کاروباری دنیا کی کارپوریٹائزیشن سے جہاں معاشرے کو دیگر کئی فوائد حاصل ہوئے ہیں، وہاں کاروباری دنیا میں خواتین کا کردار اُبھر کرنا آنا بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے بڑے فیصلوں میں خواتین نہ صرف شریک ہیں بلکہ ان کے فیصلوں اور مشوروں سے یہ کمپنیاں ترقی کی منازل بھی طے کررہی ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ ‘ کے مطابق دنیا بھر میں صنفی برابری کا خلا 68فیصد تک پُر ہوچکا ہے، تاہم ابھی بھی اس کو مکمل پُر ہونے میں مزید 108سال لگ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اگر سیاسی اور سماجی لیڈرشپ کی بات کی جائے تو ابھی دنیا کو طویل سفرطے کرنا ہے۔
رپورٹ میں 149ممالک کا احاطہ کیا گیا، جن میں سے 17ممالک کی سربراہ خواتین ہیں اور اگر وزیروں، مشیروں کا اوسط نکالا جائے تو عالمی سطح پر خواتین وزراء کی تعداد 18فیصد اور پارلیمان میں ان کی موجودگی 24فیصد ہے۔ اسی طرح ان ممالک کے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق صرف 34فیصد خواتین منیجرکے عہدہ پر تعینات ہیں۔
کچھ ممالک میں یہ صورتحال اور بھی خراب ہے جیسے کہ مصر، یمن وغیرہ، جہاں خواتین منیجرز کی تعداد7فیصد سے بھی کم ہے۔ ان ممالک کے دستیاب اعداد وشمار میں 29 ممالک ایسے ہیں، جہاں دفاتر میں خواتین، مَردوں سے دُگنا کام کرتی ہیں، لیکن انہیں معاوضہ مَردوں سے کم ملتا ہے۔ ان ممالک کے برعکس، ہمارے سامنے فِن لینڈ جیسے ملک کی مثال بھی موجود ہے، جہاں خواتین کو ہر لحاظ سے مَردوں کے مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہے۔ فِن لینڈ کی پارلیمان میں بھی خواتین کی اکثریت ہے۔
اگر جدید ٹیکنالوجی کے میدان کی بات کریں تو وہاں بھی خواتین اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے آگے آگے ہیں لیکن صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے وہاں بھی خواتین کو ابھی کئی سال لگ جائیں گے۔ ایک رپو رٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف 22فیصد خواتین مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ مرد حضرات کی تعداد78فیصد ہے۔ اس شرح سے صنفی خلا 72 فیصد بنتا ہے، جو گزشتہ کئی برس سے مستقل رحجان ظاہر کرتا ہے اور مستقبل میں بھی اس شرح میں اضافہ کا امکان نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مصنوعی ذہانت کے میدان میں اقتصادی سطح پر شمولیت اور مستقبل میں ملنے والے مواقع کی وجہ سے صنفی خلا بڑھ سکتا ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت میں بہت اعلیٰ پیمانے کے ماہرین کی ضرورت بڑھتی چلے جائے گی۔ دوسرا یہ کہ مصنوعی ذہانت کی مہارت کا مطلب ہے کہ بہت سارے میدانوں میں عمومی طور پر استعمال کی جانے والی اس ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہوئی، جس میں خواتین کی محدود شمولیت ہوئی ہے۔
تیسرا یہ کہ مصنوعی ذہانت کے ٹیلنٹ کے دائرے میں، یہاں تک کہ ان صنعتوں اور جغرافیائی خطوں میں جہاں آئی ٹی کی بنیادپر بھی خواتین کی شراکت زیادہ ہے، خواتین کی محدود شراکت کا مطلب یہی ہے کہ اس پیشہ ورانہ میدان میں ہم ان خواتین کی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے مواقع ضائع کررہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں پہلے ہی اصل ذہانتوں کی کمی کا سامنا ہے۔
جہاں کہیں بھی مصنوعی ذہانت، فِن ٹیک، ای کامرس اور ایچ آر کی بات ہو گی، اس کی ٹیم تنوع سے بھرپور ہوگی لیکن وہ کوئی بھی سیکٹر ہو، کتنا ہی ترقی کررہا ہو، وہ باصلاحیت خواتین کے بغیر ادھورا ہے۔ مطالعوں سے پتہ چلاہے کہ کسی بھی ادارے کی ایگزیکٹو ٹیم میں اگر خواتین ہوں تو وہ اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جہاں فیصلہ سازی میں خواتین کا کردار ہوتا ہے، ان کمپنیوں کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں کی گئی بہت ساری سائنسی تحقیقات یہ ظاہرکرتی ہیں کہ وہ لوگ جو مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے اور مختلف طبیعت کے مالک ہوتے ہیں وہ زیادہ تخلیقی، محتاط اور محنتی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2012ء میں، کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے 2005ء سے لے کر2011ء تک ان 2400 کمپنیوں کی کارکردگی پر تحقیق کی، جن میں ایک بھی خاتون بورڈ ممبر نہیں تھی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ 6سال کے عرصے میں جس بورڈ میں کم سے کم ایک خاتون ممبر تھیں، اس کمپنی نے 26فیصد بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، بنسبت ان کمپنیوں کے جہاں خواتین موجود نہیں تھیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کمپنیوں میں لیڈرشپ پوزیشن پرزیادہ خواتین موجود ہوں تو مختلف اذہان کے فیصلے ان کمپنیوں کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ خواتین فیصلہ کرنے، مزید خواتین کو ملازمت پر رکھنے اور ان کی تربیت کرنے میں زبردست معاون ثابت ہوتی ہیں۔
2016ء میں 91ممالک کی 21 ہزار 980فرمز کا سروے کیاگیا، جس سے پتہ چلا کہ لیڈر شپ پوزیشن پر خواتین کی قلیل تعداد موجود ہے۔ ان کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ وہاں کارپوریٹ لیڈرشپ پوزیشنز پر خواتین کی بہتر نمائندگی سے ان فرمز کی کارکردگی میں اضافہ اور زائد منافع حاصل کیا جاسکتا تھا۔
یہ ایک محدود دائرہ کار کی نشاندہی کرتا مطالعہ تھا، جس میں اس مخصوص تعلق کی صحیح نشاندہی نہیں کی گئی تھی کہ آیا یہ منافع خواتین کے مختلف تخلیقی اذہان، مہارتوں اور بہتر فیصلہ سازی کی وجہ سے ہوتا ہے یا اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔