• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاد نہیں پڑتا کہ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو براہ راست میڈیا کے سامنے آ کر اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے خلاف مزاحمتی تنظیموں کا دست و بازو بنتے ہوئے آئی ایس آئی پیشہ ورانہ مہارت کی نئی بلندیوں تک پہنچی اور اس کا شمار دنیا کی صف اول کی ایجنسیوں میں ہونے لگا۔ یہ سب کچھ سانحہ بہاولپور میں شہید ہونے والے جنرل اختر عبدالرحمٰن کی قیادت میں ہوا۔ داخلی سیاسی اور خارجی عوامل کے شدید دبائو کے باوجود جنرل اختر آخری لمحے تک میڈیا سے دور رہے۔ جہاں افغانستان میں ان کے اور آئی ایس آئی کے کردار کی تمام تفصیلات سانحہ بہاولپور کے بعد منظر عام آئیں۔

جنرل ندیم انجم نے بھی اپنے پیش رو سے قطع نظرمیڈیاسے گریز کی اسی روایت کو پسند کیا۔ سو 27؍اکتوبر کو یکایک ان کی ’’رونمائی‘‘ اچنبھے کی بات تھی۔ انہیں خود بھی اس کا اندازہ تھا۔لہٰذا ابتدا میں ہی کہہ دیا کہ ’’ذاتی تصاویر اور تشہیرپر میری پالیسی واضح ہے۔ آج میں اپنی ذات کے لئے نہیں اپنے ادارے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ جنرل کی دلیل بجا تھی۔ بلاشبہ جھوٹ کے طورمار اور بہتان کے انبار کے بعد روایت کی کھوہ سے نکلنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ فوج عمران خان کی طرف سے برہنہ، کرخت، بے ڈھب اور زہر ناک تنقید کی زد میں تھی۔ یہ تنقید نہیں، کھلی توہین، تضحیک اور دشنام طرازی تھی۔ نام لے لےکر اور نام دے دے کر زہر میں بجھے ایسے تیر برسائے گئے کہ ساری حدیں پامال ہوگئیں۔ یہاں تک کہ آرمی چیف کی تقرری کے نہایت حساس موضوع کو بھی ’متاع کوچہ و بازار ‘بنا دیا۔گزشتہ پون صدی کے دوران فوج کے سیاسی کردار پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی۔ کبھی دھیمے، کبھی اونچے سروں میں۔ اس مرض کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں کیا گیاتھا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ عمران خان نے فوج کو تختۂ مشق اس وقت بنایا جب وہ سیاست سے دستکش ہو کر سختی سے اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کا ادارہ جاتی فیصلہ کرچکی تھی۔ خان صاحب صرف اس لئے انگاروں پرلوٹ رہے ہیں کہ فوج ان کی پدرانہ و مادرانہ سرپرستی سے دستبردار ہو کر اپنے دستوری وظیفے کی طرف کیوں پلٹ گئی ہے؟

عمران خان کے اس اضطراب کا تجزیہ مشکل نہیں۔ تحریک انصاف نے 1996ء میں آنکھ کھولی۔ اگلے برس 1997ء کے انتخابات میں کوئی نشست اس کے حصے میں نہ آئی۔ خود عمران خان آٹھوں نشستوں سے ہار گئے۔ انتخابی راستہ انہیں مشکل لگا۔ جلد ہی اکتوبر 1999ء میں مارشل لا کا ناقوس بجا۔ بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وجود میں آنے والی ایک نوزائیدہ جماعت کے پرعزم قائد کی حیثیت سے عمران خان کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ ماضی کی متعفن روایات سے ہٹ کر آئین اور جمہوریت کی پاسبانی کے لئے سرِ مقتل آئیں اور پوری توانائی کے ساتھ وہ کچھ کہیں جو آج تیئس برس بعد وہ (ناروا طور پر) کہہ رہے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ آئین، جمہوریت، عوامی حاکمیت اور تبدیلی کے نعروں کو غیر مستعمل بلّے کی طرح کباڑ خانے میں پھینک کر آئین شکن ڈکٹیٹر کی انگلی تھامے اپنی منزل مراد کی طرف سفر کا آغازکریں۔ تب خان صاحب نے آئین شکن کو جانور کہا نہ میر جعفر نہ میرصادق نہ کچھ اور۔ انہوں نے آمریت کی زنجیریں توڑ کر ’’حقیقی آزادی‘‘ کا نعرہ بھی نہ لگایا۔ رضا کارانہ خود سپردگی کے والہانہ پن کے ساتھ ڈکٹیٹر کے عزائم کے طوق و رسن کو زیب دست و گلو کیا اور ساری امیدیں ایک جرنیل کی خوشنودی و دلداری سے جوڑ لیں۔ تن من دھن سےمشرف کےرسوائے زمانہ ریفرنڈم کا ہر اول دستہ بن گئے۔ معاوضے کے طور پر ڈکٹیٹر کے سامنے قومی اسمبلی کی ایک سو نشستوں کا بھاری بھرکم بل پیش کردیا۔ مشرف نے کہا ’’انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق آپ کی اوقات زیادہ سے زیادہ چار پا پانچ سیٹیں ہیں۔ میں آپ کو آٹھ سے دس سیٹیں دے سکتا ہوں‘‘۔ خان صاحب کے شیشۂ دل پر بال آگیا۔ الیکشن لڑا۔ صرف اپنی نشست جیت پائے۔ لیکن یہ بات ان کی کتاب سیاست کا سنہری درس بن گئی کہ بارگاہ اقتدار تک پہنچنے کےلئے صرف آمروں یا طاقت کے حقیقی سرچشموں کی اشیر باد ہی ثمر آور ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خان صاحب اس درس کو نہیں بھولے۔ بس اپنی کشتِ ویراں کی منڈیر پر بیٹھے آسماں پہ نظریں جمائے ابربہار کی دعا مانگتے رہے۔ لگ بھگ ایک عشرے کے بعد مارگلہ کی پہاڑیوں سے سرمئی گھٹا اٹھی تو خان صاحب کو لگا کہ تخم آرزو پھوٹنے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ پی ٹی آئی کی بلائیں لیتی ہوائوں کا پہلا بڑا مظاہرہ 2011ء کا لاہوری جلسہ تھا۔ ستم یہ ہوا کہ رخصت کے لئے کمر بستہ آرمی چیف جنرل کیانی نے کھل کھیلتی خود معاملہ ہوائوں کو اپنی حدوں میں رہنے کا سخت حکم جاری کیا۔ مارگلہ سے اٹھنے والی گھنگھور گھٹائیں بن برسے اپنے ٹھکانوں کو پلٹ گئیں۔ جنرل کیانی کے رخصت ہوتے ہی ’’انصاف پرور‘‘ ہوائوں اور گھٹائوں نے ایک بار پھر قیامت خیز انگڑائی لی۔ یہ توبہ شکن انگڑائی نواز شریف کی نااہلی، آر ٹی ایس کی ناگہانی موت اور اس وقت کے ڈی جی، آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کے اس ٹویٹ پر ٹوٹی ۔’’وَتُعزو من تشاء وَ تذلُ و من تشاء‘‘ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ ہوائوں اور گھٹائوں کی سرشاری جاری رہی۔ وہ خان صاحب کی کشتِ ویراں کو آبِ زر سے سینچتی اپنےلہو میں گندھی کھاد ڈالتی اور اپوزیشن کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مسلسل ’’کرم کُش‘‘ ادویات چھڑکتی رہیں۔ پونے چار برس بعد پتہ چلا کہ اس کشتِ ویراں سے صرف خنجر نما کانٹے ہی اگ سکتے ہیں۔ شکستہ دل ہوائوں اور گھٹائوں نے بستر سمیٹا اور اپنی گھپائوں میں بُکل مار کربیٹھ گئیں۔ مسلح افواج نے عہد کیا کہ آئندہ وہ اپنی مقدس وردی کو سیاسی آلائشوں سے پاک رکھیں گی۔ یکایک خان صاحب لق و دق دشتِ بے اماں کی جلتی بلتی دھوپ میں تنہا رہ گئے۔ اب وہ فوج کے خلاف صرف اس لئے آگ اگل رہے ہیں کہ اس نے ان کے سر پر تنا سائبان عافیت کیوں اٹھا لیا ہے؟

آئی ایس آئی چیف نے ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے طور پر کھری کھری سنا دیں۔ کہہ دیا کہ ’’دن کو جانور، میر جعفر اور میر صادق کہتے ہو تو راتوں کو چھپ چھپ کر ملتے کیوں ہو؟‘‘ جنرل صاحب کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ عاشق و معشوق کے مابین دل کے معاملات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مصطفیٰ خان شیفتہ نے کہا تھا:

تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار

شب موم کر لیا، سحر آہن بنا لیا

جنرل افتخار بابر تو اب فن ابلاغیات پر استادانہ دسترس حاصل کرچکے ہیں لیکن جنرل ندیم انجم کی اردو کی تحسین بھی لازم ٹھہرتی ہے۔ کیا کمال کا جملہ ہے۔ ’’جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فراوانی سے بولا جانے لگے تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہوتی‘‘۔ جنرل ندیم کی اردو دانی ان کی ’’چہرہ نمائی‘‘ کی طرح حیران کرگئی۔

تازہ ترین