• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ہم تعلیم میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں؟

تعلیم محفوظ، منظم، پیش قیاسی نظاموں پر انحصار کرتی ہے۔ کووڈ-19 وبائی مرض نے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو سکھایا ہے کہ ہمارے نظام کتنے باہم مربوط ہو سکتے ہیں۔ بچوں میں ذہنی صحت کا بحران جو کہ وبائی مرض سے پہلے ہی پیدا ہو رہا تھا، اب اس کا تناسب بڑھ رہا ہے، بچے اب ڈپریشن، اضطراب اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وبائی مرض اساتذہ، طلبہ، والدین اور کمیونٹی ممبران کے لیے بچوں کی جانب سے اکٹھے ہونے اور تعلیم پر مکمل طور پر نظر ثانی کرنے اور بچوں کی بہتر معاونت کرنے کے لیے عمل انگیز ثابت ہو۔ اس کے لیے ایک نیا پیشہ ورانہ ترقی کا پروگرام، ٹرانسفارمیٹو ایجوکیشنل لیڈرشپ (TEL) نظام بھر میں تعلیمی تبدیلی کو مؤثر طریقے سے سہولت فراہم کرنے کے لیے لیڈروں کو تیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

تبدیلی کی سائنس

اسکولوں میں بہتری کے لیے مسلسل کوشش کی جاتی ہے، لیکن بہتری جو کچھ ہم پہلے سے موجود نظاموں کے اندر سے کر رہے ہیں، اس سے بنیادی طور پر یہ کبھی بھی نہیں بدلے گا کہ ہم کون ہیں یا ہم کیسے سوچتے ہیں۔ بہتری کبھی بھی عدم مساوات کو ختم نہیں کرے گی۔ ہم اسی طرح کے نتائج حاصل کرتے رہیں گے جب تک کہ ہم تعلیم کو بالکل نئے انداز میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ 

سب سے پہلے 1978ء میں سماجیات کے ماہر جیک میزرو کی طرف سے ایک نظریہ پیش کیا گیا، ’تبدیلی آمیز سیکھنے کا نظریہ‘ تسلیم کرتا ہے کہ بالغ افراد کچھ بنیادی طریقوں سے بچوں سے مختلف طریقے سے سیکھتے ہیں۔ جب بالغ لوگ سیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں، تو وہ اپنے ساتھ زندگی کے تجربات سے مالامال اور ایک انتہائی وسیع نظریے کے مالک ہوجاتے ہیں۔

بنیادی طور پر سیکھنے کی دو اقسام ہیں؛ ایک تکنیکی علم سیکھنا، جس میں نیا علم یا ہنر سیکھتے ہیں اور اس کو اپنے موجودہ عالمی نظریہ کے اندر ضم کرتے ہیں۔ دوسرا تغیراتی علم سیکھنا (transformative learning) ، جس میں ذہن کو سوچنے کے نئے زاویے ملتے ہیں اور نئے کردار اور طرز عمل اختیار کیے جاتے ہیں۔ 

سیکھنے کا نظریہ کہتا ہے کہ جب تک ہم تغیراتی علم سیکھنے میں مشغول نہیں ہوتے، طلبہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں ترقی یا توسیع نہیں دیتے۔ تعلیمی اداروں کا بھی یہی حال ہے جیسے کہ اسکول، جب تک وہ تغیراتی علم سیکھنے میں مصروف نہ ہوں، وہ ان بنیادی عقائد اور طرز عمل کو تبدیل نہیں کر رہے ، جنہوں نے ان غیر مساوی نتائج کو جنم دیا جن کا ہم فی الحال تجربہ کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا، ’’کسی بھی مسئلے کو اسی سطح کے شعور سے حل نہیں کیا جا سکتا جس نے اسے پیدا کیا ہے‘‘۔

چیلنج یہ ہے کہ تغیراتی علم سیکھنا آسان نہیں ہے۔ فرد کے طور پر، جب ہم تبدیل ہوتے ہیں، تو ہم اس بات کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور کچھ نیا بننے کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ اداروں کے طور پر، تغیراتی تبدیلی کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ کیا ہوگا اگر اسکول کی سطح پر ٹرانسفورمیشن کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے اور ہمیں غیر پیشہ ور نظر آتی ہے، مزید افراتفری کا باعث بنتی ہے یا سب سے زیادہ بچوں کو نقصان پہنچاتی ہے؟ حالات بہتر ہونے سے پہلے بہت زیادہ خراب ہو سکتے ہیں، یہ ایک ایسا عمل ہے جسے سسٹم سائنس نفاذ کے وقت کمی (implementation dip)سے تشبیہ دیتی ہے۔ 

اسکول چلانے والے بہت کم لوگوں میں قدرتی طور پر ہمت، وژن، مزاج اور ٹرانسفورمیشن کی قیادت کرنے کی مہارت ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے، ایسے لیڈرز کو تربیت دی جاسکتی ہے جو عملے، طلبہ اور ان کے خاندانوں کو یہ سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور شاید وہ اس تبدیلی کے پیچھے ہاتھ بھی بٹائیں۔ تغیراتی علمی تیکنیکس استعمال کرنے سے اساتذہ کو لاشعوری اور جسمانی سطحوں پر سیکھنے کا تجربہ کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ اس تبدیلی کو اپنے اسکولوں میں مستند طریقے سے لاگو کرسکتے ہیں۔

بیداری سے تبدیلی تک

جب افراد باطنی طور پر ترقی کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں تو وہ ذاتی، پیشہ ورانہ اور نظامی سطحوں پر ایسے اقدامات کریں گے جو ہر بچے اور بالغ کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ماہرین تعلیم کو انفرادی تبدیلی کا موقع فراہم کیا جائے اور ادارہ جاتی اور سماجی تبدیلی کی رہنمائی کے لیے ضروری مہارتیں پیدا کی جائیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ اساتذہ طلبہ کو موقع فراہم کریں کہ وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنائیں۔ 

ایسے اشارے ملتے ہیں کہ ایک کامیاب ٹرانسفورمیشن اس وقت تک ناممکن ہے جب تک طلبہ اپنے خیالات کے لیے فعال اقدامات کرنے سے قاصر ہوں۔ اساتذہ، طلبا کو ایسے مواد کے ساتھ تنقیدی سوچ کے مواقع پیش کر سکتے ہیں جو نئے آئیڈیاز یا آراء کو متعارف کرائے۔ اس کے بعد، طلبہ کو دوسرے طلبہ کے ساتھ بات چیت اور اپنے مفروضوں اور یقین کی تنقیدی عکاسی کے ذریعے نئے کانٹینٹ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔