عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ فوج سے لڑائی پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں تو فوج کے حق میں ہوں، فوج پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے، فوج کے ادارے کو اگرکمزور کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو کمزور کر دیا جائے اور ہمارا نیوکلیئرپروگرام بھی خطرےمیں پڑ جائے! وہ کہتے ہیں کہ اُن کا اعتراض فوج کے ادارے پر نہیں بلکہ چند افراد پر ہے جنہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔
ہو سکتا ہے وہ واقعی یہ سمجھتے ہوں لیکن کوئی ذرا پاکستان تحریک انصاف کے ووٹروں، سپورٹروں کو تو دیکھے اور سنے کہ وہ خان صاحب کی باتیں سن سن کر اپنی ہی فوج کے بارے میں کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران جو طوفانِ بدتمیزی اپنی ہی فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف برپا کیے رکھا ،اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
کوئی خان صاحب کو سمجھائے کہ وہ خود جو چاہے سمجھتے ہوں، اُن کے بیانیوں اور فوج مخالف باتوں سے اُن کے فالوورز کی بڑی تعداد اپنی ہی فوج کے خلاف گمراہ ہوچکی ہے جو پاکستان کے لیے بہت خطرناک ہے۔
کہتے ہیں کہ مجھے تو چند ایک افراد پر اعتراض ہے، تو پھر اُس کا الزام اداروں پر کیوں لگاتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت، بغیر کسی منطق کے؟ اپنے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا، حملہ آور زندہ پکڑا گیا، اُس کا بیان بھی سامنے آ گیا ، نہ حملہ آور نے کسی سازش کی بات کی، نہ پولیس یا کسی سرکاری ادارے اور ایجنسی نے، لیکن حملے والے دن ہی شام کو خان صاحب نے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ ایک میجر جنرل کا نام لےکر کہا کہ اُن تینوں نے قاتلانہ حملے کی سازش کی۔
خان صاحب جو کہتے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہوسکتا ہے وہ غلط ہوں لیکن اُن کے ماننے والے، چاہنے والے ووٹرز سپورٹرز تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ خان صاحب پر انہی لوگوں نے حملہ کروایا ہے۔
کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر پاکستان میں پہنچنے کی دیر تھی کہ خان صاحب اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے اپنے ہی اداروں پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ آج بھی بڑے یقین سے خان صاحب خود بھی، اُن کے دوسرے رہنما اور ووٹرز، سپورٹرز بھی یہی کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ کروائی گئی، حالاں کہ اب جو حقائق وہاں سے سامنے آ رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
اب تو حال یہ ہے کہ گزشتہ رات جیو کے پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ نے عمران خان کو سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی گھڑی اور دوسرے تحائف کے بارے میں خبردی جو خان صاحب کے خلاف جاتی ہے، اس پر بھی چیئرمین تحریک انصاف نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں یہ الزام لگا دیا کہ اس کے پیچھے بھی ہینڈلز ہیں۔
فوج اور اس کی قیادت کو نیوٹرل رہنے پر جانور کے بار بار طعنے دئیے، اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش سے جوڑا اور اس مبینہ سازش کو پاکستان میں کامیاب بنانے کا اداروں پر الزام لگاتے ہوئے انہیں ہینڈلرز کہا۔ جب حکومت میں تھے تو فوج کی قیادت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب کہتے ہیں کہ اُن کے پاس تو اختیار ہی نہ تھا۔
فوج اور اس کی قیادت کے متعلق اتنے الزامات لگائے کہ اب کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ آنے والے آرمی چیف کے متعلق بھی سیاسی نوعیت کے سوال کھڑے کر دئیے یعنی جو ابھی آرمی چیف بنے گا گویا اُسے بھی عہدے پر تعینات ہونے سے پہلے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ خان صاحب کے اس سارے بیانیے کا مقصد اداروں کو اپنی حمایت میں اور موجودہ حکومت کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔
وہ فوج سے چاہتے ہیں کہ فوج موجودہ حکومت کے خاتمے اور فوری الیکشن کے لیے اُن کی مدد کرے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ فوج کو مزید سیاست میں گھسیٹنے کی خواہش ہے، خان صاحب کو کوئی سمجھائے کہ وہ خود کو فوج کے مقابل لے آئے ہیں۔
کوئی ہے جو خان صاحب کو سمجھائے کہ لڑائی سیاسی مخالفین سے کی جاتی ہے نہ کہ اپنے قومی اداروں سے اور وہ بھی ایسے اداروں سے جو پاکستان کی سالمیت اور اس کے تحفظ کے لیے لازم ملزوم ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)