• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جین مندر دراصل جین مت کے پیروکاروں کی عبادت گاہ تھی۔یہ کافی اونچا سفید قلعی والا مندر تھا، جین مندر زیادہ وسیع رقبے پر نہیں تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ اس مندر میں لوگ رہائش پذیر تھے، یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں کون لوگ رہتے تھے۔ لاہور میں غالباً یہ جین مت کا سب سے بڑا مندر تھا۔ جین مندر بڑا مشہور بس اسٹاپ تھاجو اب بھی ہے۔ مگر کبھی یہاں ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں۔ یہ بس اسٹاپ ٹین کا بنا ہوا تھا۔ جو پیلے اور گہرے رنگ کا تھا۔ یہ بس ا سٹاپ ہیلی کالج آف کامرس (اب ہیلی کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس) پنجاب یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے قریب تھا۔ اس زمانے میں ہیلی کالج آف کامرس کی عمارت (قدیم عمارت) موجودہ عمارت سے کافی مختلف تھی۔ ہم نے کبھی اس تاریخی کوٹھی میں سر گنگارام کے اصطبل اور دیگر قدیم عمار تیں بھی دیکھی ہیں جنہیں گرا کر اب کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان نے بڑی وسیع مسجد اور ہال کی تعمیر شروع کرکے ایک اچھا کام کیا ہے۔ اس مسجد کا فن ِتعمیر اگرمغل یا قدیم فن تعمیر یا پھر ہیلی کالج آف کامرس کی قدیم عمارت سے ملتا جلتا بنایا جاتا، تو اس مسجد کا فن تعمیر اور عمارتی حسن زیادہ نکھر کر آتا۔ سر گنگا رام کی اس کوٹھی کا رقبہ27 کنال پر محیط ہے۔ کوٹھی کیا یہ پورا محل ہے اور قیامِ پاکستان کے بعد ستر کی دِہائی میں یہ کوٹھی اپنی اصل شکل و صورت میں موجود تھی۔ سر گنگارام نے 4مارچ 1927ء کو اپنی یہ خوبصورت کوٹھی/ بنگلہ انگریز گورنر کے حوالے کر دیا۔ یہ تاریخی تختی آج بھی پرنسپل آفس کے پاس نصب ہے، جس پر تحریر ہے:۔

These Premises Were Presented By Sir Ganga Ram Opened By H.E.Sir William Malcolm Haily K.C.S.I.C.I.E.I.C.S

Governor Punjab

On Friday 4Th March 1927

یہ تحریر سنگ مر مر پرسیاہ حروف میں لکھی ہوئی ہے، مگر یہ تختی سر گنگارام کے شایان شان بالکل نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس تختی کے اردگرد لکڑی کے بدنما بارڈر کی جگہ پیتل کے خوبصورت بارڈر بنا کر اس میں نصب کئے جاتے۔ سر گنگارام کی بڑی سی تصویر اور اس کے نیچے اُن کی پوری تاریخ تحریر کی جاتی۔اس علاقے میں یقیناً کچھ اور تاریخی عمارتیں بھی ضرور ہوں گی ہم 1975کے بعد یہاں چوتھی مرتبہ گئے تھے تو کالج کے قریب ایک مکان کی دیوار پر جو خوبصورت نقش ونگار کی ایک پٹی رہ گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علاقہ بڑا قدیم ہے، کالج کے پاس حضرت شاہ اسماعیل گیلانی ؒکا چار سو سالہ قدیم مزار ہے۔

پتہ نہیں جن لوگوں نے اس شہر کو بے مثال بنانے میں نمایاں بلکہ بھرپور حصہ لیا ہم کیوں ان کی خدمات کا ذکر اور اعتراف نہیں کرتے؟ اب مثلاً پورے لاہور کالج (اب یونیورسٹی) میں کہیں بھی آپ کو سر گنگا رام کی کوئی تصویر یا ان کی زندگی کے بارے میں کوئی تحریر نظر نہیں آئے گی۔ اَرے بھائی اُن لوگوں کی خدمات کو صرف کتابوں میں مت درج کرو۔ بڑے بڑے سنگ مرمر کے اوپر اُن کی زندگی کے بارے میں اور ان کی خدمات کو درج کرو۔ جس طرح یہاں چھائونی (لاہور کینٹ) میں 1965ء اور اس سے پہلے کے شہدا کے نام پر جو سڑکیں ہیں وہاں ان کے کارنامے درج کئے گئے ہیں۔ اب آپ یہ سنیں کہ لاہور کالج کے اندر سر گنگارام ٹرسٹ نے جو عمارتیں تعمیر کرائیں اُن میں سے کسی بھی عمارت پر سر گنگارام کے بارے میں کوئی تحریر کندہ نہیں۔

ایک شخص اپنا 27کنال رقبے پر محیط بنگلہ (ہم تو اس کو محل ہی کہیں گے) صرف ایک شخص کے کہنے پر کہ لاہور میں کامرس کی تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں، گورنر کی میز پر اپنے بنگلے کی چابیاں رکھ دیتا ہے اور حکومت سے ایک پائی بھی نہیں مانگتا جبکہ ہم اس کی تاریخی کوٹھی کو مزید بہتر بنانے،محفوظ کرنے اور اس کے اندر جو خوبصورت تعمیرات ہوئی ہیں ان کو مزید بہتر کرنے اور بچانے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ گرا رہے ہیں۔ ابھی اس ہیلی کالج میں ایک قاسم ہال ہے! یقیناً اس کا پہلے کوئی اور نام ہو گا، اس کو گرانے کی تیاری کی جاچکی ہے۔ حالانکہ فن تعمیر کے حوالے سے یہ بڑی خوبصورت عمارت ہے۔ آپ اس خوبصورت کوٹھی کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ آج بھی اس عمارت کے اصل دروازے محفوظ ہیں، آج بھی اس کے خوبصورت برآمدے جو کبھی فو جی بیرکوں میں ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے کئی بہتر حالت میں ہیں۔ اَرے بابا بے شک نئی عمار تیں بنائو مگر پرانی عمارتوں کو بھی محفوظ رکھو۔ ان کو کیوں maintain نہیں کرتے۔

جب یہ تاریخی عمارت پنجاب یونیورسٹی کے سپرد کی گئی تو بہترین حالت میں تھی۔ پچھلے 75برسوں میں اس تاریخی عمارت کا بیڑہ غرق پنجاب یونیورسٹی کی اس انتظامیہ نے کیا، جو پچھلے 75برسوں میں یہاں پر تعینات ہوتی رہی۔ اس انتظامیہ کو اس تاریخی عمارت کی اہمیت کا احساس نہ ہوا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک دوست سیّد محسن رضوی نے جب یہاںسے آزاد امیدوار کے طور پر کونسلر کا الیکشن لڑا اور جیت گئےتو ہم ان کی کنونسنگ کیلئے ہیلی کالج جایا کرتے تھے۔ اس وقت پرنسپل کے کمرے کے چاروں طرف لکڑی اور مٹی کی ہاف ٹائل کا بڑا خوبصورت برآمدہ تھا، اس برآمدے کے کچھ آثار آج بھی قاسم ہال میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہیلی کالج کے اندر جو خستہ ہال ایک عمارت رہ گئی ہے، اس کو مرمت کرا کے اس کا نام سر گنگا رام ہال رکھنا چاہئے۔ ہمیں توقع ہے کہ کالج کے موجودہ پرنسپل ضرور اِس بارے میں منصوبہ بندی کریں گے۔ ان میں اس ادارے کو تاریخی تعلیمی ادارہ بنانے کا پورا پورا جوش و ولولہ ہے۔سر گنگا رام کی کوٹھی کے برآمدوں میں آج بھی قدیم زمانے کی چند ایک خوبصورت کھڑکیاں موجود ہیں اور گاڑی کھڑی کرنے کی روایتی جگہ بھی جس پر چھت بھی ہےجسے آپ گیراج بھی کہہ سکتے ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین