پی ڈی ایم حکومت سے قومی اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ لیکر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان لانگ مارچ کے ہمراہ لاہور سےاسلام آبادپہنچ رہے ہیں۔ اس دوران وزیر آباد میں فائرنگ کا جو واقعہ رونما ہوا اس کا شوروغوغا عالمگیر سطح تک پہنچا۔ چند روز کی تاخیر کے بعد یہ ریلی دوبارہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔راولپنڈی پولیس نے شرکا کی سیکورٹی کےلئے 10ہزار سے زیادہ اہلکار تعینات کئے ہیں جبکہ مانیٹرنگ کےلئے کلوز سرکٹ کیمروں سے بھی کام لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کے مطابق لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے کے بعد معمولات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے اور اس سے عام آدمی کےحقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ وزیر آباد میں رونما ہونے والے واقعے اور فواد چوہدری کے بیان کی روشنی میں یہ بات خارج ازامکان نہیں کہ شرپسند عناصر امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔ 2نومبر کو سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی ریلی اور عوامی اجتماعات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں ایک در خواست دائر کی تھی جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اسلام آباد کے آبادی والے علاقوں میں ریلیوں پر پابندی اور جلسوں اور دھرنوں کیلئے ہدایات طے کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی تاکہ مقامی شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس سننے کے بعد اسے غیر موثر قرار دے کر یہ کہتے ہوئے نمٹادیا کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی تاہم آئینی خلاف ورزی کے خطرے کی صورت میں عدلیہ اس معاملے میں مداخلت کرے گی، احتجاج کا حق لامحدود نہیں بلکہ یہ آئینی حدود سے مشروط ہے۔ سماعت کے دوران فاضل عدالت نے وہ سوالات بھی اٹھائے جو موقع و عمل اور ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں نہایت اہم ہیں جنہیں پوچھے جانے کا مقصد واضح طور پر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کوئی بھی فریق آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا نہ سوچے۔ عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کیا کہ آیالانگ مارچ کیلئے جگہ کا تعین کیا گیا ہے ؟ اس بارے میں انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے نیز یہ کہ کیا انتظامیہ لانگ مارچ کو کنٹرول نہیں کر سکتی؟ درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کا لانگ مارچ دو ہفتے سے جاری ہے اور فواد چوہدری کے مطابق اسے کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچنا ہے۔ اندریں اثناء مقامی تاجروں اور پی ٹی آئی دھرنے اور جلسے کے این او سی کے حصول کی درخواستیں یکجا کرتے ہوئے دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ موٹر وے پر دھرنا دینے کا کسی کو حق نہیں جبکہ جلسہ کرنے سے عام شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ اعلیٰ عدالتی سماعت اور ہدایات کی روشنی میں امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے جہاں اسلام آباد انتظامیہ قانونی کارروائی کرے گی،اس ضمن میں پی ٹی آئی کو ازخود بھی ضابطہ اخلاق پر کاربند رہتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جڑواں شہروں کے داخلی و خارجی راستوں، موٹر وے، جی ٹی روڈ اور دیگر رابطہ سڑکیں جن کی بندش سے اسپتالوں سمیت معمولات زندگی متاثر ہوتے ہوں وہاں دھرنوں اور جلسوں سے اجتناب کیا جائے۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ایسے مواقع پر سیاسی قوتوں کے باہمی مذاکرات آئین اور جمہوریت کے استحکام کاذریعہ بن سکتے ہیں۔