نصاب تعلیم کے متعلق سندھ حکومت اپنا ایک الگ ہی رستہ متعین کر رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو قومی نصاب میں شامل کرنے کا جو فیصلہ ہوا تھا اُس پر باقی صوبے تو عملدرآمد کر رہے ہیں لیکن سندھ کی حکومت نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
حال ہی میں تعینات ہونے والے گورنر سندھ نے دوسرے صوبوں میں پڑھائے جانے والے اسلامی نصاب کو سندھ کے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھانے کی بات کی لیکن وہاں سے جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ کوئی دوسری ہی کہانی سنا رہی ہیں۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم صاحب کا آج مجھے ایک بیان موصول ہوا، جس میں اُنہوں نے حکومت سندھ کی سرپرستی میں لبرل اور سیکولر این جی اوز کے تحت اساتذہ کے لئے تعلیمی وتدریسی مہارتیں سکھانے کی آڑ میں موسیقی، رقص اور اداکاری کو فروغ دئیے جانے پر اعتراض اُٹھایا اور کہا کہ یہ نظریہ اسلام، قیام پاکستان کے وعدے اور آئین کے خلاف ہے۔
پروفیسر صاحب نے کہا کہ حکومتِ سندھ این جی اوز کے اشتراک سے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے نام پر تعلیمی اداروں میں بے حیائی کے فروغ میں سرگرم ہے۔ پروفیسر صاحب نے مزید فرمایا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں’’اساتذہ کا تعلیمی جشن‘‘ (ٹیچر لرننگ فیسٹیول) کے نام سے ایک ایونٹ کا انعقاد کیا گیا، جس کے ٹرینرز لبرل اور سیکولر ذہن کے حامل مرد وخواتین اسپیکرز اور موسیقار تھے۔
ایونٹ کے مرکزی پروگراموں میں ایجوکیشن میں موسیقی کی اہمیت، استعمال کے طریقے اور تھیٹر کی مہارتیں یعنی رقص اور اداکاری سکھانا شامل تھے۔ یہ ایونٹ سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم میں موسیقی کی تعلیم کے حوالے سے کئے گئے فیصلے کا تسلسل تھا، جو نظریہ اسلام اور اساس ِپاکستان کے خلاف ہے۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ مسلمان معاشرے میں رقص، موسیقی اور اداکاری کو اسکول کی سطح پر شامل کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تشویش ناک ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومتی سطح پر اسکولوں میں موسیقی، رقص اور اداکاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، یہاں کا آئین اسلامی ہے اور آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون یا اقدام اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہو گا۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کا این جی اوز کے ساتھ مل کر اس ایونٹ کے ذریعے اساتذہ اور طلبہ کی ذہنی صحت، ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج)، تحریری مہارتوں، بالخصوص شاعری کرنا، قصہ گوئی (اسٹوری ٹیلنگ) کی جدید تعلیمی و تدریسی مہارتیں سکھانے کی آڑ میں ملک عزیز کی نئی نسل کو لادینیت کی راہ پر ڈالنا ایک سنگین عمل ہے۔
پروفیسر صاحب نے حکومت سندھ سے کہا کہ تعلیم کے فروغ کے نام پر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں موسیقی، رقص اور اداکاری کو شامل کیا جانا قطعاً قابل قبول نہیں ہوگا اسلئے ناگزیر ہے کہ مغرب زدہ این جی اوز کے ساتھ جو بھی معاہدے ہوئے ہیں، وہ معاہدے فی الفور ختم کئے جائیں اور آئندہ صوبے میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ موسیقی، رقص اور اداکاری کے مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
میری سندھ حکومت سے درخواست ہے کہ پروفیسر صاحب کی بات پر غور فرمائیں اور اس کے ساتھ ساتھ قومی نصاب میں شامل اسلامی تعلیمات کو باقی صوبوں کے طرز پر وہاں بھی فوری طور پر نافذ کریں۔یاد رہے کہ اسلام کو پڑھانے، نافذ کرنے اور اسلامی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانے کا وعدہ وہ اسلامی آئین کرتا ہے جو بھٹو صاحب نے پاکستان کو دیا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)