• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ’’گلوبل کلائمیٹ چینج کانفرنس کوپ 27‘‘ مصر کے شہر شرم الشیخ میںمنعقد ہوئی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس دو روزہ تاریخی عالمی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور امریکی صدر جوبائیڈن سمیت دنیا بھر کے 90سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت اور 35ہزار مندوبین (Delegates) نے شرکت کی جس سے کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ بھی اعزاز کی بات تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس اہم کانفرنس کے کوچیئر تھے۔ کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج ایک عالمی ذمہ داری ہے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑااور پاکستان موسمیاتی انصاف (Climate Justice) کا منتظر ہے، عالمی برادری کو چاہئے کہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں تباہ حالی کے شکار ملک پاکستان کی مالی مدد کرے۔

اقوام متحدہ ہر سال ماحولیاتی تبدیلیوں کے اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے۔ ان عالمی کوششوں کا آغاز 1992ء میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں منعقدہ اجلاس سے ہوا اور پھر 1997ء میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی معاہدہ کیا گیا جبکہ دسمبر2015ء میں پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک کے سربراہانِ مملکت نے شرکت کی۔ بعد ازاں پاکستان نے دنیا کے 174دیگر ممالک کے ساتھ کلائمیٹ چینج معاہدے پر دستخط کئے اور 2016ء میں مراکش میں COP22کانفرنس منعقد کی گئی جو پیرس معاہدے پر عملدرآمد کی ایک کڑی تھی جس میں دنیا بھر کے 20 ہزار سے زائد مندوبین نے شرکت کی جو کئی روز تک دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حل اور اس سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے رہے۔ کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک جو ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں، کلائمیٹ چینج پر قابو پانے اور متاثرہ ممالک کیلئے سالانہ 100ارب ڈالر مختص کریں گے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بھی عالمی کانفرنس COP22 میں شرکت کی تھی، جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، مراکش کے بادشاہ محمد ششم اور فرانسیسی صدر سمیت 65سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی تھی۔ اس طرح مجھے کانفرنس میں کئی روز تک جاری مباحثے سننے کا موقع ملا جبکہ حالیہ کوپ 27کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہائوس گیسز کا بڑی مقدار میں اخراج ہے جس سے درجہ حرارت میں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی صنعتی و اقتصادی ترقی اور پٹرولیم مصنوعات کے بے دریغ استعمال کے باعث فضامیں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار مسلسل بڑھتی جا رہی ہے جو موسموں میں یک لخت او رغیر یقینی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہے۔ کرہ ارض کے قطب اور بلند پہاڑی سلسلوں میں پائی جانےوالے برف اور گلیشیرز ماحولیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت بڑھنے کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں سیلابوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا جس کیلئے غیر معیاری ایندھن کا استعمال، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں سے گیسوں کے اخراج کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسی طرح جس مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کئے جائیں، وہاں پلانٹ کے اطراف میں بڑی تعداد میں شجرکاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی آٹو موبائل انڈسٹری کی پالیسی میں بھی ترمیم کرنا ہوگی اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے اور امپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو سہولتیں اور مراعات دینا ہوںگی۔ حکومت کو چاہئے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ملک گیر سطح پر آگاہی مہم کا آغاز کرے جسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے جبکہ ماحولیاتی تحفظ اور موسمی تغیرات کے منفی عوامل کی روک تھام کیلئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے،اگر ہم نے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دی تومستقبل میں زمین پر رہنے والی مخلوق کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اجتماعی نقطہ نظر اپنایا جائے تاکہ پاکستان سمیت ان ممالک کی مدد کی جاسکے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرہ ارض کی بقا کیلئے بنی نوع انسان کو غیر معمولی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اگر اس میں کوتاہی یا تاخیر کی گئی تو اس کا مزید نقصان بھی بنی نوع انسان کو ہی اٹھانا ہوگا۔

تازہ ترین