• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تک ہم نے یہی سنا تھا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں لیکن ملک کی مختلف سڑکوں پر موٹر گردی کر کے پتا چلا ہے کہ یوٹرن بھی اچھے ہوتے ہیں۔عام طور پر ناک کی سیدھ میں چلنے والوں کو نہایت شریف آدمی سمجھا جاتا ہے لیکن اب شرافت کا زمانہ نہیں رہا اس لیے ناک کی سیدھ میں چلنے والوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔اب وہ شخص زیادہ عقل مند خیال کیا جاتا ہے جو اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یوٹرن لے لیتا ہے۔پرانی داستانوں میں پیچھے مڑ کر دیکھنے والے کردار پتھرکے ہو جایا کرتے تھے لیکن اب پیچھے دیکھنا ہی نہیں بلکہ پیچھے مڑ جانا بھی منزل کو مزید قریب کر دیتا ہے۔سڑک پر ہر شخص اپنی بائیک اور گاڑی کے دو یا چار پہیوں کو بھگائے پھرتا ہے اس لیے ہر شخص کی زندگی میں ہر روز کتنے ہی یوٹرن آتے ہیں۔کبھی یہ یوٹرن مجبوراً لیے جاتے ہیں اور کبھی ضرورتاً۔آپ اچھے بھلے سڑک پر جارہے ہوتے ہیں،آپ کی منزل آپ کے دائیں طرف آپ کی منتظر ہوتی ہے لیکن آپ وہیں سے اپنی منزل کی طرف نہیں جا سکتے کیونکہ بیچ میں’’ظالم سماج‘‘ کی ایک مضبوط اور بلند و بالا دیوار ہوتی ہے جس میں سے آپ کی گاڑی گزر سکتی ہے نہ خود آپ کا وجود۔چنانچہ آپ کو ایک آدھ کلومیٹر مزید ناک کی سیدھ میں چلنا پڑتا ہے۔تب کہیں جا کر یوٹرن آتا ہے اور آپ واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں اور منزل کے قریب جا نکلتے ہیں۔ایسا یوٹرن آپ کو’’ مجبوراً‘‘ لینا پڑتا ہےکیونکہ اس کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا ۔ میں 1988 میں پہلی بار ٹرین کے ذریعے ملتان سے کوئٹہ گیا تو میری ٹرین نے سبی سے یوٹرن لیا تھا اور مجھے اور میری طرح پہلی بار اس روٹ پر سفر کرنے والوں کو شدید حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ہوا یہ تھا کہ ٹرین کچھ وقت کے لیے سبی کے ریلوے اسٹیشن پر رُکی۔میرا خیال تھا کہ یہ اب ناک کی سیدھ میں چلے گی اور کچھ دیر میں کوئٹہ پہنچ جائے گی لیکن اچانک ٹرین نے پیچھے کی طرف رینگنا شروع کر دیا۔

میں سمجھا کہ شاید ٹرین کسی وقتی ضرورت کے تحت پیچھے کی طرف رینگ رہی ہے اس لیے میں پلیٹ فارم پر کھڑا گرما گرم چائے کی چسکیاں لیتا رہا ۔میرے ایک ہم سفر کی آواز آئی: ’’بھاگو! جلدی اندر آئو۔ٹرین جا رہی ہے۔‘‘ مجھے اس کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ ٹرین جدھر سے آئی تھی، اپنی اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے ادھر ہی کیسے جا سکتی تھی؟جب ٹرین نے کچھ رفتار پکڑ لی تو مجھے اپنے ہم سفر کی بات پر یقین آیا اور چائے کا ڈسپوزل کپ پھینک کر تیزی سے ٹرین میں سوار ہو گیا۔ نشست پر بیٹھ گیا تو میرے ہم سفر نے بتایا کہ سبی ایک بڑا جنکشن ہے یہاں سے ٹرین کا انجن سب سے پہلی بوگی سے اتار کر پچھلی بوگی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور ٹرین آب گم سے ہوتی ہوئی کوئٹہ کی طرف دوڑنے لگتی ہے۔ موٹر گردی کرتے ہوئے بہت سے بائی پاسز سے بھی گزرنے کا اتفاق ہوا۔ بائی پاس ایک بے وفا قسم کی چیز ہے۔آپ اچھے بھلے اپنی منزل کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ایک نئے شہر کے نام کا بورڈ پڑھتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ چلو ایک نئے شہر کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی دیکھ لیں گے لیکن بائی پاس آپ کو ویران سڑک پر لے جاتا ہے اور جب ختم ہوتا ہے تو آپ ایک بار پھر خود کو کسی نئے شہر کی طرف رواں دواں پاتے ہیں۔جب یہ بائی پاس نہیں ہوتے تھے تو ہر گاڑی راستے میں آنے والے چھوٹے بڑے شہر کے اندر سے گزرتی تھی۔ان بائی پاسز نے سفر بہت آسان کر دیا ہے۔ہر مسافر سیدھا اپنی منزل پر جا کر گاڑی سے اترتا ہے۔راستے میں آنے والے شہروں سے اسے کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ ہمارے ملک میں یہ بائی پاس تقریباً چند دہائیاں پہلے بننا شروع ہوئے تھے۔گویا یہ ذرا سی بات وطن عزیز کی سڑکیں بنانے والے محکمے کی سمجھ میں بہت دیر سے آئی کہ بائی پاس بننے سے فاصلہ کم ہو جاتا ہے اور ان کے باعث وقت اور ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے۔خیر ،دیر آیددرست آید۔ یوٹرن صرف گاڑیاں ہی نہیں لیتیں ہم انسان بھی یوٹرن لیتے ہیں۔جب کوئی شخص آپ سے کوئی وعدہ کرے لیکن اپنی بات اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے ساتھ کرے تو سمجھ لیجیے کہ وہ کسی بھی وقت یوٹرن لے سکتا ہے۔ایسے لوگ ناقابلِ اعتبار ہوتے ہیں۔آپ کو کسی بھی وقت دھوکا دے سکتے ہیں۔آپ ناک کی سیدھ میں کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور وہ یوٹرن لے کر کہیں اور پہنچ جاتے ہیں۔

عام آدمی کے یوٹرن کا نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے لیکن یہی یوٹرن اگر کسی محکمے کا سربراہ یا کوئی حکمران لے تو گویا ساری قوم پتھر کی ہو جاتی ہے۔وہ اس بات پر مبہوت رہ جاتے ہیں کہ بڑے بڑے اجلاسوں اور جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کے سامنے کیے ہوئے وعدے بھی توڑ دیے جاتے ہیں؟بڑے لوگ تو شاید بھول پن میں کہہ دیتے ہیں کہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں لیکن اگر مجھ ایسا کوئی عام شخص یوٹرن لینے کی کوشش کرے تو اس کو اس کی اچھی خاصی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ایک بار میں نے اپنے مالک مکان کو طے شدہ ماہانہ کرائے سے کچھ کم رقم دینا چاہی تو اس نے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیںاور مجھے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا، اس لیے میں تو کم از کم یہ نہیں کہہ سکتا کہ یوٹرن اچھے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین