لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے اس قانونی نکتے پر دلائل مانگ لیے کہ کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بننے والی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف ہائیکورٹ سماعت کر سکتی ہے؟
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوسری جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
درخواست پولیس اہلکار خرم رفیق اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی، خرم رفیق کی جانب سے ایڈووکیٹ فرہاد شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے واقعے کی 2 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، اس واقعے پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، اس جے آئی ٹی نے چالان عدالت میں جمع کرایا۔
جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس معاملے کی دونوں ایف آئی آرز پڑھ دیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آرز کے علاوہ استغاثہ بھی دائر ہوا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، حکومت نے جے آئی ٹی بنانے کا بیان دیا جس پر سپریم کورٹ نے معاملہ نمٹا دیا، آپ نے اسی جے آئی ٹی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا دوسری جے آئی ٹی بن سکتی تھی، دوسری جے آئی ٹی اس طرح نہیں بن سکتی، سپریم کورٹ کے حکم سے یہ تاثر نہیں لیا جاسکتا کہ یہ جےآئی ٹی عدالتی حکم پر بنی۔
وکیل نے کہا کہ جب استغاثہ آگیا، فرد جرم لگ گئی تو ایک اور جے آئی ٹی نہیں بن سکتی، سپریم کورٹ کے روبرو درخواست میں جے آئی ٹی بنانےکی استدعا ہی نہیں تھی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ درخواست کی استدعا اہم نہیں، سماعت کی اہمیت ہے۔
درخواست گزار کے وکیل دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت کو دیکھنا بھی اہم ہے، اس سماعت میں متاثرہ پولیس اہلکاروں کا مؤقف ہی نہیں سنا گیا، نہ ہی سپریم کورٹ کے حکم پر یہ جے آئی ٹی بنائی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جب حکومت نے جے آئی ٹی بنانے کا بیان دیا تب آپ نے سپریم کورٹ میں اعتراض کیوں نہیں کیا۔
وکیل فرہادشاہ نے کہاکہ میری اطلاعات کے مطابق اعتراض ہوا تھا، جب کیس میں فرد جرم لگ جائے تو نئی تفتیش نہیں بن سکتی۔
جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جو میرٹ کی بجائے کسی فریق کے بیان پر جاری ہو۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم اس تناظر میں نہیں تھا، پنجاب حکومت کے پاس بار بار جے آئی ٹی بنانے کا اختیار نہیں تھا، یہ اختیار وفاقی حکومت کو ہے، تفتیش کی تبدیلی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نہیں بلکہ پولیس آرڈر میں ہے۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دوسری ایف آئی آر پر بھی جے آئی ٹی بن گئی تھی، منہاج القرآن نے استغاثہ میں سارے ثبوت عدالت میں جمع کرا دیے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو علم تھا کہ جے آئی ٹی بن سکتی ہے یا نہیں، سپریم کورٹ نے پھر بھی دوسری جے آئی ٹی بنانے کےحکومتی بیان پر آرڈر کیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس پر لاہور ہائی کورٹ سماعت کر سکتی ہے۔
وکیل فرہاد شاہ نے کہا کہ مجھے وقت دے دیں، میں تیاری کے بعد اس نکتے پر معاونت کردوں گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی۔