دنیا کے مرکزی بینک اور پالیسی ساز، مہنگائی کی بلند شرح کی صورت میں عالمی معیشت کو درپیش سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے دُہری مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر طلب کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسیوں کو سخت کرتے ہیں تو عالمی کساد بازاری کے خدشات بڑھ جائیں گے، جب کہ اگر مہنگائی کے مارے عوام کی قوتِ خریداری بڑھانے کے لیے سبسڈیز یا کیش ٹرانسفرز کی صورت میں ان کی مالی امداد کرتے ہیں تو سرکاری قرضے بڑھ جائیں گے، جو پہلے ہی ریکارڈ سطح پر ہیں۔ ایسے میں چند ماہ پہلے عالمی معیشت پر مہنگائی اور بڑھتے قرضہ جات کی وجہ سے جو کالے بادل منڈلا رہے تھے، وہ اب ایک طاقتور معاشی طوفان کی صورت میں نمودار ہوچکا ہے۔
عالمی کساد بازاری کے خدشات
کووِڈ-19وبائی مرض پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں گزشتہ دو سال سے لاگو سخت اقدامات میں 2022ء کے آغاز پر نرمی آنا شروع ہونے کے بعد توقع یہ تھی کہ صارف اعتماد میں اضافےاور سپلائی چین بحالی کے ساتھ عالمی معیشتوں کو کم از کم وسط مدت میں ایک نئی طاقت میسر آئے گی۔ بدقسمتی سے، روس-یوکرین تنازعہ کے سر اُٹھانے، چین کی زیرو- کووِڈ پالیسی، اور توانائی اور غذا ئی بحران پیدا ہونے کے بعد سال کی دوسری شش ماہی میں، عالمی معیشت دوبارہ ڈپریشن میں جاتی نظر آرہی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے 2022ء اور 2023ء کے لیے عالمی معاشی نمو کی شرح گھٹا کر بالترتیب 3.2 اور 2.9فی صد کردی ہے۔ عالمی معیشت سے متعلق آئی ایم ایف کے اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کساد بازاری تقریباً ناگزیر ہوچکی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ماہرینِ معاشیات نے ستمبر 2022ء میں دنیا بھر کے معاشی سربراہان سے عالمی معیشت پر رائے لی۔ سروے کے مطابق، دنیا بھر کے 73فی صد معاشی سربراہان سمجھتے ہیں کہ عالمی معیشت پر کساد بازاری کا امکان ہے۔
اس سروے کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالمی معیشت ممکنہ طور پر کساد بازاری کا شکار ہوگی۔ ایک معاشی سربراہ کا سروے میں کہنا تھا، ’’ہم عالمی معیشت میں سست روی تو پہلے ہی دیکھ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے کساد بازاری سے ابھی بھی بچایا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر رسد کا معاملہ ہے۔ اگر چین، کووِڈ سے متعلق سخت اقدامات واپس لے لے اور دنیا کے مرکزی بینک مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اپنی پالیسیوں میں مزید سخت لائیں تو کساد بازاری کے اثرات کو ضرور کم کیا جاسکتا ہے۔
تاہم، عالمی معیشت سے متعلق معاشی سربراہان کی توقعات ہر خطے میں مختلف ہیں۔ یورپ سے تعلق رکھنے والے 10میں سے 9معاشی سربراہان کا خیال ہے کہ عالمی معاشی نمو کمزور رہے گی۔ 67فی صد سمجھتے ہیں کہ چین کی معاشی نمو کمزور یا بہت کمزور رہ سکتی ہے۔ اسی طرح، سب-صحارا افریقا اور لاطینی امریکا کی معیشتوں میں بھی کسی بہتری کی توقع نہیں ہے۔
اس کے برعکس، 60فی صد ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا میں اوسط درجے کی شرحِ نمو دیکھی جاسکتی ہے، جب کہ 71فی صد اور 77فی صد ماہرین بالترتیب مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا (MENA)اور جنوبی ایشیائی خطے کے حوالے سے بہتری کی توقعات رکھتے ہیں۔
غربت کی صورتِ حال
سروے کیے گئے 60فی صد ماہرین سمجھتے ہیں کہ زائد آمدنی رکھنے والے ملکوں میں غربت میں اضافہ ہوگا، جب کہ کم آمدنی والے ملکوں میں غربت کی بات کریں تو 90فی صد ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں غربت مزید بڑھے گی۔ اسی طرح 80فی صد ماہرین سمجھتے ہیں کہ 2022ء-2023ء کے دوران زائد آمدنی کے حامل ملکوں میں حقیقی اجرت (ریئل ویجز) کم ہوگی، جب کہ کم آمدنی والے ملکوں کے لیے کیے گئے سروے میں 89فی صد ماہرین یہی خیال رکھتے ہیں۔
مہنگائی کی صورتِ حال
چین اور MENAخطے کو چھوڑ کر، ماہرین سروے میں شامل باقی تمام ملکوں میں 2022ء کے دوران مہنگائی ریکارڈ سطح پر رہنے کی توقع رکھتے ہیں۔ مہنگائی کی بلند شرح کا عالمی معاشی نمو پر گہرا اثر دیکھا جائے گا کیوں کہ 93فی صد ماہرین امریکا اور یورپ میں مہنگائی کی بلند شرح برقرار رہتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین کے مرکزی بینک نے شرحِ سود میں 75 بیسس پوائنٹس اضافہ کیا ہے، جوکہ بینک کی جانب سے سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اسی طرح امریکا کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو نے مسلسل تیسری بار شرحِ سود میں 75بیسس پوائنٹس اضافہ کیا ہے۔
امریکی مرکزی بینک کی جانب سے قرض پر شرحِ سود 3فی صد سے 3.25فی صد کے درمیان ہے، جوکہ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد سب سے بلند شرح ہے۔ رسد میں مسائل کے باعث امریکا، یورپ اور دنیا کے کئی خطوں میں قیمتیں بلند سطح پر پہنچ چکی ہیں، جس کے نتیجے میں توانائی سے لے کر خام مال اور افرادی قوت کی سپلائی چین میں مزید تعطل دیکھا گیا ہے۔ صارفین اپنی جیبوں کو مزید سخت کررہے ہیں کیوں کہ جرمنی، برطانیہ اور امریکا جیسی دنیا کی بڑی معیشتوں میں صارفین کو سودا سلف کی خریداری پر بڑی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔
دنیا کی چھوٹی بڑی معیشتوں میں مہنگائی کی شرح ابھی بھی مرکزی بینکوں کے ہدف سے بہت زیادہ ہے۔ اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے مرکزی بینکوں کے پاس سب سے مؤثر اور حقیقت پسندانہ آلہ یہی ہے کہ وہ شرحِ سود بڑھا کر مجموعی طلب میں کمی لائیں جس کے نتیجے میں مہنگائی قابو میں آئے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بڑی معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے شرحِ سود میں ریکارڈ اضافے کے مہنگائی پر فوری اثرات نہیں آئیں گے بلکہ اس کے لیے کم از کم وسط مدت تک شرحِ سود کو بلند رکھنا ہوگا۔ تاہم، اگر مرکزی بینکوں نے سخت مالیاتی پالیسیوں کو جاری رکھا تو دیر بہ دیر، مہنگائی کے مارے عوام کو ریلیف ضرور ملے گا۔
جیوپولیٹکس کا معیشت پر اثر
سروے میں شامل ماہرین سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سیاسی جغرافیائی حالات بین الاقوامی معیشت پر بتدریج زیادہ اثرانداز ہورہے ہیں۔ روس-یوکرین تنازعہ کئی معاملات میں خلل ڈالنے کا باعث بنا ہے، خصوصاً غذائی اجناس اور ایندھن کی رسد میں خلل انتہائی شدید ہے اور پوری دنیا اس کے اثرات کو محسوس کررہی ہے۔ سروے میں شامل 85فی صد ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معاشی صورتِ حال پر سیاسی جغرافیائی خطرات بڑے پیمانے پر اثرانداز رہیں گے۔ تاہم، دنیا کا ہر خطہ اس سے مساوی طور پر متاثر نہیں ہوگا، جس کے بعد موجودہ عالمی تجارتی نیٹ ورک کی نئی سرے سے لکیریں کھینچی جائیں گی۔ ممکنہ طور پر نئے تجارتی بلاکس سامنے آئیں گے۔
یورپ کا روس سے توانائی کے حصول پر انحصار کم کرنا اس کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح امریکا اور یورپ کی جانب سے نئی سخت پابندیوں کی صورت میں روس ان سے ہٹ کر نئے تجارتی بلاکس بناسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یورپی یونین مہنگائی کی بلند شرح کے ساتھ ساتھ معاشی انحطاط(Stagflation)میں جاسکتی ہے۔
ان جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں سے دنیا کا ہر خطہ اور ملک متاثر نہیں ہوگا، بلکہ کئی خطے فائدے میں رہیں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کئی خطے موجودہ بحران سے پہلے سے بہتر ہوکر نکلیں گے۔ ماہرین مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا خطے (MENA)اور جنوبی ایشیا کے معاملے میں پرامید ہیں جہاں بالترتیب سعودی عرب میں رواں سال معاشی نمو کی شرح 7.5فی صد جبکہ بھارت اور انڈونیشیا میں 5فی صد سے زائد رہنے کی توقع ہے۔
لیڈرشپ کی ضرورت
عالمی وبائی مرض کے دوران ہم نے عالمی سربراہوں اور اداروں کی جانب سے لیڈرشپ دیکھی، جس کے نتیجے میں ایک سنگین وبا پر قابو پایا گیا ورنہ جانی اور مالی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا تھا۔ اب ایک سنگین معاشی بحران ہمارے سر پر ہے، اور اس پر قابو پانے کے لیے عالمی معیشت کو بین الاقوامی سربراہان کی جانب سے اسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، جس کا مظاہرہ ہم نے کووِڈ وبائی مرض کے دوران دیکھا تھا۔