• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


یہ اکتوبر 2016کی بات ہے۔وزیراعظم نوازشریف تھے۔نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل مدتِ ملازمت میں توسیع کی بھرپور کوششیں کی گئیںمگر نوازشریف نہیں مانے۔ چوہدری نثار علی خان سمیت متعدد قریبی رفقا نے جنرل(ر) راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا بار بار کہا مگر نوازشریف نیا آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ جنہوں نے بطور آرمی چیف ایکسٹینشن لینی تھی،انہوں نے براہِ راست بھی نوازشریف سےاپنی اس خواہش کا اظہار کیاتھا۔اسی ملاقات کے بعد نوازشریف نے ایکسٹینشن کا آپشن مکمل طور پر بند کردیا۔ایسے میں جنرل(ر) راحیل شریف کو کسی نے جاکر بتایا کہ اب آپ کو ایکسٹینشن تو نہیں مل رہی مگر میاں صاحب ضرورڈیڑھ ماہ قبل ہی نئے آرمی چیف کا اعلان کرنے والے ہیںکیونکہ ماضی میں بھی تین ماہ قبل نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی مثال موجود ہے۔اس ملاقات کے بعد اس وقت کے آرمی چیف نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو پیغام بھجوایا کہ وہ ایسا نہ کریں اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی ان کی مدت مکمل ہونے پر کی جائے۔اس پیغام کا ایک ہی مقصد تھا کہ ادارے پر آخری دن تک ان کی گرفت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔میاں نوازشریف کا اپنا ایک مزاج ہے۔کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیں تو زندگی بھر مستقبل مزاجی سے اسی پر قائم رہتے ہیں۔مروت اور اخلاص سے جو مرضی منوا لیں،مگر دھونس اور جبر سے انہیں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا یا جاسکتا۔ کسی بات پراگر ڈٹ جائیں تو پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہی معاملہ 2016میں ہوا،جب میاں صاحب کو قریبی رفقا،خاندان کے افراد اور پارٹی کے سینئر رہنما اس وقت کے آرمی چیف کی توسیع کا مشورہ دے رہے تھے تو میاں صاحب گو مگو کی کیفیت کا شکار تھے کہ ایکسٹینشن دینی چاہئے یا نہیںاورشاید میاں صاحب قائل بھی ہوجاتے مگر جب ان صاحب نے براہِ راست ملاقات کرکے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میاں صاحب نے حتمی فیصلہ کرلیا کہ وہ ایکسٹینشن کسی صورت نہیں دیں گے۔

اس طرح نومبر 2013میں میاں نوازشریف نے جب جنرل(ر) راحیل شریف کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیا تو پنجاب ہاؤس میں میٹنگ بلائی۔پنجاب ہاؤس جاتے ہوئے گاڑی میں دو افراد میاں صاحب کے ساتھ تھے۔دونوں میاں صاحب کے بااعتماد ترین وزرا تھے۔میاں صاحب نے ان دونوں افراد کو بتایا کہ میں نے جنرل (ر) راحیل شریف کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیا ہے ۔میاں صاحب کی رائے تھی کہ آرمی چیف کی اس دوڑ میں باقی امیدواروں نے انہیں مختلف ذرائع سے سفارشیں کروائی ہیں مگر جنرل(ر) راحیل شریف کی کوئی سفارش نہیں آئی۔کسی خیر خواہ نے خود اچھی رائے دے دی ہو تو اور بات ہے وگرنہ انہوں نے اس عہدے کے حصول کے لئے غیرمعمولی دلچسپی نہیں دکھائی،ان کی یہی ایک بات میاں صاحب کو متاثر کرگئی۔یوں جنرل(ر) راحیل شریف آرمی چیف بن گئے۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ عہدہ جنرل (ر)راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سنبھالا۔دونوں صاحبان کی ایک قدر مشترک ہے کہ آرمی چیف بننے سے پہلے دونوں بطور تھری اسٹار جنرل ایک ہی عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ قدرت نے مگرپھر ایسا ہاتھ تھاما کہ اپنے ادارے کے سب سے اعلی عہدے پر فائز ہوئے۔ ان دونوں صاحبان کے ساتھ فہرست میں موجود باقی جنرلز بھی اپنی اپنی جگہ قابل اور میرٹ پر پورا اترتے ہوں گے مگر قرعہ فال تو کسی ایک کے نام نکلتا ہے۔ظاہر ہے کہیں پر سسٹم بھی غلطی کرجاتا ہے مگر اکثریتی افراد جو تھری اسٹار جنرل کے منصب تک پہنچتے ہیں ان کی قابلیت اور استعداد بلاشبہ ادارے کے دیگر افسروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔رواں نومبر آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ ہوجائے گا۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ لندن میں وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی تازہ بیٹھک آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے ہے۔مگر میری معلومات کے مطابق نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ نوازشریف صاحب کئی ہفتے قبل کرچکے تھے۔حالیہ میٹنگز تو مشاورتی عمل کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے کی جارہی ہیں۔پی ڈی ایم میں موجود تمام جماعتیں پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔اس میں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔آصف زرداری صاحب سے ہمارے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کس امیدوار کے حامی ہیں؟انہوں نے بنا کوئی توقف کئے ان صاحب کا نام لیتے ہوئے کہا کہ میں نے تو فلاں نام کی تجویز دی تھی مگر حکومت نے اس پر معذرت کرلی کہ وہ سنیارٹی لسٹ میں کافی نیچے ہیں،جس کا میں نے برا بھی نہیں منایا۔میری معلومات کے مطابق آرمی چیف کی اس تعیناتی میں فیئر پلے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزارت دفاع بروقت سینئر جنرلز پر مشتمل فہرست وزیراعظم کو بھیجے گی تو وزیراعظم اس سمری میں سے سب سے سینئر افسر کو آرمی چیف اور دوسرے نمبر پر جو صاحب ہوں گے، انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کردیں گے۔مگر میری معلومات کے مطابق یہ معاملہ انتہائی خوش اسلوبی سے اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔موجودہ آرمی چیف کی ہی ہدایت پر آئی ایس پی آر نے الوداعی ملاقاتوں کا لفظ شامل کیا ہے اور جنر ل قمر جاوید باجوہ بھرپور پیشہ ورانہ اننگز کھیلنے کے بعد اچھی یادوں کے ساتھ رُخصت ہونا چاہتے ہیں۔اس اننگز میں کچھ نشیب و فراز بھی آئے،کچھ تلخ یادیں بھی ہیں مگر ایک قول ہے کہ

All is well,if ends well.....

تازہ ترین