پاکستان کی موجودہ تشویشناک صورتحال، سیاسی عدم استحکام، کمزور معاشی حالات، گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان کیلئے منفی کریڈٹ ریٹنگ، انٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی بانڈز کی قیمت میں ریکارڈ کمی، عالمی کساد بازاری سے ملکی ایکسپورٹ میں کمی، 30فیصد افراط زر یعنی مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، سیاسی عدم استحکام اور لانگ مارچ کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان کو آئندہ 5 سال میں ڈیفالٹ کا خطرہ یعنی Credit Default Swap (CDS) بڑھ کر 52.8 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ 13 سال میں سب سے زیادہ ہے جس کا سب سے زیادہ اثر حکومتی ڈالر سکوک بانڈز کی قیمت پر پڑا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی بانڈز کی قیمت 60 سے 65فیصد کم ہوگئی ہے اور عالمی سرمایہ کاروں میں اس کی وقت پر ادائیگی پر تشویش پائی جاتی ہے حالانکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے سرمایہ کاروں کو یقین دلایا ہے کہ حکومت 5دسمبر 2022ء کو ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی وقت پر ادائیگی کرے گی جس سے اس کی قیمت میں بہتری آئی ہے لیکن 2024اور 2036میںواجب الادا بانڈزکی قیمتیں اب نچلی ترین سطح پرآچکی ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے جس کاڈیفالٹ کرناناقابل برداشت ہوگا۔ پاکستان کے بیرونی قرضوںمیں 42 فیصد قرضے کنسورشیم ممالک، 40 فیصد باہمی ممالک، 7 فیصد عالمی بانڈز مارکیٹ اور 7 فیصد کمرشل بینکوں کے ہیں۔ رواں مالی سال 2022-23ء میں پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جبکہ ہمارے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 7.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیںجو ایک مہینے کی امپورٹ کیلئے ہیں جبکہ اگست 2021ء میں ہمارے بیرونی ذخائر 20ارب ڈالر تھے جو 3مہینے کی امپورٹ کیلئے کافی تھے۔ پاکستان نے چین سے 6.3 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کرنے کی درخواست کی ہے جو اس سال واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے سیلاب کے معاشی نقصانات کے پیش نظر پیرس کلب کے قرضوں کے علاوہ 27 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست بھی کی ہے جس میںزیادہ تر قرضے چین کے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2022-23ء میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے 22.8 ارب ڈالر کے فنڈز ملنے کی توقع ہے جن میں چین، یو اے ای اور سعودی عرب کے سافٹ ڈپازٹ بھی شامل ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ یعنی ڑھ کر 52.8فیصد ہوگیا ہے جو فروری 2020 میں کورونا سے پہلے صرف 5 سے 6 فیصد تھا اور IMF پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 30 فیصد ہوگیا تھا لیکن IMF کے 6.5 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی اور1.2 ارب ڈالر کی قسط ملنے اور دیگر مالیاتی اداروں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر فنڈز کے اعلان کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی آئی تھی لیکن موجودہ معاشی صورتحال، سیلاب کے متوقع 30ارب ڈالر کے معاشی نقصانات، سیاسی عدم استحکام اور موڈیز اور فٹچ کی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کرنے کی وجہ سے یہ خطرہ دوبارہ بڑھ کر ریکارڈ 52.8فیصد ہوگیا ہے جو بیرونی سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت پر اعتماد میں کمی ظاہر کرتا ہے۔ قرضے لے کر ملک نہیں چلایا جاتا۔ IMFکی اس مہینے کی رپورٹ کے مطابق رواںمالی سال پاکستان کی جی ڈی پی میں قرضوںکی شرح79 فیصد ہے جسے 2027ء تک کم کرکے 60 فیصد تک لانا ہوگا کیونکہ اضافی قرضوں سے قومی خزانے پر سود کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام (UNDP) کے مطابق کساد بازاری کی وجہ سے دنیا کے 54 ممالک معاشی بحران کا شکار ہیں جس میں 46 ممالک کے قرضے 2020 میں بڑھ کر 782 ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے جن میں ایک تہائی قرضے ارجنٹینا، یوکرین اور وینزویلا کے ہیں۔ ان ممالک میں 19 ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں جس میں سری لنکا، پاکستان، تیونس، چاڈ اور زیمبیا شامل ہیں۔میرے بے شمار قارئین نے اس حساس موضوع پر مجھ سے لکھنے کی درخواست کی تھی۔ میں ہمیشہ سے ایک مثبت لکھاری رہا ہوں اور آج کا کالم لکھنے کا مقصد بھی حکومت کو وہ تجاویز دینا ہیں جس سے پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان نے 1999ء میں ایک بار فارن کرنسی اکائونٹس اور بانڈز کی ادائیگی پر جزوی ڈیفالٹ کیا تھا لیکن وہ ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے تھا لیکن اس کے بعد سے پاکستان کا ایک اچھا ٹریک ریکارڈ ہے۔ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان حال ہی میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 1.5ارب ڈالر کے فنڈز اسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں جمع کرادیئے ہیں جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 9ارب ڈالر تک پہنچ جائینگے جس میں کمرشل بینکوں کے 5.7ارب ڈالر شامل نہیں لہٰذا ہمیں ملکی امپورٹس میں کمی اور ایکسپورٹس میں اضافہ کرکے تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میںکمی لانا ہوگی۔ میری سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ملکی مفاد میں مذاکرات کے ذریعے موجودہ سیاسی عدم استحکام ختم کریں تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرکے پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی لائی جاسکے۔