SMS: #KMC (space) message & send to 8001
شام مغربی ایشیا کا قدیم اسلامی ملک ہے جس کا سرکاری نام عرب جمہوریہ شام (الجمہوریہ، العربیہ السوریہ ) ہے یہاں مسلمانوں کے بڑے مقدس مقامات ہیں، اس کی سرحدیں مغرب میں لبنان اور بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ ترکی اس کے شمال، عراق مشرق اور اردن جنوب میں جبکہ اسرائیل جنوب مغرب میں واقع ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے خلافت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میںشامی قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کی لیکن قوم پرستوں کے عزائم امن تصفیہ میں اس وقت پاش پاش ہو گئے جب 1920میں لیگ آف نیشنز نے شام اور لبنان پر فرانس کا تسلط تسلیم کر لیا۔ 1918میں فیصل بن حسین نے دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کی جس کے تحت شام، لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے آتے تھے۔ 1921میں شام چھ ریاستوں میں تقسیم ہوا اور کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ 1932میں پہلی دفعہ شام میں آزادی کا اعلان ہوا مگر فرانس کی ہٹ دھرمی اور جنگی پالیسی اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب فرانس اور برطانیہ معاشی بدحالی کا شکار ہوئے تو انہوں نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کر لیا اور بالآخر سترہ اپریل 1946کو شام آزاد ہوا لیکن بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہی حکومتیں بنانے اور گرانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ فوج بھی اقتدار سنبھالتی رہی۔ نیشنل بلاک، سیرین سوشل نیشنل پارٹی، عرب لبریشن موومنٹ اور نیشنل یونین کی حکومتیں بنیں۔ 1963میں فوج نے صدر ناظم ال قدسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور حکومتی امور چلانے کے لئے انقلابی کمانڈ کونسل (NCRC)قائم کی۔ اس کونسل نے لواے ال اتاشی کو صدر تعینات کیا لیکن بعدازاں ملٹری کمیٹی نے ان سے استعفیٰ لے کر بعث پارٹی کے امین الحفیظ کو صدارت سونپ دی جنہوں نے 27جولائی 1963کو یہ عہدہ سنبھالا اب تک شام میں بعث پارٹی ہی برسراقتدار ہے۔ پارٹی کی نیشنل کمانڈ کی حمایت کھودینے کے بعد امین الحفیظ کو 23فروری 1966کو سبکدوش کر دیا گیا اور نورالدین العطاشی کو صدارتی اختیارات سونپ دیئے گئے۔ وہ نومبر 1970تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے 1966سے 1970 تک شام کے اصل حکمران صالح جدید سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے والد جنرل حافظ الاسد نے جو اس حکومت میں وزیر دفاع تھے نومبر 1970میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ مارچ 1971میں انہوں نے خود صدر بننے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت ملک میں یک جماعتی نظام تھا، اسد خاندان 1970سے شام پر حکمرانی کررہا ہے۔ اس خاندان کو کئی بار بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1976سے شروع ہونے والی بغاوتوں کا سلسلہ 1982تک جاری رہا۔ جنرل حافظ الاسد عہدہ صدارت پر اپنی وفات 2000تک فائز رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد نے صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور لوگوں کو امید دلائی کہ وہ ملک میں جمہوری اصلاحات نافذ کریں گے۔ بشارالاسد حکومت نے2003 میں امریکہ کے عراق پر حملہ کی مخالفت کی تھی جس کے جواب میں بش انتظامیہ نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر ان کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ شام کی سیکورٹی کے معاملات علوی قبیلہ جوملکی آبادی کا 12فیصد ہے کے ہاتھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب بشارالاسد کے والد حافظ الاسد نےاقتدار کے آخری سالوں میں آزاد منڈی کی پالیسیاں متعارف کرائیں تو سماجی و اقتصادی تفاوت میں بے حد اضافہ ہوا پھر بشارالاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ فرق بڑھتا چلا گیا چونکہ ان کی پالیسیوں میں سروسز سیکٹر (خدمات کی فراہمی) پر زیادہ توجہ دی گئی اسلئے قومی آبادی کی مخصوص اقلیت ہی اس سے فائدہ اٹھا سکی۔ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ یہ تاثر ابھرا کہ بشارالاسد نے جمہوری اصلاحات کے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ مارچ 2011میں جب حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو یہ پرامن تھے لیکن ریاستی تشدد نے انہیں پرتشدد ہنگاموں میں تبدیل کر دیا۔شام میں اس وقت کئی باغی گروپ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں جنہیں مختلف بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بعض باغی گروپ امریکہ اور مغرب کے حمایت یافتہ ہیںروس جسے بشارالاسد کا سب سے بڑا حامی کہا جاتا ہے وہ شامی حکومت کی حمایت وسیع تر تجارت اور فوجی مفادات کی وجہ سے کررہا ہے کیونکہ دونوں ملک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ روس کے شام میں اسٹرٹیجک مفادات بھی ہیں۔ شام نے روس کو اپنی طرطوس بندرگاہ تک رسائی دے رکھی ہے اور یہ روس کا بحیرہ روم میں واحد بحری اڈہ ہے۔ بڑا کاروباری طبقہ حکومت کا حامی ہے جسے ریاستی خصوصاً درآمدات و برآمدات کے ٹھیکوں سے نوازا گیا ہے۔ وہ غیریقینی سیاسی تبدیلی کی بجائے موجودہ نظام کی حمایت میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ شام کا مسئلہ اس وقت بڑا دل سوز اور پیچیدہ بن چکا ہے۔ شامی افواج اور باغی گروپوں کے مابین پانچ سال سے جاری خانہ جنگی میں پہلی بار فروری میں روس اور امریکا کی کوششوں سے اہم عبوری جنگ بندی کا نفاذ عمل میں آیا۔ دنیا کی نظروں میں حکومت اور متحارب گروپوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی پاسداری ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے کیونکہ فریقین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات بدستور سامنے آرہی ہیں۔