• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران میں 22سالہ کرد خاتون مہاسا امینی کی پولیس تشدد میں ہلاکت کے واقعہ سے ایران میں سیاسی بھونچال آگیا ہے ۔ یہ واقعہ ایران میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی کو غم و غصے میں تبدیل کرنے کا سبب بن گیا ہے ۔ مہاسا امینی کی موت پر پورے ایران میں اٹھنے والی احتجاج کی طاقتور لہرنے طاقت کے کئی مراکز کی بنیادیں ہلا دی ہیں ۔ مہاسا امینی کو ایران کی اخلاقیات نافذ کرنے والی پولیس ( Morality Police ) نے گرفتار کیا تھا ۔ اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے حجاب اس طرح نہیں پہنا ہوا تھا ، جس طرح حکومتی قوانین کے مطابق پہننا چاہئے کیونکہ اس کے بال حجاب سے باہر نظر آ رہے تھے ۔ پولیس کا کہنا یہ ہے کہ مہاسا کو دل کا دورہ پڑا اور وہ زمین پر گر گئی ۔ دو دن بے ہوش رہنے کے بعد اس کا انتقال ہو گیا لیکن مہاسا کے ساتھ نظر بند ایک مرد اور ایک خاتون کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس پر بہت تشدد کیا ۔ حقیقت کچھ بھی ہو ، مہاسا کی موت نے دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ بنا دیا اور پورے ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ۔یہ مظاہرے 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے لیے ہونے والے مظاہروں کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہیں ، جن کے بہت گہرے سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ 2009 ء میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد بھی ایران میں مظاہرے ہوئے تھے ۔ ان مظاہروں کو سبز تحریک ( گرین موومنٹ ) کا نام دیا گیا تھا ۔ مغربی ملکوں نے اسے ’’بہار عرب ‘‘ کی طرح ’’ بہار فارس‘‘ ( پرشین اسپرنگ) سے تعبیر کیا تھا۔ ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا گیا تھا ۔ پھر 2019 ء کے آخر اور 2020 ء کے شروع میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے ۔ انہیں بھی زیادہ نہ پھیلنے دیا گیا اور کچل دیا گیا لیکن مہاسا امینی کے قتل پر جو احتجاجی مظاہرے ہوئے ، ان کا دائرہ بہت وسیع تھا اور 2009 اور 2019ء کے مظاہروں کے مقابلے میں ان کے زیادہ گہرے سیاسی اثرات ہیں ۔ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لوگ باہر نکل آئے ۔ یہاں تک کہ مشہد اور قم جیسے مقدس شہروں میں بھی طویل عرصے بعد لوگ سراپا احتجاج نظر آئے ۔ مظاہرین جو پہلے کی نسبت زیادہ بے خوف تھے، فورسز سے ٹکرا گئے ۔ ان مظاہروں میں 50سے زائد لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا سب سے اہم کردار تھا ۔ وہ شاہ ایران کے دور میں ہونے والی ناانصافیوں ، معاشی مسائل ،سامراج نواز پالیسیوں کے خلاف اور جمہوریت کے لیے چلنے والی تحریک میں سب سے زیادہ آگے تھیں لیکن انقلاب کے بعد خواتین کے وہ حقوق بھی نہ رہے ، جو انہیں انقلاب سے پہلے حاصل تھے ۔ ایران کی خواتین کو اس وقت سب سے زیادہ سماجی ،سیاسی ، معاشی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ایران کی پہلی پارلیمنٹ نے 1906 ء میں جو آئین منظور کیا تھا ، اس میں مرد و خواتین کے مسادی حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ شہنشاہ ایران کے دور میں 1967 ء سے 1975 تک خواتین کو مختلف حقوق دیئے گئے ، جن میں ووٹ دینے کا حق ، طلاق حاصل کرنے کا حق ، سرکاری یا عوامی عہدہ حاصل کرنے کا حق اور جائیداد میں وراثت کا حق شامل تھے ۔ اس وقت قانون میں عورت کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال تھی ۔ مگر 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کے لیے کی گئی بہت سی اصلاحات ختم کر دی گئیں ۔ شریعت کے نام پر خواتین کے لیے ایک سماجی ضابطہ نافذ کیا گیا ۔ شادی کی عمر 18 سال سے کم کرکے 13 سال کر دی گئی ۔ خواتین کے لباس ، بچوں کی نگہداشت ، وراثت میں حصہ ار بیرونی سفر کے حوالے سے کئی پابندیاں عائد کر دی گئیں ۔ اسٹیڈیم میں خواتین کے میچ دیکھنے پر بھی پابندی ہے ۔ ایران میں عورتوں اور بچیوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر برتا جاتا ہے ۔ خواتین پر تشدد اور ان کے دیگر حقوق کی پامالی کے حوالے سے انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی رپورٹس سے وہاں کی خواتین کی حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ انسانی حقوق کے لیے لڑنے والی ایک خاتون ایرانی وکیل نسرین ستودے ( Nasrin Sotoudeh ) کو محض اس وجہ سے 38 سال کی سزائے قید سنائی گئی کہ اس نے ایک ایسی خاتون کی وکالت کی ، جو حجاب کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۔ اس صورت حال نے ایرانی خواتین میں بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہاسا امینی کے قتل کے خلاف احتجاج میں وہ خواتین بھی شامل ہوئیں ، جو حجاب کے حق میں ہیں اور وہ بھی شامل ہوئیں ، جنہوں نے حجاب جلا دیئے ۔ احتجاجی مظاہروں میں خواتین سے زیادہ مرد شریک ہوئے اور انہوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ ایران میں ہونے والے مظاہرے ایک سازش کا حصہ ہیں ۔ دشمن ایران میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایران اس خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے چیلنج ہے لیکن اس بات کو بنیاد پرستانہ نظریات کا جواز بنانا اور خواتین ، اقلیتوں اور دیگر مخالف سیاسی گروہوں کے حقوق اور آزادی سلب کرنا بھی مناسب نہیں ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ جہاں بھی مذہبی لوگ برسراقتدار ہوں ، ان کی ساری توجہ خواتین کو کنٹرول کرنے پر ہوتی ہے ۔ وہ دیگر مسائل پر توجہ کیوں نہیں دیتے ؟ افغانستان میں طالبان حکومت کا بھی خواتین کے بارے میں یہی رویہ ہے حالانکہ ان کا مسلک ایران کے مذہبی حکمرانوں سے مختلف ہے لیکن دونوں کا خواتین کے بارے میں رویہ ایک جیسا ہے ۔ ضابطہ اخلاق کا نفاذ ’’ Morality ‘‘پولیس کے ذریعہ نہیں بلکہ اعلیٰ خاندانی اور سماجی اقدار کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ یہ اقدار تحفظ اور آزادی کے ماحول میں پروان چڑھتی ہیں ، جہاں لوگوں پر جبر نہ ہو اور جہاں خوف نہ ہو ۔

تازہ ترین