پاکستانی تفتیشی ٹیم کی جانب سے کینیا میں سینئر صحافی و اینکر ارشد شریف کی موت کی تحقیقات جاری ہیں۔
ٹیم کے ارکان نے فائرنگ سے متاثرہ گاڑی، اول ٹیپیسی فارم، جائے وقوع اور ارشد شریف کے آخری ڈنر کے مقام کا دورہ کیا۔
کینیا میں واقعے کے روز ارشد شریف کے ساتھ موجود خرم احمد نے ٹیم کو بتایا کہ جائے وقوع سے اول ٹیپیسی فارم 22 کلو میٹر دور ہے، بیشتر راستہ کچا ہے۔
تفتیش کی روشنی میں جائے وقوع پر پورے واقعے کے ریہرسل بھی کی گئی۔
تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ارشد شریف نے جس لاج میں ڈنر کیا تھا وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں ہے۔
ٹیم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ لاج کے علاقے میں بجلی بھی جنریٹر اور متبادل ذرائع سے فراہم کی جاتی ہے۔
پاکستانی تفتیش کاروں کو کینیا کے حکام نے بھی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
تفتیشی ٹیم کے ارکان نے واقعے کے روز ارشد شریف کے ساتھ موجود خرم احمد سے تفصیلی تفتیش کی۔
خرم احمد نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ میں اچانک فائرنگ سے گھبرا گیا تھا، واقعے کے فوری بعد بھائی وقار کو کال کی، محسوس ہوا فائرنگ کے بعد بھی میرا پیچھا کیا جا رہا ہے تو گاڑی بھگائی، وقار نے اول ٹیپیسی فارم پہنچنے کا کہا۔
خرم کے بھائی وقار احمد نے ٹیم کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ خرم کی کال آئی تو اس نے گاڑی پر فائرنگ کا بتایا، کال آتے ہی میں بھی اول ٹیپیسی فارم کے لیے نکل گیا۔
وقار احمد کا مزید کہنا ہے کہ راستے سے کینیا پولیس کے حکام اور پاکستانی دوست کو تفصیلات بتائیں، اول ٹیپیسی فارم پہنچا تو ارشد شریف کی لاش گاڑی میں موجود تھی۔
تفتیشی ٹیم کو وقار احمد نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت تک پولیس کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کیے جانے کا شبہ نہیں تھا، میرے پہنچنے کے بعد کینیا کے پولیس افسران بھی پہنچے جنہوں نے شواہد جمع کیے۔
واضح رہے کہ 22 اور 23 اکتوبر کی درمیانی شب کینیا میں موجود صحافی ارشد شریف کو گاڑی میں جاتے ہوئے کینین پولیس نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران پر مشتمل ٹیم صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا میں موجود ہے۔