اکتارا …صوفیوں کا ساز
ایکتارا یا ایک تارہ ایسا موسیقی کا آلہ ہے جس میں صرف ایک ہی تار ہوتا ہے۔ اسے صوفیوں کا ساز بھی کہا جاتا ہےاس آلۂ موسیقی کے دیگر ناموں میں اِکْتار، ایکتار، یکتارو، گوپی چند، گوپی چنت، تنتنا بھی ہیں۔ سندھی موسیقی میں استمعال ہونے والا یہ مقبول ساز اکثر روایتی موسیقی بجانے کے لیے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ابتداء میں ایکتارا باضابطہ دھارے دار موسیقی کا آلہ تھا جسے گھومتے اور جھومتے ہندوستان کے شاعر انگلی سے تارے کو کھینچ کر ساز کی آواز پیدا کرتے تھے اور اپنے ذاتی فن کے ساتھ مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ پھیلا ہوا ساز ہے جس میں گونجنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی ساخت میں سانس کا حصہ اوپر جوڑ دیا جاتا ہے۔ایکتارا بجانے والا اس آلے کو کھڑا رکھتا ہے۔
پھر اس کے اوپری حصے کو ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ وہ یہ ہاتھ اس مقام سے اوپر رکھتا ہے جہاں پر گونچ کا اثر چھوٹتا ہے۔ وہ ایکتارے کے تار یا تاروں کو اسی ہاتھ کی اپنی شہادت کی انگلی سے بجاتا ہے۔ اگر وہ رقص بھی کر رہا ہوتا ہے، تو وہ گونج والے حصے کو دوسرے ہاتھ سے پکڑتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے اوپری حصے کو دبانے اور تار کو ڈھیلا کیا جاتا ہے، جس سے آواز دھیمی پڑتی ہے۔
اوپری حصے کے ذرا سے جھکاؤ سے الگ الگ دھن نکل کر آتے ہیں۔ ایسا کوئی نشان یا پیمائش موجود نہیں ہے کہ کتنے دباؤ سے کیا دھن رو نما ہو سکتی ہے، اس وجہ دباؤ کان سے ڈالا جاتا ہے۔ایکتارا کے مختلف سائز ہوا کرتے ہیں۔ ان میں سوپرانو، تینور اور باس شامل ہیں۔ باس کو کئی بار دوتارا بھی کہا جاتا ہے اور اس میں دوتار ہوتے ہیں،ایکتارا میں خاص بات یہ ہے کہ اس سے دیگر روایتی مزامیر کی طرح سات سر نکلتے ہیں۔
اس آلے سے کسی بڑی تقریب میں سنگت بھی کی جا سکتی ہے۔ موسیقی کے تلامذہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اسے بنانے میں محض 30 روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ اس اجزاء میں ایک تارا، تانپرا، بھپنگ اور تمبورا کی آمیزش ہے۔ تاہم گھریلو طور پر بنانے کے لیے کافی کم لاگت آئی ہے، کیونکہ اسے بنانے کے لیے معمولی چیزوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسی چیزیں ہیں، جو ہر گھر میں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ آلے کو ایک ٹین کے ڈبے، پرانے ڈھولک کے پلے، ایک لمبی گول لکڑی، ایک تار اور کیل سے تیار کیا جا سکتا ہے۔
بانسری…سدا بہار گیتوں سے عبارت
سندھ کی موسیقی میں بانسری کو بھی بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے، اس خطے کے موسیقاروں نے بانسری کی مدد سے اپنے سدا ا بہار اور امر گیتوں کو سجایا سنوارا ہے، دور قدیم سے لے کر آج تک سندھ میں ہر قسم کی موسیقی کسی نا کسی طور بانسری سے عبارت رہی ہے، بانسری موسیقی کا ایک ایسا آلہ جو لکڑی سے بنایا جاتا ہے اور اس میں پھونکی جانے والی ہوا کی وجہ سے سر بکھیرتا ہے۔
ہوا کے دوش پر سر بکھیرنے والے دوسرے آلات موسیقی کی نسبت بانسری ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں ہوا پھونکنے کی وجہ سے سر پیدا ہوتے ہیں اور ہوا جب اس کے کھلے سوراخوں سے گزرتی ہے تو سر یا موسیقی جنم لیتی ہے۔ آلات موسیقی کی درجہ بندی میں بانسری کو ہوا کی مدد سے کونے سے موسیقی پیدا کرنے والے آلات میں شامل کیا جاتا ہے۔
آلات موسیقی میں ممتاز حیثیت رکھنے والی بانسری اپنی تاریخ کے لحاظ سے بھی مشہور ہے۔ جرمنی کے علاقہ صوابین الب میں ماہرین آثار قدیمہ کو ہزاروں سال پرانی بانسریاں بھی ملی ہیں۔ بانسریوں کی دریافت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موسیقی کا رواج انسانی تاریخ میں یورپ میں آنے والی جدیدیت سے کافی پہلے بھی موجود رہا ہے۔