ساجد کمبوہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
صدیوں پرانی بات ہے ایک گاؤں کے چوپال میں کھجور، برگد اور بیری کے درخت تھے۔ بیری اور برگد کے درمیان کھجور کا قد آور درخت تھا اسے اپنے قد آور ہونے پر بڑا غرور تھا۔ وہ کبھی بیری اور کبھی برگد کے درخت کی طرف دیکھتا اور طنز کرتا۔
’’برگد کا درخت تو اتنا پھیلاؤ رکھتا ہے، مگر لکڑی کسی کام کی نہیں، نہ تو فرنیچر بنتا ہے اور نہ ہی خوشبودار ہے۔ مجھے دیکھو میری شاخوں سے ٹوکریاں،چٹائیاں اور ٹوپیاں بنتی ہیں۔ میرا پھل ایک مکمل غذا ہے۔‘‘
اس پر برگد کا درخت کہتا کہ،’’ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی۔ سب حکیم میرے دودھ سے اور جڑوں سے دوائیاں بناتے ہیں جن سے بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ میرا پھل سینکڑوں جانور کھاتے ہیں،مسافر میرے نیچے آرام کرتے ہیں، صبح و شام پرندے میرے اوپر نیچے بیٹھ کر چہچہاتے ہیں۔‘‘
مگر کھجور کے درخت کا غرور برقرار رہا، اسے بیری کا چھوٹا قد ناگوار گزرتا، اُسے ڈرپوک اور بزدل قرار دیتا، ہر وقت جھکے رہنے کا طعنہ دیتا۔
بیری کا درخت کہتا مجھ پر اتنا پھل آتا ہے، جس کی وجہ سے میں جھک کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میرے پھلوں سے شہد کی مکھیاں رس چوس کر شہد بناتی ہیں، جو غذا بھی ہے اور شفا بھی ہے۔
کھجور کے پودے نے شکوہ کیا۔’’کبھی انسان نے مجھے پانی دیا ہے کیونکہ مجھ میں لالچ نہیں۔‘‘بیری کے درخت نے کہا ،’’بھائی تمہاری جڑیں مضبوط ہیں پانی کا ذخیرہ کر لیتے ہو ویسے بچے لالچ میں مجھے پانی دیتے ہیں کیونکہ مجھ سے بیر توڑ کر کھاتے ہیں، جبکہ تمہارا پھل ان کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ ہمیں انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ ۔’’ہونہہ یہ نیکی کا کون سا دور ہے، تم اور برگد کے درخت ویسے ہی بزدل ہو مجھے دیکھو نہ کسی کو سایہ دیتا ہوں اور نہ ہی لکڑی،برگد کے درخت پر سارا دن پرندے شور کرتے ہیں، جس سے میرے آرام میں خلل پڑتا ہے اور تم پر کنکر پتھر پڑتے ہیں تم ہر وقت آنسو بہاتے رہتے ہو اس لئے انہیں میٹھا پھل نہ دو۔‘‘کھجور کے درخت نے مشورہ دیا۔
’’میرا پھل انسانوں کے لئے ہے، مگر مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب میری شاخیں توڑتے ہیں اور کچا پھل توڑ کر ضائع کرتے ہیں اگر پھل پک جائے تو انہوں نے ہی کھانا ہے۔ یوں نوک جھونک میں موسم گرما گزر گیا۔
کھجور کا ایک اور ننھا پودا چند ماہ کا تھا جو زمین پر سر اٹھائے کھڑا بھلا لگ رہا تھا۔ گرمیوں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہوا۔ اس بار سردی کے ساتھ بہت برف باری ہوئی کئی فٹ برف باری کی وجہ سے سردی میں مزید اضافہ ہوا جس سے کھجور کا ننھا سا پودا کانپنے لگا۔
اب کھجور کے پودے کو احساس ہوا کہ وہ قد آور ہے اور اپنی مختصر شاخوں سے اس پر سائبان نہیں کر سکتا۔اس نے بیری اور برگد کے درخت سے درخواست کی کہ وہ ننھے درخت کے لئے کچھ کریں ورنہ یہ مرجھا جائے گا۔اب بیری اور برگد کے درخت سوچ بچار کرنے لگے کہ وہ کیا کریں؟جس طرح ننھے پودے کے لئے سائبان بنیں؟
دوپہر کو بچے اسکول سے واپس آئے، آتے ہی بیگز رکھے اور بیری کے درخت پر لگے پکے بیر توڑنے ۔بیری کا درخت صبر کر رہا تھا اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے بچوں سے کہا ،’’میری بائیں شاخ پر میٹھے اور زیادہ بیر ہیں تم سب مجھ پر چڑھ کر توڑ لو۔ بچے اجازت ملنے پر بہت خوش ہوئے۔ وہ فوراً درخت پر چڑھ گئے اور بیر توڑنے لگے جس سے شاخ ٹوٹ گئی اور سیدھی کھجور کے پودے پر جا پڑی۔
’’دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ انسان خود غرض ہے دیکھ لو، انہوں نے تمھارا کیا حال کیا ہے۔‘‘ کھجور کے درخت نے کہا۔
بیری کا درخت بولا میں نے جان بوجھ کر انہیں ایسا کرنے پر اُکسایا تھا۔‘‘ لیکن کیوں؟ کھجور کے درخت نے پوچھا کون خود کو زخمی کرواتا ہے۔‘‘
تب بیری کے درخت نے جواب دیا وہ اس لئے میرے دوست کیونکہ میری ٹوٹی شاخ سے ننھے پودے پر سائبان بن گیا ہے، اب اسے اتنی سردی نہیں لگے گی اور یہ اگلے سال تک بڑا ہو جائے گا ۔‘‘ ’’میرے دوست تم کتنے عظیم ہو۔ تم نے قربانی دے کر میرے ننھے پودے کی جان بچا لی۔
واقعی تمہارا جھکے رہنا خدا کا شکر ادا کرنا ہے‘‘۔ کھجور کے درخت نے کہا۔ یوں سردیوں کا موسم گزر گیا۔
دیکھا بچو! جو دوسروں کے کام آئے وہی اچھا ہوتا ہے۔ آپ بھی دوسروں کے کام آیا کریں۔ یاد رکھیں جب ہم دوسروں کی مدد کریں گےاللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا۔