کوئی مانے یا نہ مانے، سارا پھڈا نئے آرمی چیف کی تقرری کا ہے، ایک سال پہلے یہ پھڈا اس وقت شروع ہوا جب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2019ء میں تین سال کی توسیع دے چکے تھے لیکن اکتوبر 2021ء میں آئی ایس آئی کے ڈی جی کی ٹرانسفر پر جنرل باجوہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے جنرل باجوہ کو قبل از وقت فارغ کرکے اپنے کسی ذاتی وفادار کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ عمران خان فوج کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے، جب فوجی قیادت نے آئینی مجبوریوں کے نام پر استعمال ہونے سے انکار کیا تو خان صاحب سیخ پا ہوگئے۔ پھر تحریک عدم اعتماد آگئی تو جنرل باجوہ کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔
اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان نے صدر عارف علوی کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جنرل باجوہ کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی اور جب کامیاب نہ ہوئے تو آرمی چیف سمیت کچھ دیگر افسروں پر براہ راست تنقید شروع کردی۔
تین نومبر کو وزیر آباد کے قریب عمران خان پر قاتلانہ حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا اور اگلی شام خان صاحب نے شوکت خانم ہاسپیٹل لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں۔ انہوں نے ایک فوجی افسر کا نام لے کر اس پر سنگین الزامات لگائے اور یہ بھی بتادیا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ آئی ایس پی آر نے عمران خان کے الزامات کو بڑے سخت الفاظ میں مسترد کردیا۔
اسکے بعد تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے دھاڑیں مارمار کر ایک پریس کانفرنس کی۔ سواتی صاحب نے جو انکشاف کیا وہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا۔ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز اور کچھ دیگر سیاستدانوں کی فلمیں بنائی گئی ہیں۔
اعظم سواتی کو انصاف ملنا چاہئے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ جب تحریک انصاف کے کچھ رہنما اعظم سواتی کے معاملے میں کچھ فوجی افسران کو گھسیٹ رہے تھے تو اسی شام عمران خان کی کچھ قریبی شخصیات بعض فوجی افسران سے رابطے کرکے مفاہمت کے راستے تلاش کر رہی تھیں۔
اس وقت پاکستان کو جس پھڈے میں پھنسا دیاگیا ہے اس پھڈے میں سے نکالنے کیلئے مفاہمت کی کوشش کوئی بری بات نہیں لیکن مفاہمت کیلئے یہ کہنا کہ جنرل باجوہ جاتے جاتے فلاں یا فلاں کو آرمی چیف بنوا دیں تو سب ٹھیک ہو جائیگا، انتہائی نا مناسب ہے۔
مفاہمت کیلئے نئے انتخابات کی تاریخ مانگنا بالکل جائز ہے لیکن اپنی مرضی کا آرمی چیف مانگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماری مقبول سیاسی قیادت عوام پر کم اور آرمی چیف پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ کمزوری ہمیں صرف عمران خان میں نظر نہیں آتی۔ ماضی کے اکثر مقبول وزرائے اعظم نے سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے من پسند افراد کو آرمی چیف بنایا اور ان میں سے کوئی بھی اپنے من کی مرادیں حاصل نہ کرسکا۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1951ء میں دو سینئر جرنیلوں محمد اکبر خان اور این اے ایم رضا کو نظر انداز کرکے ایوب خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کو جنرل محمد اکبر خان کی آپ بیتی ’’میری آخری منزل‘‘ ضرور پڑھنی چاہئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ پہلے پاکستانی آرمی چیف کی تقرری سے قبل کیا کیا سازشیں ہوئیں؟ فوج کے سب سے قابل اور سینئر افسر جنرل افتخار خان اچانک ایک پراسرار فضائی حادثے کا شکار ہوگئے۔ محمد اکبر خان اور این اے ایم رضا کو اسلئے نظر انداز کیا گیا کہ وہ کسی برطانوی افسر کو پاکستانی فوج کا سربراہ بنانے کیخلاف تھے۔ لہٰذا لیاقت علی خان نے سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کے مشورے پر ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔
اسی ایوب خان نے سکندر مرزا کی ملی بھگت سے پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان صدر بن گئے تو انہوں نے تین جرنیلوں کی سنیارٹی کو نظر انداز کرکے موسیٰ خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ 1966ء میں ایوب خان نے ایک دفعہ پھر دو سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کیا اور یحییٰ خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ یحییٰ خان نے اپنے محسن ایوب خان سے 1969ء میں استعفیٰ لیا اور دوسرا مارشل لا لگا دیا۔
1976میں پاکستان کے ایک مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف کی تقرری میں سات فوجی افسران کی سنیارٹی کو نظر انداز کیا اور بہت جونیئر افسر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا دیا۔ ان صاحب نے 1977ء میں مار شل لا لگایا اور 1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی پر لٹکانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھٹو صاحب کے بعد یہی کام ایک اور مقبول وزیر اعظم نواز شریف نے بار بار کیا۔ 1998ء میں انہوں نے دو فوجی جرنیلوں کی سنیارٹی کو نظر انداز کیا اور جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ موصوف نے ایک سال کے اندر اندر نواز شریف کو فارغ کرکے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نواز شریف نے 2013ء میں ایک دفعہ پھر دو سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا۔ یہ صاحب فیلڈ مارشل بننے کا خواب دیکھنے لگے اور ایک موقع پر مارشل لا لگانے والے تھے لیکن کچھ ساتھی افسروں نے انہیں روک دیا اور نواز شریف بڑی مشکل سے بچ گئے۔ 2016ء میں نواز شریف نے چار سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا اور ایک سال کے بعد نواز شریف جی ٹی روڈ پر خلائی مخلوق کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
یاد کیجئے کہ 2019ء میں جنرل باجوہ کے بطور آرمی چیف تین سال مکمل ہوئے تو ملک ایک نئے پھڈے میں پھنسا ہوا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان، لندن میں بیٹھے نواز شریف اور نیب کے قیدی آصف زرداری نے ایک ’’عظیم اتفاق رائے‘‘ کے ساتھ جنرل باجوہ کو توسیع دے دی لیکن سپریم کورٹ نے پوچھا کہ یہ توسیع کس قانون کے تحت دی گئی؟ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سیاستدان پارلیمینٹ میں اکٹھے ہوگئے اور توسیع کا قانون منظور کرا کے سپریم کورٹ کا منہ بند کردیا۔
جس جنرل باجوہ کو عمران خان نے خود توسیع دلائی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر ان کی توسیع کا قانون بنوایا، آج وہی جنرل باجوہ بہت بڑا ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں آرمی چیف کو صدر اور وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے اور اسی لئے ہر وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتا تھا۔ کیا یہ تقرری صرف اور صرف میرٹ پر نہیں ہوسکتی؟
اگر عمران خان بھی 2019ء میں میرٹ کا خیال رکھتے تو آج ہاسپیٹل میں پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ نہ بتارہے ہوتے کہ مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔
قانون کے تحت عمران خان کو اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کرانے کا حق حاصل ہے لیکن جس ملک میں ساری طاقت آرمی چیف کے پاس ہو وہاں قانون پیچھے رہ جاتا ہے، فوج آگے نکل جاتی ہے۔