میڈیا کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب میڈیا نے آزادی کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھا اور یہ موقع عاشورہ کے روز راولپنڈی میں ہونے والے سانحہ کی رپورٹنگ کے حوالے سے سامنے آیا۔ آزادی کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں اور ہمارا پاکستانی میڈیا مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس بار اورغالباً پہلی بار اس نے ان حدود و قیود کا خیال رکھا۔ کچھ فساد ی عناصر کی وجہ سے دس قیمتی جانیں اس سانحہ کی نذر ہوئیں اور پھر یہ آگ کے شعلے چشتیاں اور بہاولنگر میں بھی کچھ لوگوں کو جھلسانے کا باعث بنے لیکن اگر ہمارے میڈیا نے حسب معمول ان واقعات کی مسلسل گھنٹوں لائیو کوریج کی ہوتی تو اس وقت تک پورا پاکستان آگ اور خون میں نہا چکا ہوتا ۔ناظرین نے ٹی وی چینلز سے صرف یہ خبر سنی کہ راولپنڈی میں عاشورہ کے جلوس میں کچھ ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے کرفیو لگادیا گیا، دلوں میں تجسس تو ضرور پیدا ہوا کہ آخر ہوا کیا تھا جس کی وجہ سے کرفیو تک کی نوبت آئی، اس دوران یقیناً کچھ لوگوں نے افواہیں پھیلانے کی کوشش بھی کی ہوگی مگر موبائل فون کی بندش بھی اس روز ایک نعمت ثابت ہوئی اور یوں پاکستان کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرنے کے خواہشمند گروہ یقیناً مایوس ہوئے ہوں گے۔
تاہم یہ امر بھی خوش آئند تھا کہ قوم کو مکمل طور پر اندھیرے میں نہیں رکھا گیا بلکہ خبروں اور ٹاک شوز میں اشاروں کنایوں سے صورتحال کا ایک اجمالی سا خاکہ بھی بہرحال سامنے آگیا۔ اب یہ بات تو سامنے آگئی ہے کہ شرارت کسی فرقے کے مفسد افراد نے کی اور اس کے ردعمل سے بھی آگاہی ہوگئی تاہم جذبات کو مشتعل کرنے کے اسباب مہیا نہیں کئے گئے۔ یوم عاشورہ کے روز شائع ہونے والے میرے کالم میں یہ بات واضح طور پر موجود تھی کہ شرارت کسی ایک طرف سے نہیں ہوتی، میں نے لکھا تھا کہ مذہب، کو مذہبی پیشوائوں نے تجارت کی شکل دے دی ہے اور جس طرح کاروباری لوگ اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اسی طرح کچھ مذہبی پیشوا بزرگان دین کے حوالے سے دلآزاری کا حربہ اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یوں بقول جوش ملیح آبادی عشرۂ محرم ان کے لئے روز عید کی طرح ہوتا ہے، میں نے اس کالم میں کہا تھا کہ ایسا صرف ایک گروہ کی طرف سے نہیں بلکہ ان سب گروہوں کی طرف سے ہوتا ہے جو مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں چنانچہ میں نے تجویز پیش کی تھی کہ دونوں طرف کے فسادی مذہبی پیشوائوں کو شکنجے میں کسنا چاہئے ورنہ یہ پاکستان میں شیعہ سنی فساد کراکر ہی دم لیں گے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں، آپس میں دوستیاں اور رشتے داریاں بھی ہیں۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت نے کفر کے فتوے کو پرکاہ کی وقعت نہیں دی کیونکہ گزشتہ چودہ سو برس سے دونوں طرف کے جید علماء ایک دوسرے کومسلم امہ کا حصہ سمجھتے ہیں، یہ جو ماضی میں اہل تشیع اور اہل سنت کے اہم افراد کو چن چن کر مارا گیا اور مسجدوں اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا ،یہ ایک ہی گروہ کی کارروائی تھی جس کے کارندے پاکستانی ہیں لیکن ان کی ڈوری ہلانے والے ہمارے کچھ بیرونی دوست ممالک ہیں، ان کارروائیوں کا مقصد سنیوں اور شیعوں کو الگ الگ مشتعل کرکے ایک بڑے فرقہ ورانہ تصادم کی راہ ہموار کرنا تھا لیکن کئی عشروں کی کارروائیوں کے باوجود یہ گروہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا ،تاہم راولپنڈی کا سانحہ اس گروہ کی ایک جزوی کامیابی ہے جہاں پہلے چند فسادیوں نے فساد کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد دوسری طرف سے بھی لوگ آئے اور یوں ایک تصادم کی شکل پیدا ہوگئی۔ ایک بار پھر پاکستانی میڈیا کا شکریہ کہ اس نے ان خون آشام واقعات کی لائیو کوریج نہ کرکے معاملے کو کافی حد تک آگے نہیں بڑھنے دیا ، ورنہ آج یہ کالم لکھتے وقت پورے ملک سے ا ٓنکھوں سے خون ٹپکانے والی خبریں سننے میں آرہی ہوتیں، اللہ کرے ہمارا میڈیا آئندہ بھی اس نوع کے و اقعات کے حوالے سے’’بریکنگ نیوز‘‘ اور گھنٹوں لائیو کوریج دکھانے کا سلسلہ ترک کردے۔
باقی رہی انتظامیہ کی کارکردگی تو میرے خیال میں اس مرتبہ حفاظتی اقدامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی تھی ، چنانچہ محرم کے دس دنوں میں پورے ملک سے کوئی ناخوشگوار اطلاع سننے کو نہیں ملی۔ راولپنڈی میں بھی حالات قابو میں تھے مگر شرارت اچانک ادھر سے ہوئی جدھر سے اس کی امید ہی نہیں تھی چنانچہ یہ ناگہانی آفت اس سانحہ کا باعث بن گی۔ بہرحال آئندہ کے لئے حکومت کو ابھی سے اپنے لائحہ عمل کا اعلان اور اس پر عملدرآمد شروع کردینا چاہئے۔ حکومتی ایجنسیوں کو یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کون سے’’خطیب‘‘ اور کون سے ’’ذاکر‘‘ سارا سال کیا خرافات بکتے رہتے ہیں، ان کی زبانوں سے نکلی گی ان’’باریک‘‘ باتوں کا نوٹس بھی لیا جائے جس پر ان پڑھ عوام نعرہ ہائےتکبیر اور نعرہ ہائے حیدری بلند کرتے ہیں اور پھر ان کی پکڑ کے لئے ماہ محرم کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ موقع پر ہی انہیں گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا جائے۔ اس طرح کے فسادی مولوی اور ذاکر دو بھائیوں کو آپس میں متصادم کرانا چاہتے ہیں۔ ان سے ڈرنے اور ان سے بلیک میل ہونے کی بجائے انہیں ایسے خوف میں مبتلا کردیا جائے کہ یہ سب چوکڑیاں بھول جائیں۔
راولپنڈی کے سانحہ میں ایک اچھی خبر بھی سننے کو ملی اور وہ یہ کہ فریقین کے سلیم الفطرت افراد نے فسادات کی آگ پر پانی ڈالنے کیلئے اپنی جانیں بھی خطرہ میں ڈ ال دیں۔ ایک اچھی خبر شیخ رشید کے حوالے سے بھی ہے کہ اس معاملے میں انہوں نے بھی بہت مثبت کردار ادا کیا، اللہ کرے شیخ صاحب سیاسی معاملات میں بھی اسی روپ میں نظر آئیں۔