60 سال قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک سائیکل کی چوری سے دنیا کا عظیم باکسر جنم لے گا۔ غصے سے بھرا 12 سالہ لڑکا اپنی سائیکل کی چوری کی رپورٹ درج کروانے پولیس کے پاس گیا اور یہ عزم کیا کہ اگر چور اُس کو مل گیا تو وہ اُسے مزا چکھائے گا۔ وہاں موجود پولیس افسر جو پولیس کی نوکری کے علاوہ باکسنگ ٹرینر کے فرائض بھی انجام دیتا تھا، نے لڑکے سے کہا کہ اس کیلئے تمہیں باکسنگ سیکھنا ہوگی۔ اس طرح پولیس والے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے لڑکے نے جم میں داخلہ لیا اور دن رات کی انتھک محنت سے باکسنگ کے شعبے میں عبور حاصل کرکے تین بار عالمی چیمپئن بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔
کھیل سے تعلق رکھنے والی یہ عظیم شخصیت گزشتہ دنوں دنیائے فانی سے رخصت ہوگئی اور کھیل کے علاہ دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار کرگئی۔ لیجنڈ باکسر محمد علی17 جنوری 1942ء میں امریکی ریاست کنٹکی کے شہر لوئسویل میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1964ء میں اسلام قبول کرنے سے قبل اُن کا نام کیٹس مارسیلس کلے جونیئر تھا۔ محمد علی کو شہرت اُس وقت ملی جب 1960ء میں روم میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں انہوں نے سونے کا تمغہ جیتا لیکن جب وہ اپنے شہر واپس آئے تو سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اُنہیں نہ صرف ملازمت سے محروم رکھا گیا بلکہ تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا جس سے دلبرداشتہ ہوکر انہوں نے اپنا سونے کا تمغہ دریا میں پھینک دیااور اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے باکسنگ کو پروفیشنل انداز میں اپنانے کا فیصلہ کیا۔باکسنگ میں ان کا پروفیشنل کیریئر تقریباً 21 سالوں پر محیط رہا جس میں انہوں نے 61 مقابلوں میں سے 56 مقابلے جیتے جبکہ 35حریفوں کو ناک آئوٹ کیا۔
باکسنگ کا کھیل درحقیقت محمد علی کی وجہ سے ہی پہچانا گیا جنہوں نے اِسے نئے معنی اور نیا انداز دیا۔ 1978ء میں محمد علی کو اُس وقت بڑا دھچکا لگا جب وہ خود سے 12 سال کم عمر لیون اسپنکس سے ہارگئے تاہم 8 ماہ بعد ہی محمد علی نے اسپنکس کو شکست دے کر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا اعزاز حاصل کرلیا۔ اس سے قبل وہ 1974ء میں جارج فورمین کو شکست دے کر عالمی چیمپئن بن چکے تھے۔ اس طرح محمد علی نے 1964ء، 1974 اور 1978ء میں باکسنگ کے عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کیا جس کے بعد تاریخ میں اُنہیں ہیرو کے طور پر گردانا جانے لگا تاہم 1981ء میں انہوں نے باکسنگ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ ویت نام جنگ کے دوران امریکی فوج میں شمولیت سے انکار کے نتیجے میں محمد علی کو اُن کے اعزاز سے محروم کرکے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم بعد میں اُنہیں سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا لیکن تین سال کیلئے ان کے باکسنگ مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
اسلام قبول کرنے کے حوالے سے محمد علی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 60ء کی دہائی میں جب امریکہ میں سیاہ فام افراد کے خلاف تعصب عروج پر تھا اور سفید فام افراد اُن سے فاصلہ رکھتے تھے، ایک دن محمد علی کا گزر امریکہ کی مشہور جامع مسجد کے سامنے سے ہوا جہاں انہوں نے دیکھا کہ سیاہ فام افراد دیگر مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے نماز ادا کررہے تھے اور نماز کی ادائیگی کے بعد تمام مسلمان ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے بعد گلے مل کر رخصت ہورہے تھے۔ محمد علی مسلمانوں کے اِس طرز عمل سے بہت متاثر ہوئے اور مذہب اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کردیں۔ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ اسلام ایسا عظیم مذہب ہے جس میں سینکڑوں صدی قبل ہی رنگ و نسل اور عربی و عجمی کے تعصب کو ختم کردیا گیا ہے تو اُن کی اسلام سے رغبت بڑھتی چلی گئی جو بالآخر قبول اسلام کا سبب بنی اور انہوں نے مرتے دم تک مثالی مسلمان کی طرح زندگی گزاری۔ اُن کی زندگی پر لکھی گئی کتاب میں ذکر ہے کہ ’’محمد علی کے دل میں جب بھی گناہ کا خیال آتا تو وہ جلتی ہوئی ماچس کی تیلی اپنے ہاتھ پر رکھ کر خود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے کہ ’’ آج تم سے اتنی سی آگ برداشت نہیں ہورہی، کل اگر تمہیں قیامت کے دن زناکاروں، سود خوروں، ظالموں اور لوگوں کا حق مارنے والوں کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا گیا تو جہنم کی آگ کیسے برداشت کرو گے؟‘‘
گزشتہ سال میک اے وش کی کانفرنس کے سلسلے میں لاس اینجلس گیا تو میرا گزر ’’ہالی ووڈ واک آف فیم اسٹریٹ‘‘ سے ہوا جس کے فٹ پاتھ پر امریکہ اور ہالی ووڈ سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات کے ناموں کی تختیاں نصب تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ 2002ء میں لاس اینجلس کے میئر نے محمد علی کو یہ خوشخبری سنائی کہ سٹی کونسل نے آپ کے نام کی تختی ہالی ووڈ واک آف فیم پر نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر محمد علی نے مسرت کا اظہار کرنے کے بجائے میئر کو بتایا کہ چونکہ میرے نام میں محمد اور علی جڑا ہوا ہے، اِس لئے میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ اِن مقدس ناموں کی تختی کسی اسٹریٹ کے فٹ پاتھ پر نصب ہو جس سے ان ناموں کی بے حرمتی ہو۔ بعد ازاں سٹی کونسل نے اپنی پالیسی میں ترمیم کرکے محمد علی کے نام کی تختی واک آف فیم کے فٹ پاتھ کے بجائے دیوار پر نصب کی۔اپنے آپ کو عظیم ترین کہلوانے والے محمد علی جب شدید بیمار ہوئے تو اکثر کہتے تھے کہ ’’مجھے اِس بات پر پختہ یقین ہوگیا ہے کہ میں عظیم تر نہیں بلکہ عظیم تر ذات صرف اللہ ہی ہے۔‘‘
محمد علی کو باکسنگ رنگ میں صرف اُن کی پرفارمنس کی وجہ سے ہی عظیم تر (Greatest) نہیں کہا جاتا تھا بلکہ وہ حقیقتاً بھی عظیم ترین انسان تھے جنہوں نے سیاہ فام افراد کے حقوق کیلئے فائٹ کی اور اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ کئی بار جیل بھی کاٹی۔ ان کا شمار مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا جیسے سیاہ فام افراد کے حقوق کی علمبردار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاہ فام افراد کے حقوق کیلئے ایسے حالات میں آواز بلند کی جب امریکہ میں کوئی اس کی ہمت نہیں کرپاتا تھا۔ قبول اسلام کے بعد انہوں نے اس وقت اسلام کا پرچار کیا جب ایف بی آئی اور میڈیا مسلمانوں کو امریکہ کیلئے خطرناک قرار دے رہا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی موت سے کچھ روز قبل امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کے خلاف تقریروں اور بیانات کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
باکسر محمد علی کی موت سے ایک ہفتے قبل سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دورہ ویت نام کے دوران ویت نام کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاکر اور اُن کے ساتھ کی گئی امریکی زیادتیوں پر افسوس کا اظہار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ محمد علی کا ویت نام جنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ درست تھا۔ تین بار عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنے والے محمد علی دنیا بھر کے کروڑوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ انہوں نے 1988ء اور 1989ء میں پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران انہوں نے لاہور میں داتا دربار پر حاضری بھی دی۔ اِس موقع پر مجھے بھی اِس عظیم ہستی سے مصافحہ اور ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا جو میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ آج محمد علی ہمارے درمیان نہیں، اُن کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، شاید وہ صدیوں میں بھی پُر نہ ہوسکے۔