• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو شعریات اور اس کی جمالیات کے پس منظر میں سیرتِ مطہرہ کی تفہیم اور عشقِ رسولﷺ کا جذبہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یوں تو یہ بات قدرے وسیع تناظر میں پوری اردو تہذیب کے ضمن میں اصول کا درجہ رکھتی ہے اور اس کا اطلاق اردو زبان و ادب ہی پر نہیں، بلکہ اس تہذیب کے زیرِ اثر فروغ پانے والے دوسرے فنون میں بھی من حیث الجموع نظر آتا ہے۔

اردو زبان و ادب کی ترویج، اس کی اثر آفرینی اور تہذیبی اظہارات کے اعلیٰ ترین درجوں میں اپنا نقش قائم کرنے والی عشقِ رسولﷺ کی یہ روایت اس لحاظ سے بھی بے حد دل چسپ، معنی خیز اور فکر انگیز ہے کہ اس باب میں ہمیں جن شعرا کے نام ملتے ہیں وہ سب کے سب مسلمان نہیں ہیں، بلکہ اُن میں ہندو اور سکھ شعرا بھی نظر آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک طرف ہند اسلامی تہذیب کی اعلیٰ انسانی اقدار کی قوت کا اظہار ہے کہ جن کے اثر و نفوذ کا دائرہ اُن کی انسانی اپیل پر بنتا اور وسعت پاتا ہے۔ 

دوسری طرف یہ نکتہ اس تہذیب کے فروغ اور اصولِ نمو کو سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے کہ اس زبان اور اس کے ادب نے تعصبات سے بالاتر ہو کر کس طرح انسانی دلوں تک رسائی حاصل کی۔ برصغیر کا سماجی منظر نامہ ماضیِ قدیم سے کثیر القومی اور کثیر المذہبی رہا ہے۔ ایسی صورت میں کسی ایک زبان اور کسی ایک تہذیب کے فروغ کی یہ صورت کہ اس میں مختلف قوموں اور جدا مذہبی شناخت رکھنے والے تخلیق کار یکساں ذوق اور جذبے کے ساتھ مصروفِ کار نظر آئیں، صرف اُسی وقت ممکن ہے جب اُس کے مرکز میں وہ جوہر کار فرما ہو، جو تمام عصبیتوں سے بالاتر ہو کر انسانی اقدار پر اصرار کرتا ہو اور انسانی کردار کی تشکیل کے لیے ایسا عملی نمونہ پیش کرتا ہو جس کی اپیل پوری قوت کے ساتھ جذب و انجذاب کے دوسرے تمام ضابطوں پر حاوی ہو کر دلوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ عشقِ رسولﷺ کا یہ عنصر اردو زبان اور اس کی تہذیب کے فروغ میں غیر مسلم شعرا کے یہاں اسی انداز سے اظہار پاتا ہے۔

برِصغیر کے جغرافیائی تناظر میں ہند اسلامی تہذیب کی نمو اور فروغ کا یہ عمل جس طرح سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلافات سے بالاتر ہو کر سامنے آتا ہے، وہ بجائے خود ایک جہانِ فکر و تدبر کی مثال ہے اور اس تہذیب میں عشقِ رسولﷺ کا تو معاملہ ہی الگ ہے ایک ایسا منفرد، دل کشا اور بصیرت افروز معاملہ کہ جس کی دوسری کوئی مثال تو رہی ایک طرف، محض ایسا کوئی کنایہ بھی تاریخ و تہذیبِ عالم کے باب میں ہمیں کہیں اور دکھائی تک نہیں دیتا۔ 

اس لیے کہ عشقِ رسولﷺ کا معاملہ بادی النظر میں اپنی ایک مذہبی اساس رکھتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کے سماج میں صرف مسلمان شعرا نہیں، بلکہ اُن کے ساتھ ہندو اور سکھ شعرا بھی اپنی طرز کے والہانہ پن کے ساتھ فکری اور تخلیقی سطح پر عشقِ رسولﷺ کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اُن کے ہاں عشقِ رسولﷺ کے inspiratiion کی بنیادیں کہاں اور کیسے قائم ہوئی تھیں؟ اس جذب و کیف کو ان کے یہاں اظہار کی سطح تک لانے میں کون سے نمایاں خارجی محرکات اس تہذیب کے سماجی دائرے میں کارفرما تھے؟ غیر مسلم شعرا کے اس رویّے نے اس عہد کی مخلوط معاشرت کو کیا پیغام دیا اور اس دور کے تہذیبی روّیوں کی صورت گری میں کیا کردار ادا کیا؟ یہ غور طلب سوالات ہیں اور ان کے جوابات سیاسی اور مذہبی تناظرات کو پیشِ نظر رکھے بغیر گہری معنویت کے حامل نہیں ہو سکتے۔

اردو غزل نے عشقِ رسولﷺ کا جب اور جس قرینے سے اظہار کیا ہے، اس میں شاعر کے شخصی رُجحان سے کہیں زیادہ ہمارے تہذیبی رُجحان نے اس کی کفالت کی ہے، لہٰذا یہ دراصل ہمارے اجتماعی لاشعور اور تہذیبی داعیے کا ظہور و اثبات ہے۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ غزل کا ایسا شعر کہتے ہوئے شاعر کو معلوم تک نہ ہو کہ وہ نعت کی سرحد میں داخل ہو رہا ہے، اور بعد میں وہ خود یا اُس کا کوئی قاری اس حقیقت کو شعور کی حدِ ادراک پر دریافت کرے۔(میر)

آنکھ اُس سے نہیں اُٹھنے کی صاحب نظروں کی

جس خاک پہ ہوگا اثر اس کی کفِ پا کا

نقشِ قدم سے اُس کے ، گلشن کی طرح ڈالی

گردِ رہ اُس کی لے کر سروِ رواں بنایا

غالب کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے

زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

مصحفی کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:

خوب رُو دیکھے ہزاروں گرچہ اپنی عمر میں

آج تک ہم نے ولے تجھ سا نہ دیکھا آدمی

اقبال کے یہاں تو غزل کے رواں دواں پیرایے اور ایسے صاف لب و لہجے میں نعت کے شعر آتے ہیں کہ شاعری سعادت کے اعلیٰ ترین درجے پر نظر آتی ہے:

وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولاے ُکل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ

بیس ویں صدی کے شعری سرمایے سے رجوع کرتے اور خالص غزل کی روایت میں نعتیہ رُجحان کی ایک جھلک دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں: (حسرت)

سیہ کار تھے با صفا ہوگئے ہم

ترے عشق میں کیا سے کیا ہوگئے ہم

…٭٭……٭٭……٭٭…

سیکھی یہیں مرے دلِ کافر نے بندگی

ربِ کریم ہے تو تری رہ گزر میں ہے

(فیض)

دلوں کو مرکزِ اسرار کر گئی جو نگہ

اُسی نگہ کی گدائی کا وقت ہے کہ نہیں

(عزیزحامدمدنی)

فروغِ اسمِ محمد ہو بستیوں میں منیرؔ

قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو

(منیر نیازی)

مسافرانِ جنوں گرد ہوگئے لیکن

کھلا نہیں کہ تری رہ گزر کہاں تک ہے

(سلیم کوثر)

ایک مسلمان کی زندگی میں کردار کا سب سے بڑا آئیڈیل، رسولﷺ کی صورت میں ہوتا ہے۔ آپﷺ سے محبت اپنی جگہ بڑی چیز ہے اور اس کے ساتھ ایک اور بڑی چیز اس آئیڈیل کے اتباع کی شدید آرزو ہے۔ یوں ایک عام مسلمان کا رسول اﷲﷺ سے رشتہ دراصل انسانی رشتے کی معراج بن جاتا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ عام آدمی بھی فعال کردار اور حساس رویے کے ساتھ سامنے آتا ہے، جس کے روز مرہ معمولات میں عملی مذہبی زندگی کا رُجحان کم کم دکھائی دیتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عام آدمی سے لے کر اہلِ نظر اور اہلِ فلسفہ ہی نہیں، بلکہ قلندروں اور خاص طور پر ملامتی فرقے اور ترک کی منزل کے صوفیہ تک کے یہاں ذاتِ الٰہیہ کے سلسلے میں تو بے احتیاطی یا بے نیازی دیکھی جاسکتی ہے، لیکن کیا مجال جو محض نام کا ایک مسلمان بھی حرمتِ رسولﷺ کے معاملے میں غافل یا بے لحاظ مل جائے۔ اصل میں:

باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار

نعتیہ شاعری میں ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں سیرت و کردار کا بیان نعت بن گیا ہے تو کہیں آپﷺ کی تعلیمات کے بیان نے نعت کا پیرایہ اختیار کرلیا ہے اور کہیں کسی آیتِ قرآنی اور حدیث کے ٹکڑے سے نعت کا مضمون وضع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی حقائق اور اجتماعی تہذیبی احساس کے رنگوں سے بھی نعت کا بیانیہ آراستہ کیا گیا ہے۔ اس سے نعت کی معنوی وسعت کا ہی اندازہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ اس باب میں جذبۂ اظہار کی فراوانی کا بھی پتا چلتا ہے۔

اُس کا پیامِ انس و مواخات، روحِ دیں

اس کا نظامِ عدل و مساوات، جانِ خیر

(حفیظ تائب)

اردو زبان و ادب کی تہذیب کا سب سے بلیغ، مؤثر اور ارفع سطح پر اظہار غزل کے اسلوب میں ہوا ہے۔ عشق، وابستگی، جذب و شوق، سرشاری، مہجوری، نسبت، افتخار، انبساط، ذوقِ بیاں، عرضِ حال غزل کے جتنے قرینے ہیں، انھیں مجاز کی سطح سے اٹھا کر حقیقت کے درجے میں دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غزل اور نعت میں عجب امتزاج اور ارتباط پایا جاتا ہے۔ عشقِ رسولﷺ کی ہماری تہذیب کے اس کنایے (غزل) پر ایسی چُھوٹ پڑتی ہے کہ احساس کے منطقے اور اظہار کے خطّے دور تک مہکتے اور جگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔

غزل نے مجاز (کے باب میں جذباتی کیفیات) کا اور نعت نے حقیقت (کے باب میں روحانی احساسات) کا جس طرح احاطہ کیا ہے، وہ دونوں کی اپنی اپنی کامیابی کا ثبوت تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی اس تہذیب کا اختصاص بھی ہے کہ جو اپنے افراد کی زندگی میں فکر و احساس کے دونوں رُخ منور رکھتی ہے۔ غزل نے ہمارے دل کی دھڑکنوں کو گنا ہے تو نعت نے ہماری روح کے وجد آفریں نغمے سے انھیں ہم آہنگ کیا ہے۔ اس لیے کہ عشقِ رسولﷺ ہمارے دل کی آواز اور ہماری روح کی پکار ہے۔ اسی صدا کا اُجالا ہماری تہذیب، زبان، ادب، سماج، فکر اور دل کے سارے گوشوں کو منور رکھتا ہے۔ 

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی