پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یوں تو دیگر وزرا کی طرح بہت سے وزرائے خارجہ آئے لیکن جو شہرت اور پذیرائی جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ملی وہ کسی وزیر خارجہ کے حصّے میں نہ آئی کیونکہ انہوں نے بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان کے تشخص اور مفادات کو اُجاگرنے کے لیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ، ان کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ آپ 60 کی دہائی کے اوائل میں جناب منظور قادر کی وفات کے بعد وزیرِ خارجہ بنے ۔ یہ جنرل ایوب خان کا زمانہ تھا۔ مسٹر بھٹو کو حقیقی معنوں میں شناخت اور مقبولیت وزیرِ خارجہ بننے کے بعد ہی ملی تھی۔ خاص طور پر ستمبر 65کی پاک ہند جنگ کے دوران ان کی شاندار سفارت کاری نے ، سفارتی محاذ پر چین اور دیگر مسلم ممالک کو پاکستان کی حمایت میں شانہ بشانہ کھڑا کرنے میں شاندار کردار ادا کیا۔ اس وقت ہندوستان کے وزیرِ خارجہ مسٹر سورن سنگھ تھے۔ لیکن مسٹر بھٹو کے سامنے وہ طفلِ مکتب نظر آتے تھے۔ جناب بھٹو کی اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں کی گئی تقاریر آج بھی وہاں کی گئی تقریروں میں بہترین تقاریر شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے تمام عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو بھر پور انداز میں پیش کیا۔ ان کی ذہانت اور تاریخ و سیاسی علوم پر مضبوط گرفت نے اپنے وقت میں انہیں وزیرِ خارجہ کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی مفکّر کے طور پر دنیا بھر میں پہچان دی۔اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر اور مفکر نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ جن میں برٹرینڈ رسل ، احمد سوئیکارنو، چوائن لائی، ماوزے تنگ، امریکی صدر کینیڈی اور ہنری کسنجر جیسے مشاہیر شامل تھے۔ انہیں بجا طور پر پاک چین دوستی کا معمار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لیے اس کی بھر پور حمایت کی تھی۔ اقوامِ متحدہ میں چین کے حوالے سے اُن کی تقاریر بہت مقبول ہوئیں۔ انہوںنے 62کی بھارت اور چین کی جنگ کے دوران کُھل کرچین کی حمایت کی اور پاکستان کے چین کے ساتھ سرحدی معاملات کو طے کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ آخری غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے چیئرمین ماوزے تنگ سے اُن کی وفات سے پہلے ملاقات کی، امورِ خارجہ میں ماہر ذوالفقار علی بھٹو نے خارجہ پالیسی اور تاریخ پر کئی کُتب بھی تحریر کیں۔ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے معاہدہ تاشقند پر بھٹو کے ایوب خان سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور بعد میں وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی مقبولیت کی بنیاد ان کی وزارتِ خارجہ میں کئے گئے کارنامے تھے ۔ ان کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا وزیرِ خارجہ نہ مل سکا ۔ اب تقریباً نصف صدی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا وزیرِ خارجہ ملا ہے جس میں بھٹو شہید کی دل پذیر شخصیت اور فراست کی جھلک دکھائی دی ہے۔ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران چوہدری نثار نے ایک بیان میںکہا تھا کہ سب سے زیادہ سیاسی تحمل اور سوجھ بوجھ کے ساتھ انتخابی مہم بلاول بھٹو نے چلائی ہے۔ عمران خان جیسے غصیلے اور شاہ محمود قریشی جیسے وزیرِ خارجہ کی نسبت بلاول بھٹو زرداری نہایت تحمل مزاج اور بردبار ہیں، جن کے چہرے پر ہمہ وقت مسکراہٹ رہتی ہے۔ وہ بڑے غور سے دوسرے کی بات سنتے اور ٹھہرائو کے ساتھ اپنی بات سناتے ہیں۔ گزشتہ 5ماہ کے دوران انہوں نے کئی ممالک کے دورے کیے جہاں انہوں نے بڑی مہارت سے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے حالیہ امریکی دورے کے دوران انہوں نے بالخصوص G-77اجلاس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے جو پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا،اس کی کافی تعریف کی گئی۔ پاکستان کو بلاول بھٹو کی وجہ سے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے دنیا کے نوجوان وزرائے خارجہ کے اجلاس کی قیادت کی ،انہوں نے مختلف چینلز اور تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو درپیش مسائل خصوصاً حالیہ قیامت خیز سیلاب کے حوالے سے اپنا مؤقف اس قدر احسن طریقے سے پیش کیا کہ امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن اور چینی نمائندے بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ امداد کی یقین دہانی کروائی۔ عمران خان نے جہاں پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا وہیں ان کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو تنہا کر دیا تھا ۔ موجودہ حکومت اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ امید ہے کہ نوجوان بلاول بھٹوزرداری اپنی فہم و فراست کی وجہ سے مستقبل کے ایک نمایاں لیڈر ثابت ہوں گے۔