جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دو مزید سینئر موسٹ جج صاحبان جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ کر توجہ دلائی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں جج صاحبان کی متعدد نشستیں کئی ماہ سے خالی ہیں مگر ان پر تعیناتی نہیں ہوسکی۔آخری بار جنوری 2022ء میں جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی گئی تھی مگر اس کے بعد تقریباً8ماہ سے کوئی تعیناتی نہیں کی جاسکی۔موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دور میں 6نئی تعیناتیاں ہونی ہیں مگر ابھی تک کسی ایک نام پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا ۔سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی تعیناتی کے عمل میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو سمجھنا ہو گا۔ 18ویں ترمیم کی رو سے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے ۔9رُکنی جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 4سینئر ترین جج صاحبان اس کمیشن کے مستقل ممبر ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستان اور وفاقی وزیر قانون بربنائے عہدہ اس کمیشن کے رُکن بن جاتے ہیں جبکہ دو ارکان 2سال کی مدت کے لئے نامزد کئے جاتے ہیں ۔سپریم کورٹ کے کسی بھی ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کو حاضر سروس چیف جسٹس چاروں سینئر موسٹ جج صاحبان کی مشاور ت سے نامزد کرتے ہیں جب کہ پاکستان بار کونسل کی طرف سے سپریم کورٹ کے کسی سینئر وکیل کو جوڈیشل کمیشن کا رُکن نامزد کیا جاتا ہے۔اگر چیف جسٹس کو بنچ اور بار کا بھرپور اعتماد حاصل ہو تو ججوں کی تعیناتی کے لئے اسے فیصلہ کن اختیار حاصل ہے۔کیونکہ 9میں سے 5 ارکان سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج ہوتے ہیں، ریٹائرڈ جج بھی انہی کے تعینات کردہ ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں حکومت چاہ کر بھی کسی تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔اگر آپ کا ہائوس اِن آرڈر نہ ہو تو ایسی صورت میں دو حکومتی ووٹ اور بار کے نمائندے کی حمایت بہت اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔سابق چیف جسٹس ،جسٹس گلزار احمد کے دور میں بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں واضح اختلاف رائے موجود تھا مگر وہ من مانی کرتے رہے اور سنیارٹی کے اصول کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کئی متنازع تعیناتیاں کر گئے کیونکہ انہیں حکومت وقت کی تائید و حمایت حاصل تھی ۔اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت وقت بھی سنیارٹی کے اصول پر عملدرآمد کی خواہاں ہے،سپریم کورٹ کے چار میں سے کم ازکم تین جج صاحبان اسی موقف کے حامی ہیں ،بار کے نمائندے اور سابق جج کی طرف سے بھی یہی رائے سامنے آرہی ہے ،چنانچہ چیف جسٹس صاحب کو 9ارکان میں سے اپنے علاوہ صرف ایک رُکن کی حمایت حاصل ہے۔آخری بار جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 28جولائی 2022ء کو طلب کیا گیا تھا۔نہایت عجلت میں بلائے گئے اس اجلاس میں پانچ جج صاحبان کی تعیناتی پر غورکیا جانا تھا لیکن یہ اجلاس نہایت متنازع ثابت ہوا۔ کسی جج کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا، آخر میں جناب چیف جسٹس اجلاس سے اُٹھ کر چلے گئے، پریس ریلیز آئی تو جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کے مندرجات سے اختلاف کیا اور پھر اجلاس کی آڈیو جاری کردی گئی جس سے سپریم کورٹ کی ساکھ اور تشخص کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔بعد ازاں اگست میں سپریم کورٹ کے ایک اور جج جسٹس سجاد علی شاہ ریٹائر ہوگئے تو ان کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ جوڈیشل کمیشن کے ممبر بن گئے۔ اب اس کمیشن کے ارکا ن میں جسٹس عمر عطا بندیال(چیئرمین)،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ(سینئر جج سپریم کورٹ)، جسٹس اعجاز الاحسن(سینئر جج سپریم کورٹ)، جسٹس سردار طارق مسعود (سینئر جج سپریم کورٹ)، جسٹس منصور علی شاہ (سینئر جج سپریم کورٹ)، جسٹس سرمد جلال عثمانی (ریٹائرڈ جج سپریم کورٹ)، اعظم نذیر تارڑ (وفاقی وزیر قانون)، اشتر اوصاف علی (اٹارنی جنرل) اور اختر حسین ایڈوکیٹ (نمائندہ پاکستان بار کونسل) شامل ہیں۔ گویا اس کمیشن میں تین ایسے جج صاحبان ہیں جنہوں نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے لئے جو قوانین وضع کئے گئے ہیں ان کے مطابق ججوں کی تعیناتی کے لئے نام تجویز کرنے کا اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔امریکہ میں ججوں کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس ہے اور اس کی منظوری سینیٹ سے لی جاتی ہے۔برطانیہ میں جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن بنایا گیا ہے جس کے چیئر پرسن کو نام تجویز کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ کمیشن کے دیگر ارکان اسے مسترد یا منظورکرسکتے ہیں۔ بھارت میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تعیناتی کااختیار تو صدر کے پاس ہے مگر سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ چار سینئر موسٹ ججوں سے مشاورت کے بعد نام تجویز کرتی ہے اور حکومت کی طرف سے منظور ی کے بعد صدر کی طرف سے تعیناتی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جوڈیشل کمیشن سے نام تجویز ہونے کے بعد پارلیمانی کمیٹی سے منظوری لی جاتی ہے جو 8ارکان پر مشتمل ہوتی ہے ۔اس میں حکومت اور اپوزیشن سے یکساں طور پر چار چار نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کمیٹی کی حیثیت ربڑ اسٹمپ کی سی ہے اور عملاً جو فیصلہ جوڈیشل کمیشن میں ہوجائے،وہی حتمی ہوتا ہے۔جوڈیشل کمیشن میں مسلسل دو مختلف آرا موجود رہی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے قابلیت سمیت دیگر سب معیارات کو یکسر مسترد کرکے سنیارٹی کے اصو ل کو قبول کرلیا گیا ہے تو پھر ججوں کی تعیناتی کیلئے یہی فارمولا کیوں نہیں اختیار کر لیا جاتا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)