بھی ہے، اس فیصلے کےخلاف نظرِ ثانی وغیرہ بھی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بھول جائیں کہ کسی جج کی فیلنگز ہرٹ ہوئیں۔
’’عمران نے ایکشن کے ساتھ لیگل کا لفظ مس کیا تھا‘‘
وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ خاتون جج ہرٹ ہوئی ہوں گی، عمران خان نے گفتگو میں ایکشن کے ساتھ لیگل کا لفظ مس کر دیا تھا۔
جسٹس بابر ستار نے کہ کہ ایک لیڈر پبلک ریلی میں کیسے کہہ رہا ہے کہ جج کے خلاف لیگل ایکشن لیں گے؟ جج کے خلاف لیگل ایکشن لینے کا بھی طریقہ بتایا گیا ہے، اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ عوامی مقام پر جلسے میں یہ باتیں کریں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ قانون سے لا علمی کوئی ایکسکیوز نہیں۔
حامد خان نے کہا کہ لیگل ایکشن لینا کسی کا بھی قانونی حق ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، سیاسی رہنما نے کوئی پشیمانی نہیں دکھائی، احتساب عدالت کے باہر بھی وہی کچھ کہا جو ہم یہاں چلا سکتے ہیں، عمران خان جواب میں مسلسل اپنے عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جو دھمکی جیسا ہے، کیا جواب کہہ رہا ہے کہ توہینِ عدالت کا فیئر ٹرائل دیا جائے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔
اس موقع پر حامد خان نے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کے لیے اور زیادہ مہلک ہو گا، اس کیس میں عمران خان نے کہا تھا کہ شرمناک کا لفظ ماتحت عدلیہ کے لیے استعمال کیا، اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو متنبہ کیا تھا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان نے پشاور جلسے میں آزاد عدلیہ کی بات کی، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا کہ خاتون جج سے متعلق کوئی سخت الفاظ نہ کہیں۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا آپ کے مؤکل اپنے بیان کا کوئی جواز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے، تقریر اور توہینِ عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہیں، عمران خان کے حالیہ بیانات سے بھی لگتا ہے کہ انہیں کوئی پچھتاوا نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا توہینِ عدالت کیس میں ٹرائل چلایا جائے؟
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں تو مطلب عمل پر پچھتاوا نہیں، کسی جج کا نام لیے بغیر کی گئی توہین پر بھی سپریم کورٹ نے معافی تسلیم نہیں کی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے جج میں کوئی فرق نہیں، بار بار سمجھا رہے ہیں کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
عدالتی سوالات پر عمران خان نے وکیل حامد خان سے مشورہ کیا کہ پوچھ کر بتائیں، میں روسٹرم پر آنا چاہتا ہوں۔
عمران خان نے شعیب شاہین ایڈووکیٹ کے ذریعے حامد خان کو پیغام دیا جس پر حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پرسوں کی تقریر پر وضاحت کے لیے روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں، عمران خان کے مطابق پرسوں کی جس تقریر کا حوالہ دیا گیا وہ مس رپورٹ ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ وہ تقریر یہاں چلا کر دیکھ لیں گے، نہال ہاشمی کیس میں کسی جج کا نام نہیں تھا، معافی بھی مانگی گئی لیکن نہیں ملی۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ کے جج کو دھمکی سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے، ہمارے بارے میں شرم ناک کہہ دیتے تو کبھی توہینِ عدالت کا نوٹس نہ کرتے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا کہ ماتحت عدلیہ کم تر ہے، میری عدالت سے درخواست ہے کہ میں ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ دونوں کا احترام کرتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر اس 5 رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آیا تو وہ اس کے خلاف بھی کھڑے ہو کر وہی بات کریں گے؟ کیا جس کو فیصلہ پسند نہ آئے وہ ایسا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟ صرف آپ کے مؤکل کو سمجھ ہے کہ انہوں نے کیا کہا اور باقی دنیا کو نہیں؟ ہماری عدالت کسی کے خلاف حکم دے اور وہ باہر کھڑا ہو کر کہے کہ میں جج کو نہیں چھوڑوں گا، یہ ٹھیک ہو گا؟ جو جواب داخل کیا گیا ہے لگتا ہے کہ نتائج کا احساس نہیں۔
’’مدینہ منورہ میں جو ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا‘‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بار بار سمجھا رہے ہیں کہ سیاسی رہنما کی بہت ذمے داری ہو تی ہے، اس لیے کہ اشتعال پیدا نہ ہو، حامد خان صاحب! بار بار سمجھا رہے ہیں، چلیں آپ اپنے دلائل مکمل کریں، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، آپ کو بار بار یہ چیز سمجھا رہے ہیں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، سیاسی لیڈر پر بہت بڑی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کیا الفاظ استعمال کرے، ہمیں حضور ﷺ کی ذات اور فتحِ مکہ سے سیکھنا چاہیے، ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔
حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014ء میں عمران خان کی وضاحت قبول کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، موجودہ توہینِ عدالت اور 2014ء کے عمران خان کے خلاف کیس ایک جیسے ہیں، ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سامنے رکھ کر بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں آرٹیکل 19 کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا، سیاستدان کئی مرتبہ نادانستہ کچھ الفاظ کہہ جاتے ہیں۔
جسٹس طارق جہانگیری نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عمران خان کو بتایا ہے کہ شہباز گِل پر تشدد سے متعلق میڈیکل رپورٹ نے تردید کی تھی؟
اس موقع پر شعیب شاہین ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے بتایا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے کنفرم کیا تھا کہ شہباز گِل پر جسم پر نشانات تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر غالب ہو گا یا جوڈیشل آرڈر؟
حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، میرے مؤکل کو یہ تاثر ملا تھا کہ شہباز گِل پر تشدد ہوا ہے، میرا مؤکل جج صاحبہ کو ہر گز ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا، اسی لیے انہیں پچھتاوا ہے، عمران خان خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تاثر یہ ہے کہ شاید خواتین کے خلاف نفرت کا مسئلہ ہے۔
جسٹس بابر ستار نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ کس نے یہ تاثر پیدا کیا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا کسی لیڈر نے سوشل میڈیا پر اپنے فالوورز کو منع کیا؟ سوشل میڈیا جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، عدلیہ نشانہ ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذمے دار سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہیں، کیا کسی لیڈر نے کہا کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ کریں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ خود کہہ رہے اپنے جواب میں کہ اپیل فائل کرنا تھی۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کو معلوم نہیں تھا کہ اپیل ہائی کورٹ میں زیرِ التواء ہے، یہ معلوم تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ تو مطلب وہ اپیل دائر ہونےکی صورت میں کیس پر اثر انداز ہونا چاہ رہے تھے؟
جسٹس بابر ستار نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے جواب کا پیرا گراف 4 پڑھیں، وہاں لکھا ہے کہ عمران خان کو پتہ تھا کہ آرڈر چیلنج ہونا ہے، کیا پھر یہ جان بوجھ کر اپیل پر پیشگی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کہ تاثر تھا انسان سے غلطی ہو جاتی ہے، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے کیس میں اس سے پہلے متعدد تقاریر کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کا کرمنل توہینِ عدالت کا کیس بنتا ہے، اگر ہم کہی گئی باتوں پر توہینِ عدالت لگانا شروع کریں تو روز یہی کام کریں، اس عدالت کو جو بھی کہا جائے، ہم کبھی نوٹس نہیں لیتے، آپ کو پتہ ہے کہ توہینِ عدالت کی ایک درخواست جسٹس بابر ستار نے خارج کی، ہمارے سامنے جوڈیشل اور کرمنل توہین ہے جو بہت حساس معاملہ ہے، ہائی کورٹ کو پرواہ نہیں کہ آپ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، روزانہ سوشل میڈیا میں ہمارے بارے میں جو کہا جاتا ہے ہمیں پتہ ہے، فی الحال طلال چوہدری، دانیال عزیز کے فیصلے کو چھوڑ دیں، وہ اتنے سنگین کیس نہیں تھے لیکن سپریم کورٹ نے سزا دی، نہال ہاشمی کے کیس میں غیر مشروط معافی تھی، وہ ایک کرمنل کیس تھا جس میں ججوں کو دھمکانے کی کوشش تھی، حامد خان آپ تحمل کی بات کر رہے ہیں، میں نے تو کہا کہ آپ ہمیں اسکینڈلائز بھی کریں گے تو نوٹس نہیں لیں گے۔
حامد خان نے کہا کہ عدالتی آبزرویشن کی روشنی میں بار بار جواب میں پچھتاوے کا لفظ استعمال کیا، سپریم کورٹ نے بھی 2014ء میں تحمل اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، عدالت سے سپریم کورٹ جیسے تحمل کی توقع کرتا ہوں۔
اس کے ساتھ ہی عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہو گئے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف دلائل کے لیے روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے کہا کہ میں 3 باتیں کروں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کے ملزم کے وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وہ فیصلہ عدالتی نظیر بن گیا ہے، توہین کرنے والے کی نیت اور مقصد بہت اہم ہوتا ہے، 2014 میں بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس چلایا گیا تھا، ایسے ہی الزامات تھے، ایسا ہی طریقہ کار تھا لیکن معاف کر دیا گیا تھا، کہا گیا کہ فاضل عدالت سپریم کورٹ کی طرح عمران خان کے خلاف تحمل کا مظاہرہ کرے۔
اشتر اوصاف نے کہا کہ عمران خان نے اپنے جواب میں بیان حلفی نہیں دیا، عمران خان کے بیان حلفی کے بغیر جواب کی کوئی حیثیت نہیں، عمران خان نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی دیا کہ وہ آئندہ عدلیہ کے خلاف کوئی تضحیک آمیز بات نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کو اِس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا، نہ صرف پہلے بلکہ دوسرے جلسے میں پھر انہی جج صاحبہ کا نام لیا گیا، جج کا نام لیا یہ جانتے ہوئے کہ فاضل عدالت میں وہی معاملہ زیر سماعت ہے۔
اشتر اوصاف نے کہا کہ توہین عدالت کے ملزم کی جانب سے ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنے کا کہا، آج پھر وہی شخص اسی الزام میں یہاں عدالت کے سامنے ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کردوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا، عمران خان کے جواب میں اظہار افسوس کیا گیا مگر کوئی پچھتاوا نہیں، اس وقت معاملہ یہ ہے کہ عوام اس طرح کے بیانات سے کیا سبق لیں گے؟
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل بھی مکمل ہوگئے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ الزام ہے کہ خاتون سیشن جج کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی، یہ بھی الزام ہے کہ زیر التوا مقدمے پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ تین طرح کے الزامات ہیں کہ جج کو دھمکایا اسکینڈلائز کیا، الزام ہے کہ زیر سماعت مقدمہ پر بات کی، جوڈیشل اور کرمنل توہینِ عدالت کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ باز محمد کاکڑ، طاہرالقادری، مسرور احسن کیس کا حوالہ دیتا ہوں، کریمنل توہینِ عدالت کے کیس میں جج کو دھمکایا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ہم اس وقت شوکاز کے مرحلے پر ہیں، عوام میں عدلیہ کا اعتماد غیرجانبداری، منصفانہ فیصلوں سے قائم ہوتا ہے۔ توہین عدالت میں ایک معافی ہے دوسرا یہ کہ ملزم کا عدالتی فیصلوں کا احترام۔
عدالتی معاون نے یہ بھی کہا کہ مرزا اسلم بیگ کا توہین عدالت کا کیس بیان کروں گا اور کہا کہ اسلم بیگ کیس میں معافی نہیں مانگی گئی تھی، اسلم بیگ کیس میں گہرے پچھتاوے کا ذکر کیا گیا تھا۔ الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے دوسرا کنڈکٹ پر، یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں یہاں کسی کا وکیل نہیں، عدالتی معاون کے طور پر بات کر رہا ہوں۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالتی کیس کا حوالہ دے رہا ہوں، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، میں انہیں کہتا ہوں آئندہ ایسا نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت سے درخواست ہے اس موقع پر توہین عدالت سے درگزر کرے، ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ ضلعی عدلیہ ریڈ لائن ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کا کیس ختم کرنے کی رائے دے دی۔
اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ منیر اے ملک صاحب یہ کیا تاثر نہیں جائے گا کہ بااثر لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے، جو لوگ با اثر نہیں ہوتے انہیں سزا دے دی جاتی ہے؟
اس پر عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ عدالت کو جو پیغام دینا تھا دے دیا، اب تحمل دکھانا چاہیے۔
ایک اور عدالتی معاون مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کا قانون ججز کی حفاظت کے لیے نہیں ہے، توہین عدالت کا قانون انصاف میں خلل ڈالنے سے متعلق ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کردیا تھا؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ وہ توہین عدالت پر نہیں تھا۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ کانگریس کی توہین سے متعلق بات پر شاید معطل ہوا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ مخدوم صاحب آپ نے امریکا کی مثال دی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا، وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا دوسرا راستہ نکالا، جس پر جسٹس اطہرمن اللّٰہ کا کہنا تھا کہ امریکا میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہوا تھا، ان کا اکاؤنٹ اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔
عدالتی معاون نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ رہنما کا کردار معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے، ضلعی عدلیہ کا اعلیٰ عدلیہ کے برابر احترام کیوں نہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملزم کا کنڈکٹ جواب داخل کرتے ہوئے کیا ہو، یہ 7 رکنی سپریم کورٹ ججز کے فیصلے ہیں، آپ کی تمام باتیں قابل احترام ہیں۔
جب عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بھی عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی رائے دی تو جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں ایک سیاسی رہنما کا کیس سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے، تو پھر ہر شخص کے مساوی ہونے کا اصول کدھر جائے گا؟
سماعت شروع ہونے سے قبل پولیس نے عمران خان کے ساتھ آنے والے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری، شہزاد وسیم، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، وزیرِ داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر، میاں اسلم، راجہ بشارت اور راشد حفیظ کو عدالت میں داخلے سے روک دیا۔
سابق وفاقی، خیبر پختون خوا و پنجاب کے وزراء کو رجسٹرار آفس کی لسٹ میں نام نہ ہونے پر روکا گیا۔
سیکیورٹی اسٹاف نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو شناخت کے بعد عدالت میں جانے کی اجازت دی۔
عدالتی معاون منیر اے ملک، مخدوم علی خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عمران خان کے وکیل حامد خان بھی کمرۂ عدالت میں موجود ہیں۔
کمرۂ عدالت میں پروجیکٹر بھی لگا دیا گیا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ سیکیورٹی انتظامات سے عام لوگوں کو پریشان نہ کیا جائے، ہائی کورٹ کے اطراف میں دکانیں اور دفاتر زبردستی بند نہ کروائیں۔
اس موقع پر سیکیورٹی اور جیمرز کی وجہ سے ہائی کورٹ اور اطراف میں انٹر نیٹ سروس تعطل کا شکار رہی۔
رہنما پی ٹی آئی اسد عمر بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے۔
عمران خان نے احاطۂ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتنی پولیس زندگی میں نہیں دیکھی، ایسا لگ رہا ہے جیسے کلبھوشن عدالت آ رہا ہو۔
صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ حکومت بہت دیر سے کوشش کر رہی ہے، میں جیل جا کر اور زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا،
پتہ نہیں انہیں کس چیز کا خوف ہے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ معافی مانگیں گے؟
عمران خان نے ہنستے ہوئے صحافی کو جواب دیا کہ آپ سے پوچھ کر ہی کچھ کروں گا، رات میچ دیکھنے کے لیے وقت نہیں تھا، مجھے تو آج آتے آتے بھی 15 منٹ لگ گئے۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر معافی مانگیں گے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ اس سے پہلے میں آپ سے این او سی لوں گا، آپ کا کافی تجربہ ہے۔
پولیس نے یہ کہہ کر کہ ججز آنے والے ہیں، صحافیوں کو عمران خان سے مزید سوالات سے روک دیا۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میڈیا سے باقی باتیں سماعت کے بعد کروں گا، ایسا نہ ہو کہ ججز کو پریشانی ہو، کہیں کوئی غلط ٹکر ہی نہ چل جائے۔
عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر آج پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔
اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر 2 ایس پیز سمیت 778 افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ہائی کورٹ کے گرد مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر حفاظتی انتظامات کی ذمے داری سیکیورٹی ڈویژن کے سپرد کی گئی ہے۔
اس حوالے سے جاری کیے گئے پولیس سیکیورٹی آرڈر کے مطابق:
یاد رہے کہ عمران خان کی گزشتہ پیشی پر 3 ایس پیز سمیت 1 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ خاتون جج کو دھمکی دینے پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے۔
عمران خان نے خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ کو جلسے میں دھمکیاں دینے کے معاملے میں گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں شوکاز نوٹس کے جواب میں 19 صفحات پر مشتمل نیا تحریری ضمنی جواب جمع کرایا تھا۔
اس جواب میں عمران خان نے خاتون جج سے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کیا تھا۔
خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق کہے گئے الفاظ پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
انہوں نے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی اجتماع میں کہے گئے اپنے الفاظ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میری اس وضاحت کو کافی سمجھتے ہوئے میرے خلاف دائر کیس ختم کرے۔