• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدیم دور سے سندھ کے عرب ممالک سے تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ عرب تاجر ہزاروں سال پہلے سندھ کے ساحلی شہروں میں آتے تھے اور یہاں کی مقامی پیداوار اور مصنوعات کو مصر اور شام کے ذریعے یورپ تک پہنچاتے تھے۔ ان کے بحری بیڑے خلیج فارس کے ساحلوں سے گزر کر سندھ کی سب سے بڑی بندرگاہ دیبل پہنچتے تھے نہ صرف یہ بلکہ عرب ممالک میں بڑی بڑی تجارتی منڈیاں لگتی تھیں، جن میں سندھ کے تاجر اپنا تجارتی سامان لے جاتے تھے اور پھر اس سامان اور مال کے بدلے عرب ممالک کی اشیاء خریدتے تھے۔

جب عربستان میں چار بہت بڑی تجارتی منڈیاں لگتی تھیں: ابلہ، صحار، جار اور عدن ان چاروں منڈیوں میں سندھ کی مختلف اشیاء کی بڑی مانگ ہوتی تھی۔ لہٰذا ان کاروباری تعلقات کی بناء پر سندھ کی کئی اقوام عرب میں جاکر آباد ہوئی تھیں۔ حضور ﷺ کے دور میں عربستان کے اندر سندھ کی مختلف اقوام، جماعتوں، نسلوں، فرقوں اور اشیاء کا ذکر ملتا ہے۔ جب کہ عرب لوگوں نے اپنی عربی زبان میں مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔

مثلاً زط یعنی سندھی جت، اساورہ، سیابجا،مید، بیامرہ اور تکاکرہ یعنی ٹھاکر بہت مشہور ہیں۔ کسی بھی ملک یا خطے کے لوگوں کو اتنے سارے ناموں سے یاد کرنے یا پہچاننے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عربستان میں کثیر تعداد میں آباد تھے اور مشہور بھی تھے۔ جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب میں پھیلی تو عرب لوگوں کی طرح وہاں مقیم سندھی لوگ بھی یا تو مسلمان ہوئے یا پھر جزیہ دے کر اپنے دین پر قائم رہے۔

میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الکرام‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’سندھ پر یہ نام حام بن نوح علیہ السلام کے فرزند ’’ہند‘‘ کے بھائی ’’سندھ‘‘ کے نام کے پیچھے رکھا گیا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آزاد بلگرامی اپنی کتاب’’ عرب وہند کے تعلقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے’’سندھ‘‘ کے یہاں رہنے اور پھر اس خطے کا نام ’’سندھ‘‘ کا بے حد احترام فرماتے تھے۔ اس لئے آپ ﷺنے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’مجھے سندھ کی طرف سے ربانی خوشبو آرہی ہے۔‘‘

یہ حدیث بلاشبہ ضعیف درجے سے بالاتر نہیں، لیکن اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ، آپ ﷺکے صحابۂ کرامؓ اور اس حدیث کے راوی سند ھ، سندھی لوگوں اور یہاں کی اشیاء سے بے خبر ہرگزنہ تھے۔

دس ہجری میں حضرت خالد بن ولید ؓ نجران سے بنو حارث کا ایک وفد لے کر حضورﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ اس وفد میں قیس بن معین، ذی الفصہ، یزید بن عبدالمذان، یزید بن مجمل، عبداللہ بن قرار، شداد بن عبداللہ قناتی اور عمر بن عبداللہ ضبابی شامل تھے۔ رسول اللہﷺ نے جب اس وفد میں شامل ان لوگوں کو دیکھا تو فوراً فرمایا۔ (یہ تو سندھی لوگ ہیں)

یہاں ان اشیاء کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ جن کو حضورﷺ نے استعمال کیا۔ نوش فرمایا یا پہنا۔

مشک، سندھ کی مشہور خوشبو ہے، جو سندھ سے عربستان پہنچی۔ عرب میں اس کا خاص مرکز یا منڈی بحرین کی بندرگاہ تھی۔آپ ﷺ آسودہ بخش طبیعت کے مالک تھے۔ خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپﷺ جب بھی باہر جاتے تھے تو مشک لگا کر جاتے تھے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ سے حضور ﷺ کے خوشبو لگانے کے بارے میں پوچھا گیا توجواب ملا ’’آپ ﷺمشک کی خوشبو استعمال فرماتے تھے۔‘‘

مشک کی خوشبو بہت دیرپا ہوتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ بھی بڑے شوق سے استعمال کرتے تھے۔ یہ خوشبو ہرن کے ناف سے حاصل کی جاتی ہے۔ چونکہ سندھ کے صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں ہرن کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے، لہٰذا ان سے مشک حاصل کرکے عربستان میں فروخت کی جاتی تھی۔

قسط ِ شیریں (جسے سندھی میں میٹھی کاٹھی کہا جاتا ہے) سندھ کی ایک مشہور لکڑی ہے۔ اسے عربی زبان میں قسط، قط، کست یا کشت کہا جاتا ہے۔ اس لکڑی کو کئی ایک احادیث مبارکہ میں عودِ سندھی کہا گیا ہے۔ حضورﷺ کی بعثت کے وقت اس لکڑی سے کئی امراض کا علاج کیا جاتا تھا اور بعد میں حضورﷺ نے اس لکڑی کو دوا کے طور پر استعمال کیا اوراسے بار بار استعمال کرنے کی تاکید فرمائی۔ یہ میٹھی لکڑی سندھ سے عرب ممالک میں بڑی مقدار میں بھیجی جاتی تھی۔ 

صحیح بخاری میں قسط شیریں کے عنوان کے تحت ایک باب ’’باب السقوط با القسط السندی البحری وہواالکست‘‘ درج ہے۔ اس باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ام قیس ؓ نے کہاکہ میں اپنے ایک لڑکے کو لے کر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی ،میں نے اس کی ناک میں بتی ڈالی تھی، اس کا حلق دبایا تھا۔ چونکہ اسے گلے کی بیماری ہوگئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے بچے کو انگلی سے حلق دبا کرکیوں تکلیف دیتی ہو۔ یہ عودسندی لو۔ اس میں سات بیماریوں کی شفاء ہے ،ان میں ایک ذات الجنب (پسلی کا ورم) بھی ہے۔ اگر حلق کی بیماری ہو تو ا س کو ناک میں ڈالو، اگر ذات الجنب ہو تو حلق میں ڈالو(لدود کرو) یعنی اسے ’’چبائو‘‘(صحیح بخاری596)

سندھ کا شہد بھی سندھ سے عربستان میں پہنچا۔ عہدِ رسالتﷺ میں عرب لوگ شہد کی بہت زیادہ مقدار سندھ سے منگواتے تھے۔

سندھ میں شہد اتنی زیادہ مقدار میں ہوتی تھی کہ عرب تاجر سندھ کی شہد کے تین من ایک درہم میں خریدتے تھے۔ آپ ﷺ نے شہد کو بے حد افضل قرار دیا ہے اورآپ ﷺ خود بھی شہد بڑی رغبت سے استعمال کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نےسندھ کے شہد کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ جو آدمی ہر ماہ ایک دفعہ شہد استعمال کرے گا، وہ ستر بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔‘‘

نبی کریم ﷺکے دور میں یمن سندھ کے کپڑے کی سب سے بڑی منڈی تھی، جہاں سے سندھی کپڑا حجاز، عراق، شام اور دوسرے عرب خطوں تک پہنچتا تھا۔ یہ کپڑا چادر کی صورت میں ہوتا تھا، اس چادر کو ’’بردِ سندی‘‘ کہا جاتا تھا، یعنی سندھی اجرک۔

سندھ کے عظیم محدث، محقق اور فقیہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے اپنی کتاب ’’بن القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’سن 10 ہجری میں فروہ بن عصرالجذامی نے اسلام قبول کیا۔ وہ روم کے بادشاہ کی طرف سے شام کے ایک خطے بلقاء کے عامل مقرر تھے۔ اس نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں اپنے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ایک خط کے ذریعے ارسال کی، خط کے ساتھ ’’سندس‘‘ کی ایک چادر بھی آپ ﷺکو تحفتاً بھیجی گئی۔ دورِ جدید کے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ’’سندس‘‘ سندھ کے پتلے اور نرم کپڑے ململ، کو کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے جس چادر کا تحفہ قبول فرمایا، وہ سندھ کے بے حد نفیس اور عمدہ کپڑے سے بنی ہوئی تھی۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی