تھائی لینڈسے تعلق رکھنے والے بدھ دھرم کے روحانی پیشوا آریاوانگسو ٹیکسلا میں تین ماہ کی مذہبی رسم "واسا"گزار کر اپنے پیروکاروں کے ہمراہ وطن واپس روانہ ہوگئے ہیں، بدھ مت کے مطابق مہاتماگوتم بدھ نے اپنے پیروکاروں کو برسات کے تین ماہ (پندرہ جولائی سے پندرہ اکتوبر)کے دوران کسی بھی طویل سفر سے منع کیا تھا اورانہیں ایک ہی جگہ ایک ہی چھت تلے رات گزارنے کا حکم دیا تھا تاکہ بارشوں کی وجہ سے انہیں یا جنگلی حیات کو نقصان نہ پہنچ سکے، موسم برسات کے دوران دن میں بدھسٹ کہیں بھی جاسکتے ہیں لیکن رات وہ ایک ہی چھت کے نیچے گزارتے ہیں،تھائی لینڈ کے پیشوا نے موسم برسات کے اختتام پر "کاتھینا "رسم کی ادائیگی کیلئے ٹیکسلا کا انتخاب کیا جہاں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی، تقریب میں تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا، نیپال، میانمار اور مشرق بعید کے دیگر بدھ اکثریتی ممالک کے سفراء کرام نے شرکت کی، اس موقع پربدھسٹ شرکاء نے پاکستان کو ایک امن پسند ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی میسر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی اہم ترین بدھسٹ پیشوا نے اپنے پیروکاروں سمیت واسا کیلئے اس خطے کاانتخاب کیا ہے جسے میں مذہبی سیاحت کے فروغ کی طرف ایک بہت بڑی پیش رفت سمجھتا ہوں۔اسی طرح گزشتہ برس سری لنکا سے بدھسٹ سیاحوں کی سرزمین پاکستان پر گندھارا تہذیب کی یاترا کیلئے آمد ہوئی تھی، انہوں نے بدھ مت سے منسوب مختلف تاریخی اور مذہبی مقامات کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان کو دنیا بھر میں بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے ایک پرکشش ملک قرار دیا تھا۔ چند سال قبل گلگت بلتستان میںکوریا کے بدھ راہبوں کی پاکستان آمد نے میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی،کورین یاتریوں نے گلگت میں آٹھویں صدی عیسوی میں پہاڑی چٹان پر بنائے گئے بدھا کے نو فٹ طویل القامت مجسمے کے سامنے حاضری دی ،پاکستان کی تاریخ میں اسے پہلا واقعہ قرار دیا گیا تھا جب بدھ مت کے پیروکاروں نے اجتماعی طور پر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا ۔میری معلومات کے مطابق گلگت بلتستان کی پہاڑی چٹانوں پر صدیوں پرانے بدھا کے مجسمے اور مذہبی نقوش آج بھی موجود ہیں،یہاں آٹھویں صدی عیسوی میں تراشا جانے والاکارگاہ بدھ کا نایاب مجسمہ موجود ہے جسکی یاترا کرنا دنیا کے ہر بدھسٹ کی مذہبی خواہش ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی کا لگ بھگ سات فیصد حصہ (تقریباََ 520ملین افراد)بدھ مت کے ماننے والے ہیں،ایشیاکے بیشتر ممالک بشمول جاپان، کوریا،چین، میانمار، تھائی لینڈ، کمبوڈیا،ویت نام، سری لنکا، سنگاپور، بھوٹان، ہانگ کانگ، لاؤس، انڈیا اور منگولیا وغیرہ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بستی ہے، ہمسایہ ملک چین کی آبادی کا اٹھارہ فیصد حصہ (244ملین افراد)بدھ مت کے پیروکار وں پر مشتمل ہے، اسی طرح روس، امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں۔ موجودہ پاکستان میں واقع شمالی علاقے کی دوہزار سالہ قدیم گندھارا تہذیب بدھ مت کے عظیم ماضی کی آئینہ دار ہے جسکی جڑیں پہلی صدی عیسوی سے ساتویں صدی تک جاملتی ہیں، تاریخی شہر ٹیکسلا سے لیکر سوات، گلگت بلتستان تک جابجا بدھ مت کی عظیم یادگاریں اور مذہبی مقامات موجود ہیں۔تاریخ کی سب سے قدیم یونیورسٹی ٹیکسلا میں قائم کی گئی تھی جہاں عظیم فلسفی اور استاد کوٹلیہ چانکیہ علم و حکمت کے موتی اپنے شاگردوں میں بکھیرا کرتا تھا، چانکیہ جی کی تحریرکردہ ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی جیسی کتابیں آج دور جدید میں بھی اپنی مقبولیت میں نمبر ون ہیں۔دنیا کے ہر بدھا کی دلی خواہش ہے کہ وہ سرزمین پاکستان میں واقع ٹیکسلا،تخت بھاہی، سوات اور دیگر حصوں میں گوتم بدھا سے منسوب مقدس مقامات کی یاترا کرسکے۔حالیہ دنوں میںکورین سفیر کا یہ بیان بھی منظرعام پر آیا ہے کہ بدھ اکثریتی ملک کوریا ٹیکسلا میں گندھارا انٹرنیشنل یونیورسٹی بنانے کیلئے تعاون فراہم کرسکتا ہے، اس بیان نے مجھے پانچ سال قبل کی یہ تجویز یاد دلا دی جب میں نے ٹیکسلا میں قدیم فلسفی کوٹلیا چانکیہ کی یاد میں ایک عالمی یونیورسٹی قائم کرنے کا کہا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ مجوزہ یونیورسٹی کا قیام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے طالب علموں کیلئے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوگا ، اس یونیورسٹی کے ہوسٹل گرمیوں کی تعطیلات میں خالی کراکر ان بدھ سیاحوں کے حوالے کئے جاسکتے ہیں جو موسم برسات کی واسا رسم تاریخی شہر ٹیکسلا میں گزارنا چاہتے ہیں۔پاکستان ہندوکونسل کے مطابق پاکستان میں بدھسٹ آبادی تیزی سے معدوم ہوتی جارہی ہے، اس وقت پاکستانی بدھسٹ شہریوں کی تعداد فقط 1741ہے جن میں تیرہ ٹرانس جینڈر بھی شامل ہیں، گوتم بدھا کے پیروکاروں کی اکثریت صوبہ سندھ میں نہایت غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، میری نظر میںاگر ان پاکستانی بدھوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو یہ بدھ اکثریتی ممالک کے ساتھ پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔میں ماضی میں بھی یہ بات ہائی لائٹ کرتا آیا ہوں کہ دنیا بھر میں پاکستان میں تیارکردہ بدھاکے مجسموں کی بہت زیادہ مانگ ہے، ٹیکسلا میں ایسے بے شمار عظیم مجسمہ سازبستے ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا سے ہندوشاہی، یونانی اور ایرانی نقوش والے بدھا مجسموں کو بنانے کا ہنر سیکھا، تاہم انکی محنت کا معاوضہ محض دو ہزار روپے ادا کیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں انکی تیارکردہ مورتیوں کو دس ہزار ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں بدھ مذہب کی قدیم تاریخ جگہ جگہ بکھری ہوئی ہے جسکا تحفظ کر کے پاکستان دنیا بھر سے بدھ سیاحوں کیلئے ایک پرکشش ملک بن سکتا ہے،تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم تین اقدامات فوری طور پر کئے جائیں،نمبر ایک پاکستان میں مذہبی سیاحت کے باقاعدہ فروغ کیلئے حکومتی اتھارٹی کا قیام، نمبر دو پاکستان میں تیارکردہ گوتم بدھا کی مورتیوں کی ایکسپورٹ کی قانونی اجازت اور ٹیکسلا میں عالمی یونیورسٹی کا قیام۔ اگر حکومت صرف مذہبی سیاحت کے فروغ پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرلے تو ہم مختصر عرصے میں نہ صرف اپناعالمی امیج بہتر کرکے کثیر مقدار میں زرمبادلہ کما سکتے ہیں بلکہ بیرونی قرضوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)