• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہر دوسرے گھر میں صبح کا آغاز ’’جنگ‘‘ سے ہوتا

’’جنگ‘‘ سے بھلا کون محبت کرتا ہے، مگر کیا کیجیے، ’’جنگ اخبار‘‘ سے ایک خاص انسیت، اپنائیت کے ساتھ ہمارا قلبی تعلق بھی ہے۔ محاذِ جنگ میں کوئی شہادت کا رتبہ پاتا ہے، تو کوئی غازی کہلاتا ہے، جب کہ ہم مسلسل ’’جنگ اخبار‘‘ کا مطالعہ کرتے کرتے پہلے قاری، بعد میں لکھاری بننے کا شرف حاصل کربیٹھے۔ جنگ پڑھتے پڑھتے بچپن سے نوجوانی میں قدم رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب گلی میں کسی ایک گھر میں ’’جنگ اخبار‘‘ آتا اور پھر گھر گھر جاتا۔ جب رات کو اپنے اصل گھر لوٹتا، تو صفحہ صفحہ کانپ رہا ہوتا۔ تُڑامُڑا، حال سے بے حال، نہ جانے کس کس کے ہاتھ لگتا۔ اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا، جیسے میدانِ جنگ سے آرہا ہو۔ اصل گھر پہنچنے کے بعد اُسے ایک مخصوص تھپّی پر رکھ دیا جاتا، مہینے کے آخر میں ردّی پیپر والے کو جو آنا ہوتا تھا۔ غرض، گھروں میں جان سے زیادہ ’’جنگ اخبار‘‘ کی حفاظت کی جاتی۔

مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ملک میں صبح سب سے شان دار استقبال، بعدازاں، بدترین استحصال اخبار کا ہوتا ہے۔ کہیں اس میں تندور کی گرم روٹیوں کو لپیٹا جاتا ہے، تو کہیں پرچون کی دُکانوں پر بے دردی سے پھاڑ پھاڑ کر دال مسالوں کے ساتھ جارہا ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت کے بعد اگرچہ اخبار کی اہمیت میں خاصی کمی واقع ہوئی، مگر اس کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔ ایک دَور میں تو عالمِ رنگ و بُو میں اس کی رونق کا یہ عالم تھا کہ نائی کی دکان ہو یا ہوٹل، یہاں تک کہ تَھڑوں تک پر ہر جگہ ’’جنگ اخبار‘‘ ہاتھوں میں ہوتا۔ 

ایک پڑھتا، تو سب سُنتے، مختلف خبروں پر اپنے اپنے انداز سے تبصرے کیے جاتے، قہقہے بلند ہوتے۔ اکثریت اخبار میں شایع ہونے والی خبریں پڑھ کر سیاست کے سمندر میں بے لاگ تجزیوں اور تبصروں کے غوطے لگایا کرتی۔ اسی میں کہیں بحث بڑھتے بڑھتے تلخ جملوں تک بھی پہنچ جاتی، لیکن یہ سب وقتی ہوتا۔ جنگ اخبار پڑھتے ضرور، مگر آپس میں جنگ نہ کرتے۔ عروس البلاد، کراچی کی حد تک میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ سب سے مقبول اخبار کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ لوگ جو کسی کو منہ نہ لگاتے، گھنٹوں اخبار میں منہ دیئے بیٹھے رہتے۔ 

گھر کے بڑوں کے لیے اخبار پڑھنے کی جگہ اور وقت مخصوص ہوتا۔ اکثر لوگ مطالعے کے وقت چائے پیتے، اس دوران بات چیت ممنوع ہوتی، بلکہ اس حد تک کہا جاتا کہ ’’آہستہ بولو، ابّا جان اخبار پڑھ رہے ہیں۔‘‘ غرض اُس زمانے میں اخبار پڑھنا ادب و آداب میں شمار ہوتا۔ اخبار پڑھنے والے جہاں دیدہ، صاحبِ نظر اور مُلکی و غیرمُلکی حالات پر کڑی نظر رکھنے والے تصوّر کیے جاتے۔ لوگ اُن کی باتیں، اُن کی گفتگو دھیان سے سُنتے۔

جس طرح بچپن میں مختلف چیزوں کا شوق ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ہمیں بھی بچپن سے اخبار پڑھنے کا شوق، بلکہ خبط تھا۔ والدہ کہتی بھی تھیں کہ اپنے پَر دادا پر گیا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ بھی ایمپریس مارکیٹ جاکر اخبار لایا کرتے تھے۔ ابھی ہم نے میٹرک بھی نہ کیا تھا کہ محلّے کی لائبریریز میں جاکر اخبار پڑھاکرتے، مگر اُس وقت تک اخبار باسی ہوچکا ہوتا تھا۔ سو، ہماری پرزور فرمائش اور والد صاحب کی اخبار بینی کی عادت کے باعث جنگ اخبار ہمارے گھر بھی داخل ہوگیا۔ اخبار لگ گیا تو اس کی لت کچھ اور بھی بڑھ گئی۔ 

جو صاحب ہمارے ہاں اخبار ڈالا کرتے تھے۔ اُن کی ٹانگ آدھی کٹی ہوئی تھی، مَیں آج بھی سوچ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ وہ سائیکل پر کس طرح خود کو بیلنس کرکے اخبار ڈالا کرتے تھے۔ بیساکھی کو سائیکل پر پائپ کی طرح رکھتے اور برق رفتاری سے چلاتے ہوئے گھر گھر پہنچ کر مخصوص آواز میں ’’اخبار‘‘ کی صدا لگاتے اور پھر فوراً ہی زمین پر اخبار گرنے کی دھم سی آواز آتی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان کا اندازہ کتنا صحیح ہوتا کہ اخبار کبھی پودوں، پانی یا کچّی زمین کے بجائے ہمیشہ فرش پر ایک مخصوص جگہ پہ گرتا۔ ہر گھر کے لیے اُن کا طریقۂ کار یہی ہوتا ہوگا۔ 

معذوری کو مجبوری نہ بنانے کی میرے لیے یہ پہلی مثال تھی۔ ابھی صبح کی پو نہ پھٹی ہوتی کہ اخبار کی آمد ہوجاتی۔ عام دنوں میں تو سب کو اسکولز، کالجز اور دفاتر جانے کی جلدی ہوتی، لیکن پھر بھی موقع ملتے ہی اخبار کا سرسری مطالعہ کرلیتے۔ چھٹی والے دن تو ہمارے گھر میں صبح کا آغاز ہی ’’جنگ‘‘ سے ہوتا۔ بلکہ اِک ہمارے گھر ہی کیا، ہر دوسرے گھر کا یہی حال ہوتا۔ والد سمیت ہم سب حالتِ جنگ میں ہوتے۔ والد صاحب سالارِ جنگ ہوتے اور جنگ کا مین پیج اُن کے ہاتھوں میں ہوتا، جس کے باعث چار صفحات اُن کے قبضے میں رہتے۔ ایڈیٹوریل کا صفحہ ہمارے ہاتھ لگتا۔ 

منجھلے بھائی کو اسپورٹس کی خبروں کی فکر ہوتی۔ چھوٹے کو ٹارزن کی باتصویر کہانی پڑھنی ہوتی۔ والد صاحب جیسے ہی خبروں سے فارغ ہوتے، ہم فوراً ادارتی صفحہ انہیں تھماکر صفحہ اوّل پر قابض ہوجاتے۔ عام دنوں میں اسکول، کالج سے آتے ہی سب سے پہلے اخبار کی طرف لپکتے اور پھر اطمینان سے ایک ایک صفحہ دیکھتے۔ فلموں کے اشتہار والے صفحے پر ضرور نظر ڈالتے کہ کون سی فلم کس سنیما گھر میں لگی ہے، اور کس کس کی سلور، گولڈن اور پلاٹینیم جوبلی ہوچکی ہے۔ 

یاد آیا، ایک زمانے میں لائبریریز میں فلموں کی اسٹوری پر مبنی کتابچہ چار آنے کرائے پر ملا کرتا تھا۔ بڑا دل للچاتا، حسرت سے انہیں آتے جاتے ضرور دیکھتے، مگر کرائے پر لینے کی ہمّت کبھی نہ پڑی کہ گھر میں مار پڑنے کے پورے امکانات تھے۔ والد صاحب کو ہماری ’’سیاسی بالغ نظری‘‘ کا اندازہ بہت پہلے ہی ہوچکا تھا، لہٰذا کبھی کبھی سمجھاتے، ’’میاں! اس سیاست میں کچھ نہیں رکھا، پڑھنے پر دھیان دو۔‘‘ ہر وقت ہمیں اخبار بینی میں منہمک دیکھ کر والدہ جب بہت تنگ آجاتیں، تو والد صاحب سے کہتیں، ’’یہ شہزادے اخبار کے بغیر کہاں رہ سکتے ہیں۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام کہو تو جان جاتی ہے، مَیں تو کہتی ہوں، اخبار بند ہی کروادیں۔ دیکھ لیجیے گا، اب کے اخبار والا پیسے لینے آئے گا، تو خود منع کردوں گی۔‘‘ اور پھر حقیقتاً ایک بار واقعی ایسا ہو بھی گیا، جس کے بعد ہماری صبح اُجاڑ ہوگئی۔

اس دوران پڑوس ہی میں رہائش پذیر ہمارے چچا نے جنگ اخبار لگوالیا۔ اس سے قبل دفتر سے آتے ہوئے شام کو اخبار لاتے تھے۔ ہماری والدہ اخبار تو نہ پڑھتیں، لیکن یہ فکر انہیں ضرور رہتی کہ اخبار واپس آیا کہ نہیں۔ اگر چچا کے ہاں سے اخبار کہیں اور چلا جاتا، تو پھر تو اس کا لانا لازمی تھا، ورنہ اخبار کے کردار پر مشکوک سوالات اٹھائے جاسکتے تھے۔ میں کبھی اخبار لانے میں آناکانی کرتا، تو والدہ کہتیں، ’’جب خود کمائوگے، تب پوچھیں گے۔‘‘ بہرحال، بڑی منّتوں کے بعد گھر میں جنگ اخبار بحال ہوا، تو ہماری صبح کی سانسیں بحال ہوئیں۔ 

جس زمانے میں چچا کے یہاں سے اخبار آنے لگا، تو ہمیں یوں لگا کہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ بھی ہمارا چچازاد بھائی ہوگیا ہے۔ چُھٹی والے دن چچا کے گھر والے دیر سے سوکر اٹھتے، اور ہم اخبار کے اتنے دھتی تھے کہ اُن کے اٹھنے سے پہلے ہی آُٹھ جاتے کہ اُن کے دروازے پہ پہنچ کر ایک پتلی سے ڈنڈی سے اخبار سرکاکے نکال لیا کرتے اور ان کے جاگنے سے پہلے واپس ڈال دیا کرتے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس راز سے چچا لاعلم ہیں، لیکن ایک روز بالآخر اپنی حماقت سے پھنس ہی گئے۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ چُھٹّی والے روز ہمیں شرارت سوجھی، تو ایک پرانا اخبار چچا کے گھر ڈال دیا اور کچھ دیر بعد اُن کے یہاں چلے بھی گئے۔ چچا نیند سے بیدار ہوتے ہی اخبار پڑھتے تھے، ہلکی غنودگی سی ہوتی اور اخبار پڑھنے کا آغاز ہوتا۔ 

جیسے جیسے اخبار پڑھتے بیدار ہوتے چلے جاتے۔ اُس روز اخبار پڑھتے ہوئے ناگواری سے بولے، ’’لگتا ہے یہ خبریں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’چچا خبروں کا کیا ہے، روز اُلٹ پلٹ کر شایع ہوجاتی ہیں۔ آج کوئی بڑی خبر نہیں ہوگی، اس لیے پرانی خبر ہی کو نیا بنا کر شایع کردیا ہوگا۔‘‘ چچا میرے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور فوراً اخبار کی لوح پر ایک نظر ڈالنے کے بعد مجھے گھور کر دیکھا۔ وہ غصّے کے بہت تیز تھے، ہم نتیجے سے بے خبر تھے اور پھر ہماری وہ خبر لی گئی کہ جسم پر شہ سُرخی بن گئی۔ بولے، ’’ان خبروں کو چھوڑو۔ آج کی بڑی خبر تو تمہاری ہی ہے۔‘‘

اُس دن چچا کے ہاتھوں ہم خبر تو بن گئے، لیکن یہ خبر نہ تھی کہ کبھی ہمارا مضمون بھی اخبار کی زینت بنے گا۔ 1988ء میں ہمارا اپنا پہلا مضمون ’’کمپوچیا کا مسئلہ،آخر کب حل ہوگا؟‘‘ ادارتی صفحے پر بغیر کسی سفارش کے شایع ہوا۔ ہم نے اخبار میں انٹری ہی عالمی مسئلے پر مبنی مضمون سے دی تھی۔ یہ الگ بات کہ روزنامہ جنگ کی بلڈنگ پر متعین گارڈ نے ہمیں مضمون ڈالنے والے بکس تک نہ جانے دیا، اور مضمون لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم اپنا مضمون دریا برد کر آئے، لیکن چند ہی روز بعد اخبار میں نام کے ساتھ اپنا مضمون جگمگاتا دیکھا، تو خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ 

بلاشبہ، ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم بھی جنگ کے لکھاری بن گئے، اور پھر کئی برس تک مختلف موضوعات پر ہمارے مضامین شایع ہوتے رہے، اس زمانے میں ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں مضامین کا شایع ہونا، آج کے بڑے ٹی وی چینلز پر آنے سے بھی بہت بڑی بات ہوتی تھی۔ شایع ہونے والے مضامین پر لوگ باقاعدہ ڈسکشن کیا کرتے۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں نے ’’جنگ اخبار‘‘ پڑھ پڑھ کر لکھنا سیکھا ہوگا۔ اب گھر میں اخبار نہیں آتا، تو انٹرنیٹ ایڈیشن سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن پورا اخبار پڑھنے کے باوجود کچھ کمی سی رہتی ہے کہ جو مزہ جنگ اخبار ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا تھا، وہ اب کہاں؟ اخبار ہاتھ میں آتے ہی یوں محسوس ہوتا، گویا پوری دنیا ہاتھ آگئی ہے، لیکن اب انٹرنیٹ پر پورا اخبار پڑھنے کے باوجود بھی ایک تشنگی سی رہتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں بہت کچھ دیا ہے، وہیں اس بے مہار ترقی نے بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ ’’جنگ اخبار‘‘ میری یادوں کا حسین سرمایہ ہے۔ اب بھی کہیں دیکھتا ہوں، تو کسی معصوم بچّے کی طرح اس کی طرف ہاتھ ہمکنے لگتے ہیں۔