• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا چشم تصور کیجئے!

چلتے ہیں صدیاں قبل کے ایک قصبے خضدار کی طرف جہاں ایک محل نما حویلی کے پھاٹک کا دروازہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بند تھا۔ اندر وسیع و عریض صحن کے بیچ میں رکھی ہوئی ایک چارپائی، جس پرسفید چادر سے ڈھکا ہوا ایک بے جان جسم لیٹا ہوا ہے۔ چاروں طرف سے لوگ گھیرے ہوئے ہیں۔ ایسے سانحے تو خاندانوں میں اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگرآج یہ محض ایک حادثہ نہ تھا۔ ہاتھ کی لکیروں سے رستا ہوا خون ایک نئی تاریخ رقم کر چکا تھا۔ 

اس فانی دنیا میں فارسی شاعری کی خاتونِ اوّل رابعہ خضداری کے یہ آخری لمحات تھے، تاہم فارسی شاعری کو اپنی پہچان کا یہ پہلا لمحہ مل چکا تھا۔ شجر سے ایک پھل کیسا ٹوٹا، باقی سارے شجر بارآور ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج صدیاں گزرنے کے باوجود بھی رابعہ کی شاعرانہ صدا بازگشت بن کر ہماری سماعتوں سے مسلسل ٹکرا رہی ہے۔ اور یہ وہ صد ا ہے جو اپنے مضامین، اپنے اسلوب اور اندازِ شعرگوئی کے لحاظ سے صاف صاف بتاتی ہے کہ جب اپنی ذات کے راستے کو خیرباد کہا جاتا ہے تو پھر ایک ہی راستہ سجھائی دیتا ہے اور وہ ہے عشق کا راستہ۔ اس حوالے سے رابعہ خضدار ی کے ایک فارسی نظم کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

اس کے عشق نے دوبارہ مجھے قید میں ڈال دیا۔ (آزاد ہونے کی) بہت زیادہ کوشش کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔

عشق ایسا سمندر ہے، جس کا کوئی ساحل نہیں۔ اے شخص تو جو کہ دنیاداری سے آشنا ہے، کیوں کہ اس میں تیر سکے گا۔

اگر تم چاہتے ہو کہ عشق تمہیں اپنی انتہا تک لے جائے تو ہر پسندیدہ شے کوناپسند کرنے لگو۔

تم بدصورتی کو دیکھو اور سمجھو کہ یہ حسن ہے۔ تم زہرکھائو اور سمجھو کہ تم نے شکر کھائی ہے۔

میں (عشق کی) باگ سرکش گھوڑے کی طرح کھینچتی رہی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کھینچنے سے پھندہ اور بھی تنگ ہو جاتا ہے۔

یہ اس شہزادی کی آواز ہے، جو بے چین تھی، بے خبر تھی اور ہجوم میں تنہا تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اس کی اور ہم سب کی آواز ہے۔ ہمارے اور اس کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صبح وشام کے بیچ ہوتا ہے۔ ہمارا اور اس کا وہی رشتہ ہے، جو سوچ کا آواز سے ہوتا ہے۔ سوچ کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ آواز حدود میں گرفتار رہتی ہے۔ 

آواز سوچ کے ساتھ چلے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ کبھی یہ آواز ہمارے پاس ہوتی ہے اورکبھی لگتا ہے کہ یہ آواز صدیوں کے فاصلے پر آگے بڑھ چکی ہے۔ لیکن پھر بھی اس آواز نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کیوں کہ یہ آواز وہ عاشقانہ شاعری ہے، جو روح سے پھوٹ کر نکلتی ہے اور پھر ہر جگہ موجود حساس لوگوں کے دلوں کے صحن میں اُتر جاتی ہے۔ ایک اور فارسی نظم کا ترجمہ ملاحظہ کریں۔

سوسن و گل سے لیکر ہوا ہر طرف سونا اور چاندی نچھاور کر رہی ہے۔

یہ ہوا قابلِ صد تعریف ہے کہ اس ہوا پر رحمت پُرافشاں ہے۔ پانی نے آذر کے بنائے ہوئے بت سے سینکڑوں نقوش حاصل کئے ہیں اور مصور مانی کے جادو سے ہوا نے سینکڑوں اثرات حاصل کئے ہیں۔ (پانی آذر اور ہوا مانی جیسا کام کرنے لگی ہے)

بادل انسان کی آنکھ کی مانند بن گیا ہے اور ہوا حضرت عیسیٰ کی مہرو محبت کا ثبوت بن گئی ہے۔

کہ باغ میں بادل ہر لمحہ موتی برساتا رہتا ہے اور ہوا بڑی حسرت سے درختوں میں جان ڈالتی رہتی ہے۔

اگر بادل دیوانہ بن کرآیا تو پھر کس کیلئے ہوا سونے کے پیالے میں شراب پیش کر رہی ہے؟

میرے خوف کے پھول کی خوشبو رنگ لائی ہے، اس راز کو پاکر ہی ہوا نے صبح کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

گویا ہوا نے باغ کی دلہن کا گھونگھٹ ہٹا دیا ہے اوراس کا جلوہ دکھا دیا ہے۔

اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ صبح کے وقت زیادہ اچھے خواب نظرآتے ہیں۔ ہوا بھی وقت سحر درختوں سے پھول توڑ کر زمین پر برساتی ہے۔

حقیقت میں یہ اشعار سونے اور چاند کی سطریں ہیں، جو صرف رابعہ ہی لکھ سکتی ہیں۔ یہ ان کا حصہ ہے اس نے ہماری اونچی اورگہری فکری فارسی شاعری کو پہلی مرتبہ وہ لہجہ دیا۔ جس میں ایک ذہن و حساس عورت کا دل دھڑکتا سنائی دیتا ہے۔ اس لہجے نے عورت کا نازک و نفیس لباس پہن رکھا ہے، جس کے پیرہن اور روح سے عورت کے جسم و روح کی خوشبو آتی ہے۔ شاعرصرف حسن دیکھتا ہی نہیں، حسن تخلیق بھی کرتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، رابعہ خضداری کا آدرش حسن کی تلاش ہے ۔

دسویں صدی عیسوی میں فارسی زبان کا ایک معیاری لہجہ متعین ہو چکا تھا۔ زندگی کے بے شمار روپ اور تجربے فارسی شاعری کا موضوع بن رہے تھے۔ مگر جس وقت رابعہ نے لکھنا شروع کیا تھا۔ تو یہ اسلوب سورج کی طرح اُفق پر تنہا طلوع ہوا تھا۔ یہ دھیما دھیما سا، سرگوشیاں کرتا، گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ہوا ایک عجیب چاک گریباں سا لہجہ ہے۔ جس میں سمائے ہوئے سارے الفاظ ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رابعہ کی شاعری اپنے اصلی قد سے زیادہ قدآور معلوم ہوتی ہے۔

میرے نزدیک اس لہجے کی سب سے دل آویز خصوصیت اس کی وہ روحانی سطح ہے، جس کے لمس سے خیال اور جذبے کے ساتھ ہمارے دل و ذہن کے درو دیوار بھی چمک اٹھتے ہیں۔ ساتھ ہی رابعہ کے اس لہجے میں ایسا تیقن اور ان کی آواز میں ایسی تمکنت ہے، جو شاعر کو جہد اظہار میں اپنا مقام حاصل ہونے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ رابعہ نے درد کا جو شہر تخلیق کیا ہے۔ اس شہرکی دیواریں ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر ہیں اور اس درد میں حزن و یاس کا عنصر بے حد نمایاں ہے۔ یہی درد دراصل رابعہ کی شاعری کا سب سے طاقتور محرک ہے اور یہی درد ہے جس سے عاشقانہ شاعری کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

عاشقانہ شاعری کو آپ درد والم کے خیالات سے الگ نہیں رکھ سکتے۔ عشق کا خاصہ جذبِ غم ہے۔ جس سے محبت کی جاتی ہے۔ اس کے لئے غم سہے جاتے ہیں کہ بغیر اس کے اخلاص مشتبہ رہے گا۔ عشق بغیرغم کے عنصر کے تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا۔ بغیر ادراک غم خود انسانی شخصیت ادھوری رہتی ہے۔ غم کی دھیمی آنچ میں سلگنے سے شخصیت کے جوہر نکھرتے ہیں۔ لہٰذا ہر زبان کی شاعری میں درد کا مرتبہ آپ بلند پائیں گے۔ کیوں کہ غم زندگی میں ایک اساسی شے ہے اور یہ اساسی شے رابعہ کے اشعار میں بھرپور انداز میں موجود ہے اور اس کی اثرپذیر ی کی کوئی حد نہیں۔

رابعہ خضداری کے ہم عصر یا اس کے پیش رو فارسی شعراء نے اپنے کلام میں درد والم اور ناکامی و مایوسی کی جھلکیاں دکھائیں اور اس سلیقے سے دکھائیں کہ ان کی نظیر آج تک پیدا نہ ہوئی۔ لیکن رابعہ کے سوزوگداز میں ایک انفرادی رنگ ہے، جس کی تاثیر بے پناہ ہے۔ اس نے درد کے مضمون کو ایسا اپنایا کہ گویا وہ اس کا ہوگیا۔ رابعہ کا درد محض ایک انفرادی تجربے کا بیان ہی نہیں بلکہ اس کے یہاں درد ایک جمالیاتی قدر کا مرتبہ رکھتا ہے۔ اس کا سارا نظام تصورات درد کے محور پرقائم ہے اور اس درد میں ایک فلسفیانہ رنگ موجود ہے۔

خبر دہند بارسید برسر ایوب

از آسمان ملخاں و سر ہمہ زریں

اگر بیا رو زریں ملخ براد از صبر

سرد کہ بار دیر من یک مگسی روئیں

ترجمہ:

کہتے ہیں کہ حضرت ایوب کے سر پر آسمان سے ٹڈیوں کی ایسی بارش ہوئی کہ ان کا تمام سر سنہری ہو گیا۔

اگر صبرکے باعث ان پر آسمان سے سنہری ٹڈیوں کی برسات ہوئی تھی تو پھر یہ مناسب ہو گا کہ مجھ پر ایک سیسے کی ٹڈی برس جائے (یعنی میرے عشق کی شدت صبر سے ناآشنا ہے)

سچ تو یہ ہے کہ اس شعر کی باغت اورگہرائی بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشاعرہ نے اپنے قلم کی ایک خفیف سی جنبش سے جہانِ معنی پید ا کر دیا ہے جو مطلب اس شعر میں بیان کیا گیا ہے، اس کا اثر رابعہ کی فکر کے اعلیٰ ترین معراج کو ظاہر کرتا ہے۔

رابعہ خضداری کی عشقیہ شاعری کا رجحان مجاز ہے، لیکن انسانی ذہن و وجدان کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ مجاز و حقیقت کو ایک دوسرے سے بالکل جدا کرنا دشوار ہے۔ اہل نظر کو مجاز میں حقیقت کا پر تو نظر آتا ہے۔ معرفتِ الٰہی بغیر معرفت ِ نفس اور معرفت ِ کائنات کے ممکن نہیں۔

ہنگامہ ٔ ہستی کی کرشمہ سازیوں میں اور پری چہروں کے غمزو عشوہ و ادا اور ان کی شکن ِ زیف ِ عنبرین اور نگہ سرما سا میں اربابِ عرفان کیلئے تجلیات الٰہی کی جلوہ فرمائیاں موجود ہیں۔ لہٰذا رابعہ خضداری کی شاعری میں مجاز اور حقیقت دونوں کوکمال خوبی سے سمویا گیا ہے۔ رابعہ کی شخصیت کی طرح اس کے کلام میں بڑی وسعت ہے ۔ اس کی چشم سنانے حیات اور کائنات کو ہر ممکنہ نقطہ ٔ نظر سے دیکھا اور ان کی اس طرح ترجمانی کی کہ اس میں سب کچھ آگیا۔ مجاز اور حقیقت بھی، شرح ِ درد ِ اشتیاق بھی اور حسنِ کرشمہ ساز کی معجزہ نمائیاں بھی۔

رابعہ خضداری فرماتی ہیں: ترجمہ:

تیرے ہونٹ شہد ہیں اور رخسار چاند، تیر چہرہ لالہ ہے اور زلف سیاہ ہیں۔

آہ! ان رخساروں سے مجھے خوف آتا ہے۔

یہ بتیس دانے بیندھے ہوئے موتی ہیں اور لالہ کے دو پھولوں تلے ایک پتہ ہے آہ!

تیرے لالہ جیسے رخساروں نے میرا یاقوت جیسا رنگ سوکھی گھاس جیسا بنا دیا ہے۔

میرے اشک اولوں کی طرح صرف بدخواہوں کے طعنوں کے باعث برسے ہیں۔

کیوں کہ میرا جرم کوشش کے سوا اورکچھ نہ تھا۔ میری راہ اللہ کی راہ کے سوا کوئی دوسری نہ تھی۔

تاکہ وہ عشق سے میرا پورا وجود ’’ہو‘‘ بنا دے۔

مطلب یہ کہ رابعہ کے کلام کا بیشتر حصہ عشق حقیقی کی کیفیات پر مشتمل ہے اور کہیں کہیں بڑی دقیقہ اسی سے زندگی کی گتھیوں کو حکیمانہ انداز میں رمزو ایما کی زبان سے بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کا طرزِ ادا ہے، جس کو فارسی شاعری کیلئے سرمایہ ٔ نازش سمجھنا چاہئے۔ رابعہ کے پیش رو اکثر فارسی شعراء ایک ہی ڈگر پر چلتے رہے۔ جو لذت پرستی کی طرف مائل ہوا تو وہ کائنات میں سوائے اس کے اورکچھ دیکھتا ہی نہیں۔ 

جو اندوہ والم سے متاثر ہوا تو اسے حسرت و غم کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ لیکن زندگی تو بڑی وسیع شے ہے۔ وہ مسرت و غم سب پر حاوی ہے اور پھر ان سے بالاتر بھی ہے۔ رابعہ نے اس نکتے کو پالیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تنوع نظر آتا ہے۔ جواس کی ہمہ گیر شخصیت کا عکس معلوم ہوتا ہے۔ اس کے یہاں غم بھی ہے اور جوشِ جذبات بھی اور حکیمانہ نکتہ رسی بھی، تخیل کے نقش و نگار بھی ہیں اور حقائق و محسوسات کی ترجمانی بھی۔ پورا کلام ایسی دلآویز موسیقی میں رچا ہوا ہے۔ فرد ہی گوش کنا مبالغہ نہ ہوگا۔

ممتاز فلسفی والٹیئر کے آخری دو لفظ کتابوں میں محفوظ ہیں۔ یہ اس نے اپنے قریبی دوست بینجمن فرینکلن کے بیٹے سے کہے تھے۔ میرے نزدیک یہ دو لفظ رابعہ خضداری کی شاعری کا محور ہیں۔ اور یہ دو لفظ ہیں،’’خدا اور محبت‘‘۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔

نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی