• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایشیا کیسے غریب براعظم سے عالمی اقتصادی پاور ہاؤس بنا؟

1820ء میں، ایشیا میں دنیا کی دو تہائی آباد تھی اور عالمی آمدنی میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ تھا۔ اس کے بعد نوآبادیاتی نظام اور سامراج سے چلنے والی عالمی معیشت کے ساتھ اس کے انضمام کو ایشیا کے زوال کی وجہ قرار دیا گیا۔ اگر آمدنی کی سطح کی بات کی جائے تو 1960ء کی دہائی کے آخر تک، ایشیا دنیا کا غریب ترین براعظم تھا۔ 

ترقی کے اس کے سماجی اشارے دنیا کے دوسرے براعظموں کے مقابلے میں بدترین اور اس کی پسماندگی کا مظہر تھے۔ اس وقت بڑے پیمانے پر ایشیا کے معاشی امکانات کے بارے میں گہری مایوسی پھیلی ہوئی تھی، جس کا اظہار سویڈش ماہر اقتصادیات گُنر میرڈل نے اپنی 1968ء کی کتاب ’ایشین ڈرامہ‘ میں بھی کیا تھا۔

ایشیا کی معاشی تبدیلی

اس کے بعد سے نصف صدی میں، ایشیا نے اپنی قوموں کی اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کے حالاتِ زندگی کے لحاظ سے ایک گہری تبدیلی دیکھی ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے، 2016ء تک ایشیا کا عالمی آمدنی میں حصہ 30فیصد، عالمی مینوفیکچرنگ میں 40فیصد اور عالمی تجارت میں ایک تہائی سے زیادہ تھا، جب کہ اس کی فی کس آمدنی عالمی اوسط کے قریب ہوگئی۔ یہ تبدیلی تمام ممالک اور لوگوں کے درمیان غیر مساوی تھی۔ اس کے باوجود، اس کی پیشن گوئی کرنے کے لیے ایک تخیل کی ضرورت ہوتی۔ اس مختصر عرصے میں ایشیا کی معاشی تبدیلی، تاریخ میں تقریباً بے مثال ہے۔

ایشیائی براعظم کے سائز اور تنوع کے پیش نظر، پورے خطے کو دیکھنا ہمیشہ مناسب نہیں ہوتا۔ لہٰذا، ایک تحقیق میں ایشیا کو اس کے چار جزوی ذیلی خطوں یعنی مشرقی، جنوب مشرقی، جنوبی اور مغربی ایشیا اور مزید 14منتخب ممالک میں تقسیم کیا گیا، جنہیں ایشیائی 14کے طور پر بیان کیا گیا۔ یہ مشرقی ایشیا میں چین، جنوبی کوریا اور تائیوان ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام؛ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، اور سری لنکا؛ اور مغربی ایشیا میں ترکی۔ یہ ممالک براعظم کی آبادی اور آمدنی کا پانچواں حصہ ہیں۔ جاپان کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ایشیا کا ایک زائد آمدنی والا ملک ہے اور 50سال پہلے ہی صنعتی ہو چکا تھا۔

ایشیا کے تنوع کو پہچاننا ضروری ہے۔ ممالک کے درمیان جغرافیائی حجم، سرائیت شدہ تاریخوں، نوآبادیاتی وراثت، قوم پرست تحریکوں، ابتدائی حالات، قدرتی وسائل، آبادی کے حجم، آمدنی کی سطح اور سیاسی نظام میں واضح فرق موجود ہے۔ منڈیوں پر انحصار اور معیشتوں کے دوسرے ممالک کی مصنوعات اور خدمات کے لیے سہولت فراہم کرنا مختلف ممالک میں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت مختلف ہے۔

پورے ایشیا میں، سیاست کا دائرہ آمرانہ حکومتوں سے لے کر سیاسی جمہوریتوں تک بھی ہے۔ اسی طرح نظریات بھی، کمیونزم سے لے کر ریاستی سرمایہ داری اور سرمایہ داری تک ہیں۔ ترقی کے نتائج ہر جگہ اور وقت کے ساتھ مختلف رہے۔ ترقی کے مختلف راستے تھے، کیونکہ وہاں کوئی آفاقی حل، جادو کی چھڑی یا الہٰ دین کا چراغ نہیں تھا۔

ہمہ گیر غربت برقرار

اس طرح کے تنوع کے باوجود، عام فہم پیٹرن موجود ہیں۔ معاشی ترقی نے ڈویلپمنٹ کو بڑھاوا دیا۔ ایشیا میں جی ڈی پی کی شرح نمو اور فی کس جی ڈی پی شاندار اور دنیا کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ تعلیم کے پھیلاؤ کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور بچت کی شرح بنیادی عوامل تھے۔ تیزی سے صنعتی ترقی کی وجہ سے مجموعی ترقی ہوئی، جس کی قیادت اکثر برآمدات نے کی اور یہ پیداوار اور روزگار کی ساخت میں تبدیلیوں سے منسلک تھی۔ تمام شعبوں میں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حمایت غیر روایتی جہاں بھی اور جب بھی ضروری ہو، جیسی مربوط اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے کی گئی۔

فی کس آمدنی میں اضافے نے ترقی کے سماجی اشاریوں کو تبدیل کر دیا کیونکہ خواندگی کی شرح اور زندگی کی توقع ہر جگہ بڑھ گئی۔ ہمہ گیر غربت (absolute poverty) میں بھی بڑے پیمانے پر کمی آئی۔ لیکن عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بے مثال ترقی کے باوجود جس پیمانے پر ہمہ گیر غربت برقرار ہے، یہ اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ 1984ء اور 2012ء کے درمیان غربت میں تیزی سے کمی آئی تھی۔

غربت میں بہت زیادہ کمی ہو سکتی تھی لیکن بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے لیے۔ جنوبی کوریا اور تائیوان کے علاوہ، دیگر ممالک کے اندر لوگوں کے درمیان عدم مساوات تقریباً ہر جگہ بڑھ گئی۔ اس کے باوجود ایشیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک کے درمیان فاصلہ بدستور برقرار ہے اور ایشیا کے امیر ترین اور غریب ترین ملک میں فی کس جی ڈی پی کا تناسب 1970ء اور 2016ء میں 100:1 سے زیادہ تھا۔

حکومتوں کا کردار

اقتصادی کشادگی (Openness) نے ایشیائی ترقی میں ایک اہم معاون کردار ادا کیا ہے، جہاں کہیں بھی یہ عالمی معیشت کے ساتھ اسٹریٹجک انضمام کی شکل میں تھی۔ مثال کے طور پر، تجارتی پالیسی برآمدات کے لیے آزاد لیکن درآمدات کے لیے محدود تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کو صنعتی پالیسی نے قومی ترقی کے مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دیا ہے۔ 

اگرچہ کامیاب صنعت کاری کے لیے اوپن نیس ضروری تھی، لیکن یہ صنعتی پالیسی کے ساتھ مل کر صرف صنعت کاری کے لیے کافی اور آسان نہیں تھی۔ ایشیا کی نصف صدی کی اقتصادی تبدیلی میں حکومتوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایشیا میں ڈویلپمنٹ کی کامیابی ریاستوں اور منڈیوں کے درمیان اس ابھرتے ہوئے تعلقات کو سنبھالنے کے بارے میں تھی (ان کے متعلقہ کرداروں میں صحیح توازن تلاش کرکے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں)۔

جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور کی ترقیاتی ریاستوں نے قومی ترقی کے مقاصد کے حصول کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں میں پالیسیوں کو مربوط کیا، اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی کا استعمال کیا، اور صرف 50 سال میں صنعتی ممالک بننے میں کامیاب ہوئے۔ چین نے ان ترقی پسند ریاستوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ نقل کیا اور ویتنام بھی دو دہائیوں بعد اسی راستے پر گامزن ہوا کیونکہ دونوں ممالک میں مضبوط یک جماعتی کمیونسٹ حکومتیں ہیں، جو پالیسیوں کو مربوط اور نافذ کر سکتی ہیں۔ 

ان ریاستوں کو ایشیا میں کہیں اور نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دوسرے ممالک، جیسے بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور ترکی نے کچھ ادارہ جاتی انتظامات کو تیار کیا (چاہے کم مؤثر بھی ہوں)، جو صنعت کاری اور ترقی کے لیے سازگار تھے۔ ان میں سے کچھ ممالک میں حکومتوں کو ترقی اور عوام دوست بنانے کے لیے سیاسی جمہوریتوں کا چیک اینڈ بیلنس بہت اہم تھا۔

ایشیا کا عروج دنیا میں معاشی طاقت کے توازن میں تبدیلی کے آغاز اور مغرب کے سیاسی غلبے میں کچھ کٹاؤ کی نمائندگی کرتا ہے۔ مستقبل کی تشکیل جزوی طور پر اس بات سے ہوگی کہ ایشیا کس طرح مواقع سے فائدہ اٹھاتا اور چیلنجز کا مقابلہ کرتا ہے اور جزوی طور پر اس بات سے کہ دنیا میں مشکل معاشی اور سیاسی جوڑ کیسے سامنے آتا ہے۔ 

پھر بھی یہ تجویز کرنا قابل فہم ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے ایک صدی بعد 2050ء کے قریب تک، ایشیا دنیا کی آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ لے گا اور زمین پر آدھے سے زیادہ لوگوں کا گھر ہوگا۔ دنیا میں اس کی معاشی اور سیاسی اہمیت ہوگی جس کا 50 سال پہلے تصور بھی مشکل تھا، بھلے سے یہ 1820ء میں حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔

حکومتوں کا توازن قائم کرنا

جیسے جیسے یہ مستقبل سامنے آتا ہے، حکومتوں کو کچھ چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انہیں تجارت اور سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ اصلاحات کرنے، سماجی اور مالی شمولیت کو فروغ دینے، ہارڈاینڈ سوفٹ انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انھیں مسابقتی اور مناسب طور پر ہنر مند افرادی قوت کو یقینی بنانے کے لیے تعلیم میں جدت اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ جب وہ یہ سب کرتے ہیں، تو انھیں تکنیکی ترقی اور ملازمت کی تخلیق اور ہنر کی بحالی، اقتصادی ترقی اور پائیداری، اور پیمانے (scale) کے فوائد اور طاقت کے ارتکاز میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔