انتظامی لحاظ سے پاکستان صوبوں، ڈویژنوں، اضلاع اور تحصیلوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ انگریزوں نے ملکی نظم و نسق کو چلانے کیلئے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع کے نظام کو تشکیل دیا تھا۔ سب سے پہلے چارلس نیپیئر نے صوبہ سندھ کو تین اضلاع میں تقسیم کیا، اس زمانے میں جو اضلاع بنائے وہ (1)۔ کراچی(2)۔حیدر آباد(3)۔شکار پور تھے۔ ان کا قائم کیا ہوا اضلاع کا انتظام ہم نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد اضلاع میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج پاکستان میں )6؍ ستمبر2022ء) تک پاکستان میں اضلاع کی کل تعداد 135ہو چکی ہے۔ اس ہفتے ’’ٹھٹھہ‘‘ کے بارے میں ملاحظہ کریں۔
ٹھٹھہ سندھ کا تاریخی شہر کہلاتا ہے۔ اس ضلع میںتاریخ سندھ کے اہم باب منسوب ہیں۔ ضلع کو سندھ کی تاریخ میں اپنی علمی، تہذیبی و ثقافتی برتری کے سبب بغداد، سمرقند اور دمشق کا ثانی شہر کا لقب ملا۔ یہ شہر چار سو سال تک سندھ کا دارالخلافہ رہا۔ برصغیر پاک و ہند کی بے شمار ہستیوں کا تعلق اسی شہر سے رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ایران، عرب، عراق، شام، چین اور ہندوستان کے قافلے یہیں سے گزرتے تھے ، یہاں کے محلات، دربار اور شہر میں قیام ان کو اپنا وطن بھلا دیتا تھا۔
ضلع کا رقبہ 7705؍کلومیٹر اور آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 979817؍افراد پر مشتمل ہے۔ ضلع سے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ 0298 سے ہوتا ہے، شہر کا پوسٹل کوڈ73110 ہے۔ ضلع ٹھٹھہ کے مشرق میں ٹنڈو محمد خان ،صلع بدین کے اضلاع اور بھارت کی سرحد ملتی ہے۔ جنوبی سرحد بحیرئہ عرب اور بھارتی سرحد سے منسلک ہے۔ مغرب میں کراچی اور ضلع دادو ملتا ہے، شمال میں بھی دادو کی سرحد ملتی ہے۔ ضلع کا عرض بلد 67؍تا 69؍اور طول بلد 23؍تا 24؍پر واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سندھ کا دوسرا بڑا ضلع ہے۔ ضلع ٹھٹھہ چار تعلقوں (تحصیلوں) پر مشتمل ہے ،جن میںٹھٹھہ تعلقہ ,میرپور ساکرو،گھوڑا باری اورکیٹی بندرشامل ہیں۔
ضلع میں 97؍فیصد مسلم آبادی جبکہ 3؍فیصد اقلیتیں ہیں۔ 96فیصد سندھی ،جبکہ چار فیصدپنجابی اور اردو بولی جاتی ہے۔ مختلف اقوام آباد ہیں جن میں سومرو، پلیجو، میمن، میر، بحر ملاح، جوکھیو، جتوئی، بھبھرو، جت، ابڑو، شورو، ملکانی، بروہی، جھاکھرو، جلبانی، چارن، قاضی، باران، پیرزادہ، شیرازی، کمبر، کھتری وغیرہ شامل ہیں۔ آب و ہوا کے لحاظ سے اوسط8.3؍انچ سالانہ ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پنجاب سے داخل ہونے والا دریائے سندھ ضلع ٹھٹھہ کے مقام پر آکر بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ صنعت و حرفت کے لحاظ سے ٹھٹھہ میں گھارو کے مقام پر ایک انڈسٹریل ایریا قائم کیا گیا ، یہاں پر کپڑے کے کارخانے، پیپر ملز، ٹھٹھہ سیمنٹ فیکٹری، ٹھٹھہ شوگر ملز اور جھوک میں اہم صنعتی یونٹ قائم ہیں۔ ٹھٹھہ شوگر ملز ٹھٹھہ سے 10؍کلومیٹر دور اور سیمنٹ فیکٹری 20؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ انڈسٹریز ٹھٹھہ کی صنعتی ترقی میں روزبروز اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
ٹھٹھہ کو بھنبھور ڈویژن کا صدر مقام 23؍اپریل 2014ء کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے بنایا۔ یہی ٹھٹھہ ڈویژن بھی کہلاتا ہے۔ یہ سندھ کا چھٹا ڈویژن بنا۔ اس ڈویژن کے اضلاع میں بدین، ٹھٹھہ اور سجاول کے اضلاع شامل کئے گئے ہیں۔ کھیلوں میں ٹھٹھہ فٹ بال کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں ایک ’’ایسوسی ایشن فٹ بال کلب‘‘ 2020ء میں حکومت سندھ نے فٹ بال کی ضلع میں ترویج و ترقی کیلئے بنائی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق ضلع ٹھٹھہ میں کل ووٹرز کی تعداد 440327؍ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 242132؍اور خواتین ووٹرز 198195؍ہیں۔
سیاسی لحاظ سے سندذھ کے ضلع ٹھٹھہ میں کئی سیاسی خانوادے (وڈیرے) ہیں جن میں ضلع ٹھٹھہ میں آباد شیرازی خاندان جن کا تعلق مشہور سادات خاندان سے ہے۔سیاسی رہنمائوں میں مشہور حاجی محمد عثمان خان جلبانی، اعجاز علی شاہ شیرازی، شفقت حسین شاہ شیرازی، ارباب وزیر احمد میمن، ایاز علی شاہ شیرازی۔ مونسپل کمیٹی ٹھٹھہ کے سابق چیئرمین مظفر حسین شاہ شیرازی شامل ہیں۔ 2015ء کے لوکل آبادی الیکشن میں ڈسٹرکٹ کونسل ٹھٹھہ کے چیئرمین میرپور ساکرو کے جناب غلام قادر پلیجو منتخب ہوئے۔ ضلع ٹھٹھہ میں کل 55؍یونین کونسلز ہیں۔
قومی اسمبلی میں ضلع ٹھٹھہ کی ایک نشست این اے۔232 ہے، جس کی ایم این اے 2018ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کی محترمہ شمس النساء ہیں۔آمدورفت کے لحاظ سے ضلع ٹھٹھہ اپنے تمام قریبی اضلاع سے سڑکوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ یہاں ہر قسم کی آمدورفت کا ذریعہ بسیں ہیں۔ ٹھٹھہ سے قریب ترین ریلوے اسٹیشن جنگ شاہی ہے جو ٹھٹھہ شہر سے چند کلومیٹر دور ہے۔ نیا ٹھٹھہ ایک خوشحال ضلع ہے۔
زرعی اعتبار سے کافی زرخیز ہے۔ یہاں کپاس، گنا، کیلا، گندم اور چاول اہم زرعی پیداوار ہیں۔ خطے میں گنا کافی مقدار میں اگتا ہے چونکہ ٹھٹھہ شولر مل اور ضلع کے اردگرد شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی بڑی مقدار میں جاتی ہے۔ ضلع ٹھٹھہ معدنی اعتبار سے بھی مالا مال ہے۔ مکلی کے قریب تقریباً 20؍کروڑ ٹن چونے کے ذخائر کی دریافت ہوئی ہے یہ چونا پاکستان اسٹیل ملز کے کام آتا رہا ہے اور آتا رہے گا۔ جھمپیر کے قریب ڈولومائٹ کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ بھی فولاد کے کارخانے میں استعمال ہونے کے کام آئے گا۔
علم و ادب کے حوالے سے ضلع ٹھٹھہ سندھ کے دوسرے اضلاع کی نسبت زیادہ آگے رہا ہے۔ اس کی وجہ دوردراز علاقوں یعنی برصغیر اور عرب سے صوفی اور بزرگ ٹھٹھہ میں آکر آباد ہوگئے اور یہاں علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ اسی شہر میں رہے اور قدیم مکلی کے قبرستان میں ہی آسودئہ خاک ہوئے۔ ضلع میں کئی لائبریریاں ہیں جن میں مشہور محمد بن قاسم لائبریری، چانڈیہ پبلک لائبریری، الوحید لائبریری مشہور ہیں۔ ٹھٹھہ کے ادیبوں میں مشہور سندھی افسانہ نگار شوکت حسین شورو اور مشتاق شورو گزرے ہیں۔ سندھی شعراء میں مشہور محمد خان مجیدی، سرویج سجاولی، پیر بخش پیاسی، لہر کٹھیوی، مریم مجیدی، سندرالدین ھنگورجہ اور ھم غم جوکھیو مشہور ہوئے۔
ٹھٹھہ کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسلام سب سے پہلے اس خطے میں پھیلا اور پہلی مسجد بھی یہیں قائم ہوئی۔ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان مکلی بھی اسی ضلع میں واقع ہے ۔ بڑے بڑے بزرگ، حکمران، سپہ سالار، بادشاہ یہاں مدفون ہیں۔ اس قبرستان میں کئی خاندان حکمران سمہ سمرہ، تغلق، مغل، کلہوڑہ، سومرو، ارغونونؒ و ترخان بھی مدفون ہیں۔ ٹھٹھہ شہر کو چار خاندانوں نے اپنا پایہ تخت بنایا جن میں سمہ، سومرو، ارغون تو ترخان اور مغل شامل تھے۔ ٹھٹھہ کے بازاروں میں مرزائی بازار، گودڑی بازار، گوا بازار، غلہ بازار، بازار امیر بیگ اور بازار قصاباں مشہور ہیں۔ ٹھٹھہ میں پرانی حویلیاں مشہور ہیں جن میں خسرو خان کی حویلی، عرب کوکی کی مسجد، خشتی حویلی، قاضی ابراہیم کی حویلی، مرزا فتح علی بیگ کی حویلی اور مرزا عظیم الدین کا بنگلہ شامل ہیں۔
ٹھٹھہ کے چوراہے بہت مشہور ہیں جن میں چوک ملک خان، چوک عبدالغنی، میدان حمل پیر شامل ہیں۔ ٹھٹھہ میں کئی تاریخی باغات بھی ہیں جن میں باغ خواجہ میر ابوتراب، باغ میر سید ثانی، شیرازی کے باغات، خورشید باغ اور سقوں کا باغ مشہور ہیں۔یہاں کی جھیلیں مشہور ہیں۔ ان جھیلوں میں کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل زیادہ مشہور ہیں۔ ٹھٹھہ کی 82؍فیصد آبادی دیہات اور 19؍فیصد شہروں میں رہتی ہے۔ ضلع ٹھٹھہ کے اور تفریحی مقامات میں شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ، مکلی کا قبرستان، کیٹی بندر اور ہڈیری جھیل شامل ہیں۔ یہاں سندھ کے دوردراز علاقوں سے ان تفریحی گاہوں کی سیر کرنے آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ٹھٹھہ میں 8؍ریلوے اسٹیشن ہیں جن میں بھولاری، جنگ شاہی اور جھمپیر قابل ذکر ہیں۔ٹھٹھہ میں کئی تعلیمی ادارے جن میں مشہور اسکول آف اسپیشل ایجوکیشن، گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس، نرسنگ اسکول اینڈ ہاسٹل مکلی، ایم ایس اے ایم ایس آرمی پبلک اسکول ٹھٹھہ، دی نیوی گیٹر سائنس اسکول اینڈ کالج ٹھٹھہ، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، سندھ پبلک بوائز کالج ٹھٹھہ، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کنری، بحریہ فائونڈیشن کالج عمرکوٹ (بائی پاس)، گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کنری شامل ہیں۔ضلع ٹھٹھہ میں ڈپٹی کمشنر آفس، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت، ایف بی آر کا ریجنل آفس، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس اور دیگر سرکاری اور نیم سرکاری عمارات قائم ہیں۔ آج کا ٹھٹھہ ایک مرتبہ پھر خوشحالی اور ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اللہ کرے یہ ضلع دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ آمین!